ناقص اشیا سے جگر، گردے اور معدے کی مہلک بیماریاں جنم لے رہی ہیں۔ چائے میں دودھ کی جگہ طرح طرح کے ٹی وائٹنرز کے بارے میں رپورٹ میں بڑا سخت تبصرہ کیا گیا ہے کہ یہ تو جانوروں کو پلانے کے قابل بھی نہیں ۔ دودھ کے خلاف پنجاب میں مہم چلتی رہی ہے اور ہزاروں لیٹر دودھ روزانہ ضبط کر کے ضائع کیا گیا ہے۔ ڈبہ بند دودھ ( ٹیٹرا پیک) کے بارے میں بڑی خطرناک رپورٹیں ہیں کہ اس کو تازہ دکھانے کے لیے انتہائی مضر کیمیکل ملائے جاتے ہیں۔ اس رپورٹ کے باوجود اگلے ہی دن گھی تیار کرنے والے ایک کارخانے پر چھاپا مارا گیا جہاں جانوروں کی چربی سے گھی تیار کیا جارہا تھا۔ دوسرا چھاپا جوس کی فیکٹری پر مارا گیا جہاں گلے سڑے پھلوں سے جوس تیار کیا جارہا تھا۔ ایسی بھیانک صورت حال میں سوال یہ ہے کہ انسان کیا کھائے اور کیا پیے۔ جو ہو رہا ہے یہ تو صریحاً قتل عام ہے مگر اس پر دفعہ 302کا اطلاق نہیں ہوتا۔ ملاوٹ کی روک تھام کی اصل ذمے داری حکومتوں پر عاید ہوتی ہے لیکن جہاں ہر طرف بدعنوانی ، رشوت اور بے ایمانی کا دور دورہ ہے وہاں کون ہاتھ پکڑے گا۔ مضر صحت گھی اور جوس کے کارخانے نجانے کب سے چل رہے ہوں اور جن کا کام نظر رکھنا ہے وہ کسی وجہ سے نظر بچا لیتے ہیں۔ پولٹری کی مضر خوراک پر پابندی لگانے والوں کے اپنے پولٹری فارم ہیں ان کو عوام کی صحت سے کیا لینا دینا۔ ان کا احتساب کون کرے ۔