سانحہ بلدیہ و لیبر انسپیکشن میکنزم

219

شفیق غوری
5 سال قبل رونما ہونے والا وطن عزیز کا بدترین المناک صنعتی حادثہ جس میں 300 سے زائد قیمتی انسانی جسم لقمہ اجل بن گئے، یہ کبھی بھی بھلایا نہیں جاسکتا۔ سانحہ علی انٹرپرائز بلدیہ ٹاؤن کراچی نہ صرف صنعت کار کی غفلت و قانون شکنی بلکہ ریاستی محکمہ لیبر کے انسپیکشن میکنزم کی مکمل ناکامی کا منہ بولتا شاہکار ہے۔ کاش کہ ملک میں لیبر انسپیکشن کا ایک مربوط، واضع، بامقصد، موثر و منظم نظام بروئے کار لایا جاتا تو ہم بلدیہ ٹاؤن اور سندر لاہور جیسے سنگین جان لیوا صنعتی حادثات سے کافی حد تک صنعتی تحفظ کو ممکن بنا سکتے۔ اس ضمن میں ہم صرف صنعت کار کو ہی مجرم قرار دے کر بری الذمہ نہیں ہوسکتے بلکہ ریاست کی نیت و ترجیحات اور اس کا مروجہ لیبر انسپیکشن سسٹم بھی زیر غور لانا انتہائی ضروری ہے۔ صنعتی ماحول میں انسانی جانوں کی صحت و سلامتی اور ان کی قیمتی جانوں کے تحفظ (SAFETY AT WORK PLACE) کے حوالے سے متعلقہ و دیگر منسلکہ قوانین پر عمل درآمد و اطلاق کی بنیادی ذمے داری صنعت کار پر عائد ہوتی ہے جو کہ ایک واضح حقیقت ہے لیکن اگر صنعت کار اس پہلو کو مکمل یا کچھ حد تک نظر انداز کردیتا ہے تو اس کے بعد کون ذمے دار ہے کہ صنعت کار کو اس کے اطلاق و عملدرآمد کی جانب راغب و متحرک کرے؟ جواب سادہ ہے کہ مزدور طبقہ اور ان کی تنظیمیں اس تناظر میں صرف ریاست کے اہم ذمہ دار محکمہ لیبر سے ہی رجوع کریں گی لیکن کیا لیبر انسپیکشن سسٹم اور متعین کردہ ذمے داران کے فرائض میں یہ شامل نہیں ہے کہ وہ ازخود اپنی اخلاقی و سرکاری ذمے داریوں کا احساس کرتے ہوئے خود بھی اپنی موثر کارکردگی کو برائے اصلاح و موثر اطلاق کی جانب مبذول کروائے لیکن حالات و واقعات کے تناظر میں عرض کردوں کہ ایسا ہرگز نہیں ہے بلکہ نیت کا فقدان ہے۔



اس وقت یہ موجودہ انسپیکشن سسٹم محض رسمی و کاغذی خانہ پُری اور ساتھ ہی ساتھ کچھ خدمت، خدمت پر بس اختتام پذیر ہوجاتا ہے۔ لیکن یہ بھی مشاہدے میں آیا ہے کہ صنعت کار لیبر انسپیکشن سے گریز کرتا ہے اور محض اس نکتہ پر کہ لیبر انسپیکشن اسٹاف تنگ کرتا ہے اور غیر ضروری خواہشات پوری کرنے کے لیے دباؤ ڈالتا ہے۔ لیکن دوسری جانب اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا ہے کہ متعدد صنعت کاروں کا متعلقہ اسٹاف کے ساتھ رویہ انتہائی غیر مناسب ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات تو وہ ان کو فیکٹری گیٹ سے ہی رخصت کردیتا ہے بلکہ متعدد مواقع پر ان کے ساتھ دھمکی آمیز و پُرتشدد رویے کا مظاہرہ بھی کیا گیا ہے۔ بہر حال نکتہ اہمیت
یہ ہے کہ بدترین صنعتی حادثات سے تحفظ صحت و سلامتی کے مقررہ معیارات کی تکمیل و دیگر منسلکہ لیبر قوانین پر عمل درآمد کے لیے سزا و جزا کے تصور سے بالا تر ہو کر اصلاحی اقدامات کی جانب متعلقہ سہ فریقی اسٹیک ہولڈر کو سنجیدگی کے ساتھ مکمل اتفاق رائے سے ایک بامقصد و موثر لیبر انسپیکشن سسٹم کو ازسر نو مرتب کرنا ہوگا جو نہ صرف کتابوں و کاغذوں کی زینت بنا رہے بلکہ اس کا مسلسل جائزہ و مشاہدہ کرتے ہوئے بہتری و اطلاق کی جانب پیش رفت کی جائے اور اس سسٹم میں متعلقہ مزدور تنظیموں کی شمولیت کو بھی یقینی بنایا جائے۔



لیبر انسپیکشن سسٹم کی اصلاح، بہتری و موثریت کے حوالے سے راقم کی ناقص رائے میں صنعتی زون کی بنیاد پر سہ فریقی لیبر انسپیکشن ریویو کمیٹی کا قیام ہے جو ہر سہ ماہی اجلاس کے ذریعے قانون کے اطلاق و عملدرآمد کا نہ صرف جائزہ لے بلکہ اپنی نگرانی میں جہاں بھی اصلاحی و بہتری کے اقدامات ممکن ہوسکیں ان کو یقینی بنائیں۔ ان دو اسٹیک ہولڈر کے ساتھ ساتھ ہم تیسرے فریق مزدور تنظیموں کو بھی اس پہلو کو خصوصی اہمیت دیتے ہوئے سنجیدگی کے ساتھ قیمتی انسانی جانوں کے تحفظ اور قانون کی بالادستی کے لیے فوٹو سیشن، خود نمائی و حادثاتی معاوضہ کی ادائیگی جیسے اقدامات کو ثانوی درجہ پر رکھتے ہوئے اپنی اولین ترجیح قرار دیتے ہوئے ایک قابل عمل و موثر لیبر انسپیکشن سسٹم کو رائج و عملی شکل دینے کے لیے تگ و دو کرنا ہوگی۔ وگرنہ وہی کچھ ہوگا کہ سانحہ بلدیہ کے بعد سے آج تک عملی طور پر کچھ بھی نہ ہوسکا اور مستقبل میں بھی ہم مرثیہ خوانی کرتے رہیں گے۔