مسلم اُمہ صلاح الدین ایوبی کی منتظر؟

475

سمیع اللہ ملک
میانمر کی درندہ صفت فوج اورامن کے درس کالبادہ اوڑھے بدھ مت کے پیروکاروں کے ہاتھوںایک مرتبہ پھر بے بس و مجبور روہنگیا مسلمانوں کے بہیمانہ اجتماعی قتل عام کے مناظر نے دلوں کودہلاکر رکھ دیاہے اورانسانیت بھی شرم کے مارے اپنامنہ چھپائے اقوام عالم کے ضمیروں کوجگانے میں ناکام نظر آرہی ہے۔ اب تک 3 لاکھ سے زائد بدنصیب روہنگیاکے مسلمان اپنی جان بچانے کے لیے بنگلا دیش کی سرحد پر مدد کے لیے سرحدی محافظوں کی منت سماجت کررہے ہیں۔ بالآخر ترکی کے صدرطیب اِردوان اورانڈونیشیاکی خصوصی مداخلت پر روہنگیاکے مسلمانوں کوبنگلا دیش میں عارضی طورپرداخلے کی اجازت دے دی گئی ہے لیکن اب شنیدیہ ہے کہ بنگلا دیش کی حکومت نے مزید روہنگیاکے مسلمانوں کوروکنے کے لیے سرحدوں پر رکاوٹیں لگا دی ہیں جبکہ میانمر کی فوج نے سرحدی علاقوں میں بارودی سرنگیں بچھا دی ہیں، گویاموت کے خوف سے بھاگنے والوں کے لیے اب یہاں بھی موت استقبال کے لیے تیارہے۔



حال ہی میں ایک بین الاقوامی میڈیاکے نمائندے نے حسینہ واجدکی توجہ جب ان اقدامات کی جانب دلائی توانہوں نے انتہائی سفاکی سے اپنی پالیسیوں کی حمایت کرتے ہوئے روہنگیاکے مظلوم مسلمانوں کوملک میں داخل ہونے کی اجازت دینے سے انکارکردیاجبکہ ترکی کے صدرنے ان تمام مہاجرین کے تمام اخراجات برداشت کرنے کی ضمانت بھی دی ہے۔ بنگلا دیش میں موجودروہنگیاکے مسلمانوں کے لیے ترکی نے فوری طور پر 10 ہزار ٹن خوراک بھی پہنچادی ہے اورانڈونیشیابھی اس عمل میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے رہاہے۔ پچھلی 3 دہائیوں سے زائد عرصے سے ڈیڑھ لاکھ سے زائدروہنگیاکے مسلمان پاکستان کے بڑے شہرکراچی میں پرامن زندگی گزاررہے ہیںاورایک مرتبہ پھر پاکستان نے ترکی اورانڈونیشیاکے ساتھ اس رفاہی کام میں ہاتھ بٹانے کی یقین دہانی بھی کروائی ہے لیکن اس کے ساتھ پاکستان نے میانمر سے روہنگیامسلمانوں کی نسل کشی کی تحقیقات کا مطالبہ بھی کیا ہے۔ اس کے علاوہ ایک درجن سے زائد نوبل انعام یافتگان نے اقوام متحدہ سے روہنگیاکے مسلمانوں کی مؤثر امداد اور میانمر حکومت کے خلاف کاروائی کا مطالبہ کیا ہے۔ میانمر کی سرکاری فوج اوربدھ انتہا پسند مظلوم اور نہتے مسلمانوں پر حملوں میں ، بوڑھے، بچے، مرد و زن میں کسی کاامتیازروانہیں رکھ رہے، جوسامنے آتاہے اسے موت کے گھاٹ اتار دیا جاتا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کے گھروں کو جلانے کا کام بھی اب تھوک کے حساب سے شروع ہوچکا ہے پوری کی پوری بستیاں پلک جھپکتے میں جلا کر راکھ بنا دی جا رہی ہیں۔ اس پر مستزاد بھارتی وزیراعظم مودی نے بھی مسلمانوں کے زخموں پرنمک چھڑکتے ہوئے میانمر کے اس عمل کی حمایت کرتے ہوئے روہنگیاکے مسلمانوں کومجرم ٹھہرادیاہے ۔



