اثاثہ جات ریفرنس چوہے بلی کا کھیل

350

Edarti LOHپاکستان میں چوہے، بلی کا کھیل سب سے زیادہ سیاست میں کھیلا جاتا ہے اور کبھی یہ حکومت اور اپوزیشن کے درمیان ہوتا ہے کبھی کبھی حکومتی اداروں کے درمیان بھی ہوتا ہے۔ آج کل نیب اور سابق صدر آصف علی زرداری کے درمیان یہ کھیل جاری ہے۔ 17 برس بعد عدالت کو پتا چلا کہ فوٹو کاپیوں کی بنیاد پر ریفرنس نہیں بنتا اس لیے آصف زرداری صاحب بری۔ لیجیے قوم کے 17 برس گئے چوہے بلی کے کھیل میں۔ لیکن وہ کھیل ہی کیا جو ختم ہوجائے۔ دس روز گزرنے کے بعد نیب کو خیال آیا کہ اثاثہ جات ریفرنس میں آصف زرداری صاحب کی بریت غلط تھی۔ احتساب عدالت نے سرسری سماعت کے بعد آصف زرداری کو بری کرکے غلط روایت قائم کی ہے۔ نیب کے پاس 22 ہزار تصدیق شدہ دستاویزات اور ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ اہم گواہ نظر انداز کردیے گئے۔ قومی احتساب بیورو (نیب) نے لاہور ہائی کورٹ راولپنڈی میں بریت کے فیصلے کو چیلنج کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ نیب کے پاس سابق صدر کی آف شور کمپنیوں، سرے محل اور بینک اکاؤنٹس سے متعلق شواہد موجود ہیں۔ ہمیں ریکارڈ پیش کرد نہیں دیا گیا۔ ہمارے دلائل تو غیر قانونی طور پر مسترد کردیے گئے۔ ان باتوں کو سن اور پڑھ کر اب لوگ نیب کی واہ واہ کریں گے۔ واہ کیا دلیل لائے ہیں دیکھا ثبوت موجود ہیں لیکن یہ ابتدا ہے قوم کے مزید کئی سال ضائع کرنے کی۔ اب عدالت اس چیلنج کو قابل سماعت قرار دینے یا نہ دینے کے دلائل سن کر فیصلہ کرے گی۔



اس میں کئی دن لگیں گے اگر فوری طور پر بھی سماعت کے لیے قبول کرلیا گیا تو 22 ہزار تصدیق شدہ دستاویزات کو پیش کرنے اور ان کی جانچ کرنے میں بھی کم از کم 22 ہفتے تو لگیں گے اور کیا دوسری طرف کا وکیل سوتا رہے گا۔ یقیناًوہ بھی کچھ نہ کچھ دلائل لائے گا، وقت لے گا ثبوت لانے اور دوسرے معاملات میں، کبھی بیماری کا بہانہ تو کبھی مصروفیت یوں قوم کے کئی ماہ پھر ضائع ہوجائیں گے۔ نیب کے پراسیکیوٹر کی قیادت میں کیس کی پیروی کے لیے ٹیم تشکیل دی گئی ہے۔ لیکن نیب اور نیب عدالت سے کوئی یہ پوچھ سکتا ہے کہ پہلے جب 22 ہزار تصدیق شدہ دستاویزات آپ کے پاس تھیں تو عدالت میں پیش کیوں نہیں کیں۔ 17 برس سے کیا کررہے تھے اگر نیب عدالت یہ نہیں کرنے دے رہی تھی تو کسی اور عدالت میں اس رویے کی شکایت کیوں نہیں کی۔ جس طرح ٹی وی پر چوہے بلی کے کھیل میں کبھی چوہا داؤ مارتا ہے تو کبھی بلی۔ کبھی کوئی مارکھاتا ہے کبھی کوئی۔ لیکن دونوں میں سے کوئی کبھی نہیں مارا جاتا۔ دونوں بہت چست و چالاک، پھرتیلے نظر آتے ہیں۔ اسی طرح 17 برس کے دوران نیب بھی چست اور سابق صدر تو مفرور سے صدر تک کا سفر کرکے سابق صدر بھی بن گئے۔



بہت سے معاملات میں تو عدالتی کارروائی سے استثنا کا سہارا مل گیا تھا لیکن ان کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوسکی۔ پاکستانی قوم کبھی کبھی ایسی خبروں سے خو ش ضرور ہوجاتی ہے لیکن اس حقیقت سے سب ہی واقف ہیں کہ جو کام عدالتوں میں گیا وہ برسوں کے لیے لٹک گیا۔ اب بھی اثاثہ جات ریفرنس میں زرداری صاحب کی بریت کو چیلنج کرنے کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اگلے ہفتے 22 ہزار مصدقہ دستاویزات کی جانچ ہوجائے گی بلکہ سب کو پتا ہے کہ اب کئی ماہ کے لیے معاملہ نئے سرے سے چل پڑا ہے۔ اسی کو چوہے بلی کا کھیل کہاجاتا ہے۔ نیب کا فیصلہ چیلنج کرنے سے یہ بات ضرور سامنے آئی کہ نیب عدالت کے معاملات بھی درست نہیں اور خود نیب کے وکیل نا اہل ہیں۔ اگر وہ ہزاروں مصدقہ دستاویزات اپنے پاس رکھ کر بھی وہ احتساب عدالت میں خاموش کھڑے رہتے تھے تو اس کا دوسرا مطلب یہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ خود آصف زرداری صاحب کو بری کرانا چاہتے تھے۔ اس امر کی تحقیقات کون کرے گا کہ کس پیشی میں، کس موقع پر نیب پراسیکیوٹر نے یہ موقع فراہم کیا اور عدالت نے کب غیر قانونی اقدام کیا۔ اب اس پر کئی پردے پڑچکے ہیں کوئی اس کی گرد صاف کرنے لگ جائے تو اس میں بھی کئی سال لگ جائیں گے۔ نہ آصف زرداری کے خلاف ثبوت ملے گا نہ نواز شریف کے خلاف سارے ثبوت صرف میڈیا میں دکھائے جائیں گے۔