حضرت فاطمۃ الزہراؓ

334

کلیم چغتائی
گزشتہ سے پیوستہ
اس سے قیاس ہوتا ہے کہ میری وفات کا وقت قریب آ گیا ہے ۔ یہ سن کر میں رونے لگی ۔ پھر حضور ﷺ نے فرمایا کہ تم میرے گھر والوں میں سب سے پہلے مجھے ملو گی اور تم جنت کی خواتین کی سردار ہو گی ۔ اس بات سے مجھے خوشی ہوئی اور میں ہنسنے لگی ۔‘‘
نبی کریم ﷺ کا وصال ہوا تو سیدہ ؓ پر گویا رنج و الم کا پہاڑ ٹوٹ پڑا ۔ سیرت نگاروں کے مطابق اس کے بعد کسی نے حضرت فاطمہ ؓ کو ہنستے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ ؓ ہر وقت رنجیدہ اور ملول رہنے لگیں ۔ وہ سخت نحیف اور کمزور ہو گئیں ، جب ضعف اور نقاہت بہت بڑھ گئی تو آپ ؓ نے حضرت ابو بکر ؓ کی زوجۂ محترمہ حضرت اسماء ؓ بنت عمیس کو بلوا کر ان سے فرمایا ، ‘‘ میرا جنازہ لے جاتے وقت اور تدفین کے وقت پردے کا خاص خیال رکھا جائے ۔‘‘ حضرت اسماء ؓ نے کہا کہ میں نے حبش میں دیکھا ہے کہ جنازے پر درخت کی شاخیں باندھ کر ان پر پردہ ڈال دیتے ہیں ۔ ‘‘ پھر انہوں نے کھجور کی چند شاخیں منگوائیں انہیں جوڑا اور ان پر کپڑا ڈال کر دکھایا ۔ حضرت فاطمہ ؓ نے اس طریقے کو پسند فرمایا ۔
رمضان المبارک11ھ میں رسول اللہ ﷺ اللہ کی پیاری بیٹی حضرت سیدہ فاطمہ ؓ سفر آخرت پر روانہ ہو گئیں ۔ ( اس تاریخ پر مؤرخین کے درمیان اختلاف ہے ۔ مختلف مؤرخین کے مطابق حضرت فاطمہ ؓ نے نبی کریم ﷺ کے وصال کے دو ماہ ، چار ماہ ، چھ ماہ ، آٹھ ماہ ، یا اٹھارہ ماہ بعد وفات پائی ، لیکن زیادہ مؤرخین کا اتفاق چھ ماہ کی روایت اور3رمضان المبارک11ھ کی تاریخ پر ہے )۔
حضرت فاطمہ ؓ کے وصال کی خبر پھیلی تو لوگ مبہوت رہ گئے ۔ حضرت علی ؓ سخت رنجیدہ ہوئے تھے ۔ ایک روایت کے مطابق حضرت ابو بکر ؓ نے اور دوسری روایت کے مطابق حضرت علی ؓ نے نماز جنازہ پڑھائی ۔
سیدہ فاطہ ؓ جہاں ایک سعادت مند اورنیک بیٹی تھیں وہاں بہت خدمت گزار اور صابر الفطرت بیوی بھی تھیں ۔ آپ ؓ نے حضرت علی ؓ کا ہمیشہ احترام فرمایا ،ان کی اطاعت کی اور خدمت کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیا ۔ یہ گھران زوجین کے پاکیزہ ، خلوص آگیں اور محبت آمیز تعلقات کی سچی تصویر تھا ۔
حضور اکرم ﷺ نے حضرت علی ؓ اور سیدہ بتول ؓ کے درمیان کاموں کی تقسیم فرما دی تھی ۔ گھر کے اندر جتنے کام تھے،مثلاً چکی پیسنا ، جھاڑو دینا ، کھانا پکانا وغیرہ وہ سب حضرت فاطمہ ؓ کے سپرد تھے ۔ باہر کے کام مثلاً بازار سے سودا لانا ، اونٹ کو پانی پلانا ، پانی بھر کر لانا وغیرہ یہ سب کام حضرت علی ؓ کے ذمہ تھے ۔ حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ بے حد محنتی تھیں ۔ آپ ؓ کی طبیعت ناساز ہونے کے باوجود بھی گھر کے تمام کام اپنے ہاتھ سے انجام دیتی تھیں ۔ ایک بار سیدہ ؓ کو بخار آ گیا ۔ رات بھر آپ ؓ شدید بے چین رہیں ۔ حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ میں بھی رات بھر جاگتا رہا ۔ رات کے پچھلے پہر آنکھ لگ گئی ۔ فجر کی اذان سن کر بیدار ہوا تو دیکھا فاطمہ ؓ وضو کررہی تھیں ۔ میںنے مسجد جا کر نماز ادا کی واپس آیا تو دیکھا کہ فاطمہ ؓ معمول کے مطابق چکی پیس رہی ہیں ۔ میں نے کہا ، ’’ فاطمہ ؓ تمہیں اپنے حال پر رحم نہیں آتا؟ رات بھر تمہیں بخار رہا ۔ صبح اُٹھ کر ٹھنڈے پانی سے وضو کر لیا ،ا ب چکی پیس رہی ہو۔ اللہ نہ کرے زیادہ بیمار ہو جائو۔‘‘
حضرت فاطمہ ؓ کاجواب تھا :’’ میں اپنے فرائض ادا کرتے ہوئے مر بھی جائوں تو کچھ پروا نہیں ۔ میں نے وضو کیا اور نماز پڑھی اللہ کی اطاعت کے لیے اور چکی پیسی آپ ؓ کی اطاعت اور بچوں کی خدمت کے لیے ۔ ‘‘
حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ گھر کے کاموں میں مصروف رہتے ہوئے بھی ایک لمحہ کے لیے اللہ کی یاد سے غافل نہ ہوتی تھیں ۔ حال یہ تھا کہ آپ ؓ چکی پیستی تھیں یا کوئی اور کام کر رہی ہوتی تھیں اور آپ ؓ کی زبان پر قرآن کی آیات جاری ہوتی تھیں ۔ حضرت علی ؓ کا بیان ہے کہ میں فاطمہ ؓ کو دیکھتا تھا کہ کھانا پکاتی جاتی تھیں اور ساتھ ساتھ اللہ کا ذکر کرتی جاتی تھیں ۔ آپ ؓ بہت عبادت گزار تھیں لیکن حضرت علی ؓ فرماتے ہیں کہ عبادت کی کثرت کی وجہ ے آپ ؓ گھر کے کاموں میں فرق نہ آنے دیتی تھیں ۔
رسول اللہ ﷺ کامکان متصل ہونے کی وجہ سے آپ ﷺ کی زبان مبارک سے آیات قرآنی اور دیگر نصیحتیں سننے کا موقع ملتا رہتا تھا ۔ جب بھی حضور ﷺ آخرت کا ذکر فرماتے حضرت فاطمہ ؓ شدت احساس سے رو پڑتیں ، عبادت کے وقت بھی آپ ؓ کے جسم پر لرزہ طاری ہوجاتا تھا ، آنکھیں اشک بار ہو جاتیں اور اکثر مصلیٰ آنسوئوں سے تر ہو جاتا تھا ۔
جب اسلام تیزی سے پھیلنے لگا اور مجاہدین کو فتوحات حاصل ہونے لگیں تو مدینہ منورہ میںمال غنیمت آنے کا سلسلہ شروع ہوا ۔ حضور ﷺ اللہ کی ہدایت کے مطابق مال غنیمت کا صرف پانچواں حصہ اپنے پاس رکھ کربقیہ چار حصے مجاہدین میں تقسیم کر دیتے،پھر اپنا حصہ بھی راہِ خدا میں دے دیتے۔ آپ ﷺ نے اپنا حصہ اپنی ازواج مطہرات ؓ اوراپنی لاڈلی بیٹی سیدہ فاطمہ ؓ تک کو دینا گوارا نہ فرمایا ۔ا یک بار حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ سے کہا کہ ’’ چکی پیستے پیستے تمہارے ہاتھوں میں گٹے پڑ گئے ہیں اور چولہا پھونکتے پھونکتے تمہارے چہرے کا رنگ بدل گیا ہے ۔ آج حضور اکرم ﷺ کے پاس مال غنیمت میں بہت سی کنیزیں آئی ہیں ، جائو اپنے ابا جان و سے ایک کنیز مانگ لائو۔‘‘
