برکس اعلامیہ حرفِ آخر نہ بن سکا

389

zc_ArifBeharبرکس کے نام سے جمع پانچ اُبھرتی ہوئی معیشتوں چین، روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقا کے اجلاس کے اعلامیہ میں دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں لشکر طیبہ اور جیش محمد سمیت کئی ایسی تنظیموں کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کی پاکستان میں موجودگی کے بارے میں امریکا اور بھارت اصرار کرتے چلے آرہے ہیں۔ اعلامیہ میں کہا گیا ہے دہشت گردتنظیموں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے گا۔ دہشت گرد تنظیموں کی فہرست میں حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ اور جیش محمد کے نام بھی شامل ہیں اور ان کی حمایت کا الزام بھارت پاکستان پر عائد کرتا چلا آیا ہے۔ اس سے پہلے چین کے وزیر خارجہ نے کہا تھا کہ ہمیں پتا ہے انڈیا کے پاکستان پر انسداد دہشت گردی کے حوالے خدشات ہیں لیکن برکس اس پر بحث کرنے کا درست فورم نہیں۔ چین میں یہ برکس کا نواں تین روزہ اجلاس تھا جس کا تینتالیس صفحات پر مشتمل اعلامیہ جاری ہوا۔ برکس کے پہلے اجلاسوں میں بھی بھارت نے ان تنظیموں کے نام شامل کرانے کی کوشش کی تھی مگر چین نے اس کی مزاحمت کی تھی۔ اقوام متحدہ میں بھی چین نے جیش محمد کے سربراہ مسعود اظہر کو عالمی دہشت گرد قرار دینے کی کوشش کو ناکام بنایا تھا۔



اس تناظر میں برکس اجلاس کے اعلامیے میں لشکر طیبہ اور جیش محمد کا تذکرہ خاصا معنی خیز ہے۔ حکومت پاکستان نے برکس اجلاس کا اعلامیہ یکسر مسترد کردیا۔ وزیر دفاع خرم دستگیر خان کا کہنا تھا کہ پاکستان میں دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے نہیں بلکہ دہشت گردوں کے محفوظ ٹھکانے افغانستان میں ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ہم سب کے لیے لمحہ فکر ہے کہ افغانستان کے چالیس فی صد علاقے پر افغان حکومت کا کنٹرول نہیں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ چالیس فی صد افغانستان دہشت گردوں کی محفوظ جنت ہے۔
برکس کا نواں اجلاس ایک ایسے موقع پر ہوا جب چین اور بھارت ڈوکلام کے تنازعے پر ایک خوفناک جنگ کی دہلیز سے لوٹ کر آئے تھے۔ دوکلام تنازعے پر چین نے کسی طور بھی بھارت کے موقف کو تسلیم نہیں کیا تھا۔ اس کے لیے وارننگ، ہاتھا پائی، فوجی مشقوں، ملفوف دھمکیوں، سفارتی اعلامیوں اور درپردہ ملاقاتوں سمیت ہر طریقہ اختیار کیا گیا تھا۔ آخر کار بھارت نے یک طرف طور پر پسپائی اختیار کرکے اس علاقے سے فوج واپس بلالی تھی۔ یوں لگتا ہے کہ دوکلام پر پسپا بھارت کو پاکستان کے محاذ پر فیس سیونگ دینے پر چین اور بھارت کے درمیان کوئی پیکیج ڈیل ہوگئی ہے۔



