کراچی میں بارشیں اور معاشی نقصانات

240

zc_Rizwan-Ansariکراچی کے گلی کوچوں اور میدانوں میں حالیہ بارشوں کے آثار ابھی تک دیکھے جاسکتے ہیں جہاں پانی ابھی تک موجود ہے اور اس میں تعفن پیدا ہوجانے کی وجہ سے قریب سے گزرنا مشکل ہے، مساجد کے قریب پانی جمع ہونے کے باعث نماز کے لیے جانا مشکل ہے، سڑکیں ٹوٹ جانے اور ان میں گڑھے پڑ جانے کی وجہ سے گاڑی چلانا مشکل ہے، یہ وہ بارشیں تھیں جن کے بارے میں مقامی اور بین الاقوامی موسمیاتی ادارے کئی دنوں سے پیش گوئیاں کررہے تھے۔ خوفناک طوفان اور تیز بارشوں سے ہونے والے متوقع نقصانات سے خبردار کررہے تھے۔ وقت اور دنوں کا تعین کررہے تھے لیکن اس کے باوجود بلدیاتی اور صوبائی حکومت سوتی رہی اور زبانی بیانات اور اعلانات کو کافی سمجھا گیا۔ اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بارشوں کے بعد سڑکیں دریا بن گئیں، انڈر پاس تالاب کا منظر پیش کرنے لگے، بارش کا پانی گلیوں اور میدانوں کے بعد گھروں میں بھر گیا۔ گاڑیاں سڑکوں پر ڈوب گئیں یا تیرنے لگیں۔ بجلی اور مواصلاتی نظام درہم برہم ہوگیا، ایک طرف گھروں میں پانی دوسری طرف اندھیرا اس سے بڑا عذاب کیا ہوسکتا ہے۔ پی آئی اے کی دس مقامی پروازیں اور پانچ انٹرنیشنل فلائٹس منسوخ کردی گئیں یا تاخیر سے روانہ ہوئیں اور بارش جو نارتھ کراچی کے قرب و جوار میں 130 ملی میٹر اور لانڈھی وغیرہ میں 20 ملی میٹر تھی اس میں سات بچوں سمیت 23 افراد بھی کرنٹ لگنے یا دیواریں گرنے سے ہلاک ہوئے۔



یہ بات بار بار دہرائی جاتی ہے کہ کراچی پاکستان کا معاشی حب ہے، کاروباری اور صنعتی سرگرمیوں کا مرکز ہے، 60 فی صد ریونیو دینے والا شہر ہے مگر اس کو بہتر بنانے میں نہ تو بلدیاتی ادارے سنجیدہ ہیں اور نہ صوبائی حکومت۔ حالیہ بارشوں کے بعد تجارتی اور کاروباری سرگرمیاں تقریباً مفلوج ہوگئیں، سائٹ، نارتھ کراچی اور کورنگی کے انڈسٹریل ایریاز میں 50 سے 70 فی صد کارخانے بند رہے۔ ہول سیل مارکیٹیں اور شاپنگ سینٹر نہ کھل سکے۔ بینکوں میں اسٹاف کم ہونے کی وجہ سے پوری طرح کام نہ ہوسکا، روزانہ کی بنیاد پر کام کرنے والوں کی اجرت ماری گئی، تجارتی اور کاروباری لحاظ سے 100 ملین روپے کا نقصان ہوا، جانی نقصان اس کے علاوہ ہے۔ بارش کے بعد بلدیاتی اور صوبائی حکومتیں ایک دوسرے کو موردِ الزام ٹھیراتی رہیں۔ صوبائی حکومت نے بلدیاتی حکومت سے فنڈ کا حساب مانگنا شروع کردیا جب کہ میئر اور ڈپٹی میئر اختیارات کا رونا روتے رہے۔ ایسے میں فوج، نیوی اور رینجرز نے میدان میں آکر پانی میں گھرے لوگوں کی مشکلات کو کم کیا اور پمپوں سے پانی نکالا۔ الخدمت نے پانی میں پھنسے لوگوں کو کھانا فراہم کیا اور ٹرانسپورٹ فراہم کی۔



دنیا بھر کے معاشی ماہرین اور محققین نے تحقیق سے یہ ثابت کی ہے کہ مضبوط اور موزوں انفرااسٹرکچر ملک کی معاشی ترقی اور بہتری میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ سڑکیں، ہائی ویز، پل، سیوریج کا نظام اطلاعات و مواصلات، پانی بجلی اور گیس کی فراہمی، ڈاک اور ٹیلی فون کا نظام، فعال اور پُراثر مالیاتی ادارے وغیرہ یہ تمام عناصر انفرااسٹرکچر میں شامل ہیں اور ایک ملک میں ہونے والی معاشی سرگرمیوں میں یہ تمام عناصر مددگار ثابت ہوتے ہیں۔ چوڑی اور صاف سڑکیں ہوں گی تو مال فیکٹریوں سے نکل کر مارکیٹوں تک پہنچ سکے گا۔ بجلی اور پانی اور گیس دستیاب ہوں گی تو فیکٹریاں اور کارخانے چلیں گے۔ فیکٹریاں چلانے والے اپنے مال کی صحیح طلب بہتر اطلاعاتی نظام کے ذریعے معلوم کرسکیں گے۔ اطلاعاتی نظام کے ذریعے ہی مال تیار کرنے والے اور خریدنے والے کے درمیان بہتر رابطہ ممکن ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج کی دنیا میں انفرااسٹرکچر کی بہتری اور ترقی پر بہت توجہ دی جارہی ہے۔ اس کی سب سے بڑی مثال چین ہے جو کھربوں ڈالر سڑکیں، ہائی ویز، پل، بندرگاہیں اور توانائی وغیرہ پر خرچ کررہا ہے۔ کیوں کہ چین جو سب سے زیادہ آبادی والا ملک ہے اس کی فیکٹریوں اور کارخانوں میں تیار ہونے والا مال سڑکوں اور بندرگاہوں کے ذریعے ہی دنیا کی مارکیٹوں میں پہنچے گا اور اسی طرح اس کی معاشی ترقی کی رفتار برقرار رہ سکتی ہے۔



شہر کراچی کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ گزشتہ تیس سال میں کراچی کے حقوق کے دعویداروں نے احساس محرومی کے جذبات کو بھڑکا کر ووٹ تو حاصل کرتے رہے اور بلا شرکت غیرے کراچی پر حکومت کرتے رہے مگر انفرااسٹرکچر بجائے بہتر کرنے کے اسے تباہ کردیا، اس شہر میں پہلے لوکل ٹرین چلتی تھی اور شہر کے مختلف حصوں سے لوگ ٹرین کے ذریعے بڑے آرام سے اور سستے کرایے میں اپنے دفاتر پہنچ جاتے تھے اور شام کو گھر واپس آجاتے تھے۔ اس کے علاوہ سرکلر ریلوے بھی تھی جو پورے شہر کا چکر لگاتی تھی اور رہائشی علاقوں اور صنعتی مراکز سے گزر کر لوگوں کو ان کی منزل مقصود تک پہنچاتی تھی۔ ٹرین کا نظام بہتر کرنے کے بجائے اسے ختم کردیا گیا۔
لوکل ٹرین کے بعد دوسرا متبادل سرکاری شعبے کے تحت چلنے والی بسیں تھیں جو شہر کے تمام ہی مضافاتی علاقوں سے مسافروں کو شہر کے مرکز تک پہنچاتی تھیں۔ مزید یہ کہ پرائیویٹ بسیں بھی موجود تھیں اور ان سب بسوں میں طلبہ کے لیے رعایتی ٹکٹ کی سہولت موجود تھی۔ تیس سالہ لسانی سیاست کا عوام کو یہ تحفہ ملا کہ سرکاری شعبے کے تحت چلنے والی پبلک ٹرانسپورٹ مکمل طور پر غائب ہوگئی۔



انفرااسٹرکچر کا دوسرا عنصر سڑکیں ہیں کراچی کی سڑکوں کی حالت کھنڈرات سے بدتر ہے بعض جگہ سڑکیں غائب ہوچکی ہیں۔ سڑکیں بنتی ضرور ہیں مگر نیچے سے اوپر تک کرپشن کے بعد جو فنڈ بچتا ہے اس سے ایسی ہی سڑکیں بن سکتی ہیں جو سال چھ ماہ سے زیادہ نہیں چل سکتیں۔ اس کے بعد نمبر آتا ہے پانی، بجلی اور سیوریج کا، کراچی کے بے شمار علاقے ایسے ہیں جہاں پانی آتا ہی نہیں یا ہفتے میں ایک بار آتا ہے، بجلی اور سیوریج کا حال کسی سے ڈھکا چھپا نہیں۔ غرضیکہ کراچی کا انفرااسٹرکچر مکمل طور پر تباہ ہے ملک کی معاشی ترقی کے لیے کراچی کی ترقی ضروری ہے اور کراچی کی ترقی میں سب سے پہلی ترجیح انفرااسٹرکچر کی ترقی اور بہتری ہونی چاہیے۔