سیدہ فاطمۃ الزہرا ؓ حضور ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئیں لیکن شرم کی وجہ سے کوئی بات عرض نہ کر سکیں اور واپس آ گئیں ۔ دوسرے دن آپ ؓ حضرت علی ؓ کے ساتھ حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچیں اور اپنی تکالیف بیان کر کے ایک کنیز کی درخواست کی ۔ حضور اکرم ﷺ نے فرمایا:’’ میں تمہیں کوئی کنیز خدمت کے لیے نہیں دے سکتا ۔ ابھی اصحاب صفہ کے لیے انتظامات کرنے ہیں ۔ میں ان لوگوں کو کیسے بھول جائوں جنہوںنے اپنے گھر بار چھوڑ کر فاقہ کیا ہے ۔ ‘‘
یہ سن کر حضرت علیؓ اور حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ خاموشی کے ساتھ واپس چلے گئے ۔
(جاری ہے)
رات میں آنحضرت ﷺ سیدہ فاطمہ ؓح کے گھر تشریف لائے اور فرمایا:’’ تم جس چیز کی خواہش مند تھیں ، اس سے بہتر ایک چیز میں تم کو بتاتا ہوں ۔ ہر نماز کے بعد دس بار سبحان اللہ ، دس بر الحمد اللہ اور دس بار اللہ اکبر پڑھا کرو اور سونے سے پہلے 33 مرتبہ سبحان اللہ ، 33 مرتبہ الحمد اللہ اور 34 بار اللہ اکبر پڑھ لیا کرو ۔ یہ عمل تمہارے لیے لونڈی اورغلام سے بہتر ہو گا ۔ ‘‘
حضرت فاطمہ ؓ نہ صرف اپنے شوہر اور بچوں کی بلکہ عزیزوں ، رشتہ داروں اپنے جاننے والوں اور اہل محلہ کی خدمت کے لیے بھی تیار رہتی تھیں ۔
حضرت فاطمہؓ کی خوشدامن حضرت فاطمہ ؓ بنت اسد کا کہنا ہے کہ ’’ میری جس قدر خدمت فاطمہ ؓ نے کی ہے شاید ہی کسی بہو نے اپنی ساس کی خدمت کی ہو ۔ ‘‘
حضرت سیدہ فاطمہ ؓ ہر معاملے میں حضور اکرم ﷺ کی ہدایت کو پیش نظر رکھتی تھیں اور آپ ﷺ کے اشارۂ ابرو کو خوب سمجھتی تھیں ۔ ایک بار حضرت علی ؓ نے حضرت فاطمہ ؓ کو باہر سے کچھ رقم بھیجی ۔ اس زمانے میں حضور ﷺ کہیں باہر تشریف لے گئے تھے ۔ آپ ﷺ واپس آئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے اس خوشی میں ایک نقشین پردہ خرید کر دروازے پر لٹکا دیا اور چاندی کے دو کنگن بنوا کر ہاتھوں میں پہن لیے ۔ حضور ﷺ تشریف لائے تو آپ ﷺ نے خلاف معمول گھر میں قدم نہ رکھا اور واپس چلے گئے ۔ حضرت فاطمہ ؓ اس پر بہت رنجیدہ ہوئیں اور رو پڑیں ۔ آپ ؓ نے حضور ﷺ کی بے رُخی پر غور کیا تو یہی بات سمجھ میں آئی کہ میں نے دروازے پر نقشین پردہ لگا دیا ہے اور ہاتھوں میں کنگن پہن لیے ہیں ۔ شاید اس وجہ سے حضور ﷺ ناراض ہو گئے ہیں ۔ آپ ؓ نے پردہ اتار دیا اور کنگن ہاتھوں سے نکال دیے پھر یہ دونوں چیزیں حضرت حسن ؓ اور حضرت حسین ؓ کے ہاتھوں حضور اکرم ﷺ کی خدمت میں بھجوا دیں ۔
