اختر بلوچ
سندھ ٹرمز آف ایمپلائمنٹ (اسٹینڈنگ آرڈر) ایکٹ 2015ء کو صوبائی اسمبلی نے آئین اور قانون کا ایکٹ بنادیا ہے۔ اس ایکٹ کے تحت صنعتی و تجارتی شعبوں میں کام کرنے والے ہنر مند یا غیر ہنر مند، ہاتھ کے ذریعے سے کیا گیا کام ہو یا کلریکل کا کام کرنے والے ملازمین کو ورکر تصور کیا جائے گا۔ یہ ورکر چاہے مستقل ہو (Permanent) ، نو آموز یا آزمائشی ورکر ہو (Probationer) ، Badli ورکر ہو، چند روز کے لیے عارضی ورکر ہو (Temporary)، کام کو سیکھنے والے ہو (Apprentice) یا چاہے کسی معاہدے (Contract) کے تحت کام کرنے والا ہو، یہ تمام محنت کش ادارے کے اندر ورکر کی تعریف میں آئیں گے۔ ان کے روزگار کا تحفظ اور ذمے داری اس ادارے میں موجود (CBA) پر ہوگی۔ ورکر کی تمام کیٹیگریز اس وقت نجی شعبے میں ہو یا چاہے پبلک سیکٹر میں ہو حتیٰ کہ تمام سرکاری محکموں میں بھی احسن طریقے سے اپنی خدمات سرانجام دے رہے ہیں۔ سرکاری محکموں میں ورکرز سے کام تو لیا جاتا ہے مگر اکثر اداروں کے اندر ملازمین کے روزگار کا تحفظ ادارے میں موجود CBA نہیں کرتی وہ صرف مستقل ملازمین کے حقوق کی جنگ لڑتی ہیں۔ باقی مظلوم طبقے کی کوئی بھی رہنمائی نہیں کی جاتی۔ ان اداروں میں 30,30 سالوں سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش ساتھیوں کا کوئی پرُسان حال نہیں ہے۔روزگار کو مستقل کرنے کی پالیسی یا دوسری مراعاتیں حاصل کرنے کے لیے کئی کئی سالوں تک انتظار کرنا پڑتا ہے۔ روزگار کو مستقل کرنے کے چکر میں زندگی ختم ہوجاتی ہے مگر معاملات حل ہونے کا نام ہی نہیں لیتے۔
ہمارے ملک میں عارضی ملازمین کا (Casual Worker) سرکاری اداروں میں بھرتی کرنے کا قانون جنرل ضیاء کے دور میں بنا۔ اس دور میں لیبر پالیسی بنانے والوں میں خاقان عباسی (موجودہ وزیراعظم شاہد خاقان عباسی کے والد) پیش پیش رہے۔ اس لیبر پالیسی کی وضاحت تو ہمارے ماہر قانون دان یا ٹریڈ یونین کے نمائندے بہتر انداز سے کرسکتے ہیں۔ اس فرسودہ نظام کے تحت کام کرنے والے محنت کش کم سے کم اجرت 523 روپے روزانہ کی بنیاد پر اپنی زندگی کیسے بسر کرتے ہیں، یہ تو اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔
سرکاری محکموں میں کام کرنے والے محنت کش طبقے کے حالات ایسے ہیں تو نجی شعبے میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین کے حالات کیسے ہوں گے؟ ہم جو دیکھ رہے ہیں کہ ریاست کی سرپرستی میں چلنے والے اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز کو بے شمار زیادتیوں کا شکار کیسے کیسے کیا جاتا ہے۔ بنیادی ضروریات سے محروم یہ محنت کش طبقہ ریاست کے حکمرانوں سے عملدرآمد کرانے والے اداروں کے سربراہان سے کتنے مایوس اور بدظن ہوگئے ہیں۔ اداروں کے اندر اپنے جائز اور بنیادی حقوق مانگنے والوں کو سیاست کے بھینٹ چڑھا دیا جاتا ہے کہ فلاں محنت کش ادارے کے اندر سیاست کررہا ہے یا ادارے کا ماحول خراب کررہا ہے یا ادارے کے نظم و ضبط کی خلاف ورزی کررہا ہے لیکن وہی حقوق جب انتظامیہ یا CBA کے لوگ اپنی ڈیمانڈ میں رکھتے ہیں تو کہا جاتا ہے یہ تو ہمارا بنیادی حق ہے!!