تاہم یہ بات اہم ہے کہ برکس اجلاس کے اعلامیے سے پہلے ہی چین کی ایک سفارتی اہلکار نے یہ اعلان کیا تھا کہ چین اپنے ہمہ موسمی دوست پاکستان کا ہر عالمی فورم پر دفاع کرے گا۔ یہ پاکستان کے لیے اشارہ تھا کہ برکس اعلامیے میں دوتنظیموں کا نام شامل ہونے کا یہ مطلب نہیں کہ چین عالمی فورم پر پاکستان کو تنہا چھوڑے گا۔ یوں بھی لشکر طیبہ اور جیش محمد نام کی تنظیمیں پاکستان میں بھی کالعدم پا چکی ہیں۔ برکس اعلامیے کے پاکستان کی طرف سے استرداد کے بعد چین کی طرف سے جو وضاحت ہوئی اس میں دوٹوک انداز میں کہا گیا ہے کہ برکس اعلامیے میں پاکستان کو نشانہ بنانے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور نہ ہی پاکستان کی حمایت کی چینی پالیسی میں تبدیلی کا تصور کیا جا سکتا ہے۔ جن دو تنظیموں کے نام لیے وہ اقوام متحدہ کی فہرست میں بھی شامل ہیں۔ برکس اعلامیے کے تیسرے روز ہی راولپنڈی جی ایچ کیو میں یوم دفاع کی تقریب میں چینی سفیر مرکز نگاہ بنے رہے جو چین کے حوالے سے ہر قسم کے خدشات کی نفی کررہا تھا۔



چین اور بھارت کے تعلقات میں گہرائی کی امید پر خود بھارت کے آرمی چیف جنرل بپن راوت نے پانی پھیر دیا۔ جنرل راوت کا کہنا تھا کہ چین اور پاکستان سے دومحاذوں پر جنگ کے امکان کو رد نہیں جا سکتا۔ انہوں نے اس فلسفے کو بھی غلط قرار دیا کہ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس جمہوریتوں میں جنگیں برپا نہیں ہوتیں۔ جنرل راوت کا کہنا تھا کہ بھارتی افواج شمالی سرحد پر کھڑی رہیں تو اس بات کا امکان ہے کہ مغربی دشمن یعنی پاکستان اس صورت حال سے فائدہ اُٹھانے کی کوشش کر ے گا۔ جنرل راوت نے جہاں یہ بات دوٹوک انداز میں کہی کہ پاکستان سے تعلقات بہتر ہونے کا کوئی امکان نہیں وہیں یہ کہنا بھی ضروری سمجھا مستقل میں دوکلام جیسے واقعات رونما ہوسکتے ہیں۔ اس طرح برکس اعلامیے سے چین بھارت تعلقات کا جو میک اپ کیا جا رہا تھا وہ کچھ تو چین نے پاکستان کے حوالے اور کچھ بھارتی آرمی چیف نے دھو ڈالا۔ اب چونکہ چین بھی افغان مسئلے کے حل کے لیے ایک الگ اور متوازی چینل پر کام کر رہا ہے اور اس کی کوشش ہو گی کہ یہ حل منطقی انجام تک پہنچے۔



چین کی اس کوشش میں پاکستان کو مرکزی اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح برکس اعلامیے کا پس منظر افغانستان اور وہاں کا امن ہے جب کہ بھارت اس کو کھینچ تان کر کشمیر تک لانا تو چاہتا ہے مگر چین اس پر بدستور سدِراہ بنا ہوا ہے۔ اس لیے برکس اعلامیے کو حرف آخر، خطرے کی گھنٹی اور صحیفہ آسمانی قرار دینے والوں کو چین کی وضاحت سے خاصی مایوسی ہوئی ہوگی۔ چین اس وقت ہر معاملے پرکسی بھی ملک کے ساتھ براہ راست تصادم سے گریز کر رہا ہے۔ بھارت کے معاملے میں بھی چین اسی رویے کا مظاہرہ کر رہا ہے۔ اس لیے محض ایک اعلامیے کی بنیاد پر پاک چین تعلقات کے خراب ہونے کے منتظرین کی امیدوں پر اوس پڑنا سامنے دکھائی دے رہا ہے۔ برکس ممالک افغانستان میں امن کی امید لائیں تو حقانی نیٹ ورک ختم ہوجائے گا۔ اسی طرح چین پاکستان اور بھارت کے درمیان منصفانہ بنیادوں پر ثالثی کی پوزیشن میں آئے تو اس علاقے میں عسکریت لمحوں میں ختم ہوجائے گی۔ اصل معاملہ سیاسی تنازعات کا خاتمہ ہے جن کی تہہ میں عسکریت پلتی اور پھلتی پھولتی ہے۔