اقوام متحدہ کے مہاجرین سے متعلق ادارے یواین ایچ سی آرکے مطابق ہرطرف ہلاک شدگان کے جسم،دھڑ،بازواورسرنظرآرہے ہیں۔ظلم ہے کہ تھمنے کانام ہی نہیں لے رہا۔ میانمر کی بدنصیب اقلیت کے یہ لوگ سرکاری فوج اور بدھ انتہا پسندوں کے حملوں سے بچ کرپناہ کی تلاش میں خلیج بنگال عبورکرنے کے لیے جن کشتیوں کاسہارالے رہی ہے ،ان میں سے زیادہ تعدادکے نصیب میں کوئی کنارہ ہی نہیں اوروہ سمندرمیں ہی غرق ہوجاتی ہیں اوربے شمارلاشیں بے گوروکفن کناروں پردفن ہونے کی منتظرہیں۔ جاں بحق ہونے والوں میں زیادہ تعدادبچوں اوربوڑھے مرداور خواتین کی ہے۔ اب سمندکے انہی کناروں پران کواجتماعی قبروں کے سپردکیاجارہاہے۔اقوام متحدہ میں سعودی عرب کے وفدکاکہناہے کہ میانمر فوج کی طرف سے روہنگیاکے مسلمانوں پرڈھائے جانے والے مظالم،ان کے قتل عام اوران کی مساجدکی بے حرمتی پرقراردادپیش کی جائے گی۔ سعودی وفدنے اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل سے ملاقات کرکے قراردادکے بارے میں آگاہ بھی کیا۔



سعودی وفدنے سلامتی کونسل کے رکن ممالک کے سامنے بھی روہنگیامسلمانوں کی مظلومیت کامعاملہ پیش کیا۔برطانیہ نے روہنگیاکے مسلمانوں پرظلم وستم ختم کرانے کے لیے آنگ سان سوچی سے مثبت کرداراداکرنے کامطالبہ کیاہے۔ انڈونیشیاکے صدر نے کہا ہے کہ حیرت ہے میانمر حکومت کومسلمانوں پرڈھایاگیاظلم نظرنہیں آتا۔ ترک صدر اردوان نے روہنگیامسلمانوں پرمظالم کونسل کشی قراردیتے ہوئے کہاکہ میانمرکے ہمسایہ ممالک کی خاموشی انسانیت کے خلاف جرم کے مترادف ہے۔ کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس نے روہنگیامیں مسلمانوں پرظلم وستم کی مذمت کرتے ہوئے کہا ہے کہ مسلمانوں کوان کے گھروں سے نکال باہرپھینک دیاگیاجبکہ وہ سب اچھے اورامن پسندلوگ ہیں۔وہ ہمارے بھائی ہیں۔
دنیا بھر میں سوشل میڈیاپر میانمر کی حکمران جماعت کی رہنما اورامن کانوبل انعام حاصل کرنے والی آنگ سان سوچی پرشدیدتنقیدکی جارہی ہے۔ انسانی حقوق کے لیے سرگرم حلقوں کاکہناہے کہ سوچی اپنی مجرمانہ خاموشی کی بنا پرانعام کی حقدارنہیںرہیں اوراب تک انٹرنیٹ پرجاری اس مہم میں 3 لاکھ سے زائدافراد نے ان سے یہ انعام واپس لینےکامطالبہ کیاہے۔ برطانوی جریدے ’گارجین‘سے گفتگوکے دوران روہنگیامسلم خواتین نے اپنی داستانین سنائی ہیں، وہ سن کر کسی بھی شخص کی آنکھیں نم ہوئے بنا نہیں رہ سکتیں۔ ایک خاتون نورعائشہ نے بتایا کہ میری آنکھوں کے سامنے میرے شوہراورمیرے 7 لخت جگر کے ٹکڑے کر دیےگئے اور مجھے رونے اورچیخنے کی بھی اجازت نہیں تھی۔ بنگلا دیش کے پانیوں میں کشتی پر سواراپنی آخری زندہ بچ جانے والی بیٹی کوسینے سے لپٹائے نورعائشہ بتارہی تھی کہ وہ اپنے پیچھے ایک جلا ہواگھر،بیدردی سے قتل کیاگیاشوہراورسفاکی سے قتل کیے گئے 7 بیٹے اوراپنی حرمت پامال کرنے والے فوجی چھوڑکرآرہی ہے۔



