کوئی ہم سے نہ پوچھے حال دل

249

محمد آصف رضا، گلشن اقبال
صوبہ سندھ کے بین الاقوامی سطح پر تسلیم کیے جانے والے 12 بڑے شہروں میں سے ایک میگا سٹی کراچی کا رُخ کریں، کراچی کے لیے ہر حکومت وقت لولی پاپ دے کر گزر جاتی ہے، پاکستان کی طرح کراچی بھی لوڈشیڈنگ کی زد میں بری طرح پھنس چکا ہے، پڑوسی ملک چین کے ایک ساحلی شہر ری ژاؤ جس کی آبادی 35,30 لاکھ کے قریب ہے یہاں پر 99 فی صد مکینوں کو شمسی توانائی سے چلنے والے ہیٹرز تک بھی مہیا کیے جاتے ہیں، سڑک کے بیش تر حصوں میں ٹریفک کے سگنلز اور سڑکوں پر نصب بجلی کے ستونوں پر لگے ہوئے بلب اِسی شمسی توانائی سے چلتے ہیں۔ دنیا کے بہترین کوئلے کی معدنیات میں پاکستان کا نام بھی شامل ہے۔ پاکستان صرف کوئلے (کالا سونا بھی کہا جاتا ہے) کے ان بڑے ذخائر سے صرف 7 فی صد بجلی حاصل کرتا ہے، برصغیر میں جدید بلدیاتی نظام انگریز حکمرانوں نے ڈیڑھ سو برس قبل یعنی 1870ء کے قانون کے تحت 1883ء سے بلدیاتی نظام رائج کیا تھا پاکستان میں اب تک 3 بلدیاتی نظام کا تجربہ صرف ایوب خان، ضیا الحق اور پرویز مشرف کے دور ہی میں ہوا۔ ورنہ سیاسی حکومتیں اسے بلڈوز کردینے میں پیش پیش رہیں۔ یہ تو اللہ بھلا کرے عدالت عظمیٰ کا جس نے بلدیاتی انتخابات کروا کر پایہ تکمیل تک پہنچایا۔ دسمبر 2008ء میں ملک فرانس میں ایک ٹرین نے جو 574.8 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے سفر طے کیا جب کہ 581 کلو میٹر فی گھنٹہ کا ریکارڈ جاپان نے قائم کیا تھا وہ نہ توڑ سکا۔ وہاں کیسی جدید سہولتیں عوام کو ملتی ہیں۔ 1914ء تا 1918ء وہ زمانہ ہے جب برطانیہ سپر پاور تھا انگریزوں نے 2 سال کے اندر دفاعی نقطہ نگاہ سے بلوچستان میں ریلوے لائن بچھائی، جیکب آباد سے سبی کوئٹہ کو ریلوے لائن سے ملانے کے بعد ایران کے سرحدی شہر زاہدان پر پاک افغان سرحد پر چمن تک 2 سال میں لائن بچھادی۔ کراچی کا سرکلر ریلوے مین ڈرگ روڈ سے لے کر الٰہ دین پارک تک کی لاگت 2609 ملین ڈالر کے قریب تھا، اس منصوبے کو اضافہ کرتے ہوئے اسٹیل مل تا سٹی اسٹیشن شروع ہونا تھا یہ منصوبہ 8 ماہ پہلے یعنی 10 دسمبر 2016ء کی خبر تھی اب یہ منصوبہ ستمبر 2020ء تک کھینچ دیا گیا جو صرف 43 کلو میٹر بنتا تھا۔ انگریز کہاں تک پہنچے، ہم لوگوں کو صرف لولی پاپ دے کر بہلایا جارہا ہے، ایک منصوبہ لائٹ ٹرین سہراب گوٹھ تا ٹاور منظور ہوا تھا جس پر 31 دسمبر 2006ء سے کام شروع ہونا تھا، سرد مہری کی نذر ہوگیا۔ سابق ناظم شہر نعمت اللہ خان ایڈووکیٹ نے ٹرام ویسے کی منظوری پورے آئی آئی چندریگر روڈ تا ٹاور 23 جولائی 2004ء کو دی گئی تھی، منصوبہ مسترد ہوگیا۔ گجر نالہ برساتی نالے کا منصوبہ بھی 2006ء میں ایک ارب روپے کی گرانڈ منظور ہوئی تھی جب کہ ڈاکٹر عشرت العباد گورنر سندھ تھے جب برسات کا موسم آتا فائل کھل جاتی اخباری بیان داغ دیے جاتے، اب 10 برس کا عرصہ گزر گیا اب تک دو رویہ سڑک دونوں جانب کے چوڑے کیے جانے والے حصے پر نہ بن سکی۔ موسم برسات کا آغاز ہوتا ہے، بلدیاتی عملہ نظر مار کر گزر جاتا ہے۔ گلشن اقبال میں چھوٹے بڑے نالوں کی تعداد کم و بیش 55 ہزار فٹ کے قریب ہے صرف نکاسی نہ ہونے کی وجہ سے بارشوں کا پانی آبادیوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ گلشن ٹاؤن یونین کونسل نمبر 28 جو ابوالحسن اصفہانی روڈ میٹروول سوسائٹی میں واقع ہے کئی مرتبہ برساتی سونگل نالے کی صفائی کی جانب توجہ دلائی گئی جو عدم تعاون کا شکار رہی۔ نور پلازہ کے عقبی حصے کی جانب پورا علاقہ گندے گٹر کے پانی اُمند پڑنے سے علاقہ تالاب کا منظر پیش کررہا ہے، یہ سلسلہ ہر تین ماہ بعد ہوتا ہی رہتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے کارکنان محترمہ آصفہ کو بھی اس علاقے کا دورہ کرادیں تا کہ آشیر باد مل سکے اور وزیر بلدیہ بھی درخواست قبول کرلیں۔