پولیس گردی کے ساتھ وکلا گردی

560

Edarti LOHپولیس کا ادارہ ہو یا وکلا، دونوں کا تعلق قانون کے نفاذ اور قانون کی پاسداری سے ہے۔ لیکن افسوس ناک بات یہ ہے کہ دونوں ہی ادارے ایک عرصے سے قانون شکنی پر تلے ہوئے ہیں ۔ پولیس سے زیادہ شرمناک کردار بعض وکلا کا ہے جنہوں نے پولیس گردی کے ساتھ وکلا گردی کی اصطلاح دی ہے۔ کچھ عرصہ پہلے ملتان کی عدالت میں وکیلوں نے غنڈہ گردی کا مظاہرہ کیا اور جج سے بدتمیزی کی۔ ان کے سرغنہ کے خلاف تادیبی کارروائی ہونے لگی تو وکیلوں نے عدالتوں کا بائیکاٹ کردیا۔ پھر جب یہ تنازع عدالت عالیہ لاہور میں پہنچا تو وہاں بھی وکیلوں نے قانون اپنے ہاتھ میں لے لیا اور کسی صورت ملتان بار کے صدر شیر زمان کو پیش نہیں ہونے دیا اور اس کے خلاف توہین عدالت کی کارروائی کو انا کا مسئلہ بنا کر کئی دن تک عدالتوں کا بائیکاٹ جاری رکھا۔ اب سرگودھا میں وکلا گردی کا نیا واقعہ پیش آگیا۔ ہفتہ 9ستمبر کو وکیلوں نے عدالت میں موجود خاتون اسسٹنٹ کمشنر کو دفتر میں بند کر کے تالا ڈال دیا اور توڑ پھوڑ بھی مچائی۔ پولیس نے پہنچ کر اسسٹنٹ کمشنر کو رہائی دلوائی۔ اب اس غنڈہ گردی کے مرتکب وکیلوں کے خلاف قانون حرکت میں آیا تو ایک بار پھر وکلا گردی کا مظاہرہ ہوگا۔ ملتان بار کے صدر شیر زمان نے عدالت عالیہ کے فیصلے سے پہلے عدالت عظمیٰ سے رجوع کرلیا ہے۔ ملتان میں وکلا گردی کے بعد وکیلوں کا احتجاج ڈیڑھ ماہ تک جاری رہا اور ڈسٹرکٹ بار ایسوسی ایشنز کی جانب سے ہڑتال کی جاتی رہی۔ لاہور ہائی کورٹ بار بھی محاذ آرائی پر اتر آئی۔



عدالتوں کے بائیکاٹ سے سب سے زیادہ پریشانی سائلین کو ہوتی ہے۔ وکلا گردی کے ساتھ پولیس گردی بھی عروج پر ہے ۔ خاص طور پر پنجاب پولیس بالکل آپے سے باہر ہے۔ 14اگست کو پولیس اہلکاروں نے بھتا نہ دینے پر ایک نوجوان زہیب کو پل سے گرا کر ہلاک کردیا تھا۔ ان اہلکاروں کے خلاف اب تک کارروائی نہیں ہوئی اور پولیس کا محکمہ انہیں تحفظ فراہم کررہا ہے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب تو لندن کی خنک فضاؤں سے لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ کاش انہوں نے نوجوان زہیب کے والدین کی آہ و بکا سنی ہوتی، اس کی ماں کے کوسنے سنے ہوتے۔ پولیس کے محکمے میں کوئی باضمیر تو ہوگا۔ لیکن ایسا ہوتا تو دو دن پہلے لاہور ہی میں پولیس رات گئے ایک گھر میں گھس کر اندھا دھند فائرنگ کر کے شہری کو ہلاک اور ایک بچے کو زخمی نہ کرتی ۔ عینی شاہدین کے مطابق اس چھاپے میں 8کمانڈوز سمیت10افراد نے حصہ لیا۔ وردی میں ملبوس دو جیالے گھر میں گھسے اور کسی مزاحمت کے بغیر گولیاں برسا دیں۔ زخمی بچہ اسپتال میں داخل ہے اور پولیس حکام نے جرم پر پردہ ڈالنے کے لیے اس بچے سے سادہ کاغذ پر انگوٹھے لگوا لیے۔ ہمیں یقین ہے کہ خادم اعلیٰ اس پولیس گردی کا بھی سختی سے نوٹس لے لیں گے ۔ مگر اس کے بعد ؟