ایک اور 40 سالہ مظلوم مسلم خاتون نے بتایا کہ میرے گھر پر 20 فوجیوں نے حملہ کیااورہم سب کوصحن میں جمع کرلیا۔ ظالم حملہ آور فوجیوں نے میرے 5 بیٹے ایک کمرے میں بند کرکے اس کمرے پربم پھینک کرآگ لگادی، میرے پانچوں بیٹے زندہ جل گئے اوراس کے بعدفوجیوں نے مجھے سامنے ستون سے باندھ دیااورمیری آنکھوں کے سامنے میری 2 بیٹیوں کواپنی ہوس کانشانہ بنایااوربعدمیں قتل کردیا۔ آخرمیں انہوں نے میرے شوہرکوقتل کردیا۔ میری صرف 5 سالہ بیٹی دلنواز بیگم زندہ بچی جوفوجیوں کے حملے کے باعث ہمسایوں کے گھرجاچھپی تھی۔ ایک اور 32 سالہ مظلوم سعیدہ خاتون نے بتایاکہ وہ حاملہ ہے اوران کے گاؤں پرحملہ کرنے والے فوجی اسے گن پوائنٹ پرایک میدان میں لے گئے۔ انہوں نے وہاں تقریباً 30 خواتین کوجمع کر رکھا تھا۔ ان میں سے 15 لڑکیوں کوفوجیوں نے الگ کیااورنامعلوم مقام پرلے گئے جبکہ باقی 15 خواتین کو اسی صحن میں زیادتی کانشانہ بناکرگولیوں سے بھون دیا اور خوش قسمتی سے میں ان خواتین کی لاشوں کے ڈھیرکے نیچے آنے سے بچ گئی۔ ایک اورمظلوم عورت نورحسین نے بتایا کہ برما کے فوجیوںنے بدھ دہشتگردوں کے ساتھ مل کراس کے گاؤں پرحملہ کیا اور 100 سے زائدخواتین کواپنی ہوس کانشانہ بنایاجس کے بعد ان میں سے کئی کوقتل کردیاگیا۔ ان کے گھروں کو آگ لگا دی اور مردوںکے گلے چھریوں سے کا ٹ ڈالے۔



برطانوی اخبار ’انڈی پنڈنٹ‘کے مطابق 41 سالہ عبدالرحمٰن نے بتایاکہ اس کے گاؤں کے مردوں کوگھیرکرایک جھونپڑی میں بندکرکے تیل چھڑک کرآگ لگادی گئی جس میں میر ا نوجوان بھائی بھی شامل تھا۔ میرے 2 بھتیجوں جن کی عمر 6 اور 9برس تھیں ،ان کوہمارے سامنے ذبح کرکے سرکاٹ دیے گئے۔ 27 سالہ سلطان نے بتایامیں اپنی جان بچانے کے لیے اپنے گھرکے پچھلے کمرے میں چھپ گیاتھا،وہاں میں نے اپنی آنکھوں سے اپنے بعض بھائیوں کے سرقلم ہوتے دیکھے جن کودیکھ کرمیں بیہوش ہوگیا۔
آج پوری دنیا میں بنیادی انسانی حقوق کے تحفظ وپاسداری کا شور ہے مگر اس کے ساتھ ہی روزانہ کی بنیاد پر دل دہلادینے والی خبریں بھی آ رہی ہیں۔ وڈیوز اور تصاویر میں روح فرسا مناظر دیکھ کرکلیجہ منہ کوآنے لگتا ہے۔ یقیناً روہنگیاکے مسلمان دنیاکے مظلوم ترین مخلوق ہیں جو بدھ پیروکاروں کے غیرانسانی مظالم کا شکار ہو رہے ہیں۔ غیرملکی میڈیاکے مطابق میانمر کے صوبے راکھائن میں گزشتہ چندہفتوں سے ایک بارپھرجومسلمانوں کی نسل کشی شروع ہوئی ہے ،اس میں کم وبیش بیش 30 ہزار سے زائد افرادکے لقمہ اجل بننے کی تصدیق ہوچکی ہے۔ اب دنیابھرکے مسلمان سوچ رہے ہیںکہ کیا آج پوری امت مسلمہ میں ایک بھی صلاح الدین ایوبی جیسانہیں جومسلمانوں کو کھویا ہوا مقام واپس دلاسکے؟