آئین کے آرٹیکل 4 کی روشنی میں افراد کا حق اور ان سے قانون کے مطابق سلوک پر عمل درآمد کیا جاسکے جب کہ آئین کے آرٹیکل 17 کے تحت تمام شہریوں کو انجمن سازی کا حق ہے کہ اس پر عمل درآمد کرایا جائے۔ چوں کہ یہ باتیں صرف آئین کی شکل میں کاغذوں میں تو محفوظ ہیں مگر وطن عزیز کا معزز شہری اور محنت کش طبقہ اس آئین سے بے خبر اور بے بس نظر آرہا ہے۔ ڈیلی ویجز محنت کش کے پاس نہ تو E/L ہوتی ہیں اور نہ تو C/L ہوتی ہیں۔ عید کے خوشیوں جیسے تہوار میں ان قومی اداروں میں کام کرنے والے مظلوم طبقے کے ساتھ سوتیلی ماں جیسا سلوک کیا جاتا ہے۔ کئی کئی سالوں سے کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش تو نانے اور دادے بن گئے ہیں مگر کم سے کم اجرت پر کام کرنے کے باوجود بڑے بڑے تہواروں پر غمزدہ اور افسردہ رہتے ہیں۔ اسی ادارے میں مستقل ورکرز کو محنت لونز، ورکرز ویلفیئر کی اسکیموں، عید الاؤنس اور بغیر کٹوتی کی تنخواہ ادا کردی جاتی ہے۔ مگر مہینہ ختم ہونے کے باوجود بھی انہی اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز اور کنٹریکٹ ملازمین کو اپنے بنیادی حقوق (تنخواہ) سے محروم کردیا جاتا ہے۔ دُنیا کے کسی بھی مہذب ملک میں ایسی کوئی مثال ہی نہیں ملتی کہ سرکاری محکموں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز محنت کش ڈیلی ویجز کی حیثیت سے کم سے کم اجرت پر ریٹائر ہورہے ہوں۔
سابق پیپلز پارٹی کے دور میں سرکاری محکموں میں کام کرنے والے تمام ڈیلی ویجز ملازمین کو مستقل کرنے کے لیے پالیسی بنائی گئی تھی جس کے چیئرمین سید خورشید شاہ تھے۔ اس پالیسی کے تحت ایک لاکھ سے زائد ملازمین مستقل ہوئے، یہ وہ ملازمین مستقل کیے گئے جو من پسند تھے اصل حقدار تو محروم رہ گئے۔ ڈیلی ویجز امتیازی سلوک کی بنیاد پر اعلیٰ عدالتوں میں گئے، عدالت عالیہ کے حکم پر ایک اعلیٰ سطح کی کمیٹی بنائی گئی جس کے چیئرمین 22 گریڈ کے افسر حسیب اطہر تھے۔ موجودہ حکومت کی حسیب اطہر کی کمیٹی نے بھی 10 ہزار ملازمین کو سابق دور 2011ء کی پالیسی کے تحت مستقل کیا ہے۔ سپریم کورٹ آف پاکستان بھی 2011ء کی پالیسی کے تحت ملازمین کو مستقل کرنے کا حکم دے چکی ہے۔ حسیب اطہر کمیٹی کی سفارشات کے منتظر ڈیلی ویجز ملازمین نے ایک بار پھر امتیازی سلوک کی بنیاد پر اسلام آباد ہائی کورٹ سے رجوع کررکھا ہے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے معزز جسٹس اطہر من اللہ نے تمام وفاقی اداروں کے ڈیلی ویجز ملازمین کی مستقلی کی کیس میں فریقین کے دلائل مکمل ہونے کے بعد تمام درخواستوں پر فیصلہ محفوظ کرلیا ہے۔
معزز جسٹس صاحب سرکاری ملازمین کے ملازمتی امور کے حوالے سے تیز تر اور سستے انصاف کی فراہمی کے لیے نظام پیش کرنے کے حوالے سے پہلے بھی ایک فیصلہ دے چکا ہے۔ آپ نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ ملازمین کے وقار کو مجروح کیے جانے کے ساتھ ملازمین کی لاچارگی اور انصاف کی فراہمی سے انکار جبری مشقت کی ایک شکل اختیار کرچکا ہے۔ عدالتی حکم میں یہ بات نوٹ کی گئی ہے کہ ملازمین کی اکثریت، خصوصاً نچلے گریڈز کے ملازمین کے لیے اپنی کم تنخواہوں کے باعث ہائی کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹانا بھی ناممکن ہوتا ہے۔ لہٰذا وہ اپنی شکایات کے ازالے کے بغیر ہی ریٹائر ہوجاتے ہیں جس سے فراہمی انصاف کو شدید دھچکا پہنچتا ہے۔ مزید کہا گیا ہے کہ ملازمین کے حق میں فیصلہ دینے سے بھی کوئی فائدہ نہیں ہوتا کیوں کہ ادارے انہیں اعلیٰ عدالتوں میں لے جاتے ہیں۔ ایک طرف ملک کے سرکاری اداروں میں کام کرنے والے ڈیلی ویجز ملازمین فیصلہ آنے کے منتظر ہیں تو دوسری جانب حکومت پاکستان نے اسٹیبلشمنٹ ڈویژن کے وفاقی سیکرٹری میاں اسد حیا الدین کو ڈیلی ویجز ملازمین کو ریگولر کرنے کے حوالے سے چیئرمین مقرر کردیا گیا ہے، لگتا ہے موجودہ حکومت بھی کمیٹی پہ کمیٹی بنا کر معاملات کو طول دینے کی ناکام کوشش کررہی ہے۔
شاباش ہے جمہوریت کی جھوٹی دعویدار سیاسی جماعتوں کے رہنماؤں کو، حکمرانوں، اظہار کی آزادی کے سُر گانے والے میڈیا کے نمائندوں، سول سوسائٹی اور ٹریڈ یونین کے رہبروں کو شاباش ہو۔ سلام ایسے حکمرانوں کو جنہوں کے پانچ سال میمو گیٹ اسکینڈل، سوئز حکام کو خط لکھنے یا نہ لکھنے پر سرف کیے اور پاناما پاناما کرکے اپنی پانچ بجٹ بجٹ پیش کیے۔ سلام ایسی میڈیا کو جو کرکٹر کے ایک چوکے لگانے پر سارا دن تبصرہ کرتے ہیں۔ سلام ہے ایسی عدلیہ پر جو محنت کش طبقے کے کیسز ریٹائر ہونے کے بعد بھی فیصلہ نہیں کرتی اس وقت ملک کے لاکھوں مزدور کا کوئی پرسان حال نہیں!!!۔