بچے پہنچے تو آنحضرت ﷺ بڑے خوش ہوئے ۔ آپ ﷺ نے بیٹی فاطمہ ؓ کے لیے دعا فرمائی ۔ آپ ﷺنے یہ بھی فرمایا: یہ میرے اہل بیت ہیں نہیں چاہتا کہ وہ ان زخارف( زرق برق آرائش) سے آلودہ ہوں۔( سنن ابو دائود ، سنن نسائی)۔
آنحضرت ﷺ کو حضرت فاطمہ ؓ سے بے حد محبت تھی ۔ جب کبھی آپ ﷺ سفر پر جاتے تو سب سے آخرمیں حضرت فاطمہ ؓ سے ملنے کے لیے جاتے اور جب سفر سے واپس تشریف لاتے تو سب سے پہلے سیدہ فاطمہ ؓ سے آ کر ملتے ۔ حضور ﷺ تقریباً ہر روز حضرت فاطمہ ؓ کے گھر تشرف لے جاتے ، ان کی کوئی مشکل ہوتی تو اسے حل کرنے کی کوشش فرماتے ۔ آپ ﷺ کے گھر میں کوئی چیز پکتی تو آپ ﷺ اس میں سیء ایک حصہ حضرت فاطمہ ؓ کے ہاں ضرور بھجوادیتے ۔
اللہ کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے : فاطمہ ؓ میرے جسم کا ایک حصہ ہے ، جس نے اس کو اذیت دی اس نے مجھ کو اذیت دی( صحیح بخاری) ۔ ایک اور موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا: فاطمہ ؓ اہل جنت کی خواتین کی سردار ہیں ۔
رسول اللہ ﷺ حضرت فاطمہ ؓ کے بچوں حسن اور حسین ؓ کو بھی بہت عزیز رکھتے تھے اور فرماتے تھے کہ حسن اور حسین جنت کے جوانوں کے سردار ہیں ۔
حضرت اسامہ ؓ بن زید ؓ فرماتے ہیں کہ ایک بار میں نے کسی ضرورت سے رسول اللہ ﷺ کے دروازے پر دستک دی ، آپ ﷺ کسی چیز کو چادر میں لپیٹے ہوئے باہر تشریف لائے میں جب اپنی ضرورت بیان کر چکا تو میں نے دریافت کیا ۔
’’ یہ آپ ﷺ کیا لپیٹے ہوئے ہیں ؟‘‘
آپ ﷺ نے چادر ہٹائی تو اس میں حسن ؓ اور حسین ؓ برآمد ہوئے جو آپ ﷺ کی گود میں چڑھے ہوئے تھے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا: یہ دونوں میرے بیٹے ، میری بیٹی کے جگر کے ٹکڑے ہیں ۔ اے اللہ میں ان دونوں سے محبت کرتا ہوں ، تو بھی ان دونوں سے اور ہر شخص سے جو ان سے محبت رکھتا ہے ،محبت فرما۔( جامع ترمذی)۔
حضرت فاطمۃ الزہرا ؓ نے اٹھائیس یا انتیس برس کی عمر پائی ، چنانچہ آپ ؓ کو زیادہ احادیث روایت کرنے کاموقع نہیں ملا ۔ آپ ؓ سے اٹھارہ یا انیس احادیث مروی ہیں ۔ امام دار قطنی ؒ نے حضرت فاطمہ ؓ سے روایت کردہ احادیث پر مشتمل ایک کتاب تیار فرمائی تھی جس کا نام مسند فاطمہ ؓ رکھا تھا ۔ حضرت سیدہ بتول ؓ علم حاصل کرنے کے لیے ہمیشہ تیار رہتی تھیں ۔ آپ ؓ شعر بھی کہتی تھیں ۔ آپ ؓ کی بعض نصیحتوں کا بعد میں فارسی میں ترجمہ کیا گیا ۔