اب تو سیکھ جاؤ اپنے پیروں پر کھڑے ہونا

411

zc_Muhammad.Shahzadچلو دشمنوں کے الزامات پر پریشان ہونے کی ضرورت نہیں مگر جب اپنے بھی گلے شکوؤں پر اتر آئیں تو سمجھ لینا ضروری ہے کہ کہیں نہ کہیں مسئلہ تو ہے۔ ایک عرصے سے دنیا ہمیں یہ الزام دیتی آ رہی ہے کہ ہم لوگوں نے جہادی پال رکھے ہیں جنہیں ہم خفیہ طور پر خاص مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ ہم اتنے ہی عرصے سے ان الزامات کو بے بنیاد اور لغو قراد دیتے رہے یہ کہتے کہتے کہ دشمنوں کا پروپیگنڈہ ہے ورنہ ہم ایسے امن پسند تو مشکل سے ہی ملتے ہیں۔ کئی بار ہمارے پڑوسی بھارت، جسے ہم دشمن ملک کے نام سے بھی جانتے ہیں، نے جیش محمد کے خلاف اقوام متحدہ میں قراردادیں پیش کیں جسے ہمارے دیرینہ دوست چین نے ویٹو کر دیا۔ ہم خوشی سے بغلیں بجاتے رہے۔ اپنے لوگوں اور دنیا کو یہ فخر سے جتاتے رہے کہ جانتے نہیں ہم کون ہیں! ہم وہ ہیں جس کی چین سے دوستی ہمالیہ سے زیادہ بلند، سمندر سے بھی زیادہ گہری اور شہد سے بھی زیادہ میٹھی ہے۔ کس مائی کے لال میں یہ جرات کہ ہمیں دہشت گردوں کا محافظ قرار دلوا سکے۔ چین ہے نا! جتنی مرضی قراردادیں پیش کردو، چین سب کی سب ویٹو کر دے گا اور ہم سکون سے چین کی بناسری بجاتے رہیں گے!



مگر پچھلے دنوں کچھ ایسا ہو گیا جو ہمارے وہم و گمان تک میں نہ تھا۔ دنیا کے تیزی سے ترقی پزیر پانچ ممالک کی تنظیم برکس (BRICS) جس میں ہمارا دوست چین بھی شامل ہے نے لشکر طیبہ، جیش محمد اور حقانی نیٹ ورک کو دہشت گرد تنظیمیں قرار دے دیا۔ ایسا نہیں کہ یہ بات برکس میں شامل کسی ایک رکن نے کر دی ہو۔ بلکہ یہ مشترکہ اعلامیے کا حصہ ہے۔ ایسا اعلامیہ پہلی بار وجود میں آیا ہے اور ظاہر ہے چین کو راضی کیے بغیر ایسا اعلامیہ جاری ہو ہی نہیں سکتا۔
برکس کا یہ اجلاس چین ہی کی سر زمین پر منعقد ہوا۔ اس اعلامیے میں سخت اور دو ٹوک زبان استعمال کی گئی۔ کہا گیا: ’دہشت گردی کی حمایت اور مدد کرنے والوں کو کیفرکردار تک پہچانا چاہیے۔ گو کہ اعلامیے میں پاکستان کا نام نہیں۔ نہ ہی کچھ ایسا تقاضا ہے کہ مذکورہ بالا تنظیموں کے خلاف کارروائی کی جائے۔ لیکن اندھے کو بھی معلوم ہے کہ حامی اور مددگار پاکستان ہی ہے۔ یہ اعلامیہ انتہائی خطرناک حالات کی طرف اشارہ کرتا ہے جو مستقبل قریب میں پاکستان کو پیش آنے ہیں۔ ابھی تو ابتدا ہے۔ آگے جا کر پاکستان کا نام بھی لیا جا سکتا ہے اور کارروائی کا مطالبہ بھی کیا جا سکتا ہے۔ اس اعلامیے میں ہمارے لیے بہت سارے اسباق اور پیغامات ہیں جو نظر نہیں آتے تو صرف ہمیں ہی نہیں آتے۔ باقی ساری دنیا کو صاف دکھائی دیتے ہیں۔



اس اعلامیے سے صاف پتا چلتا ہے کہ چین ہماری اندھا دھند حمایت نہیں کر سکتا۔ اس کا رویہ اب تبدیل ہو رہا ہے۔ چین کے اپنے مفادات ہیں جنہیں وہ پاکستان کی خاطر پس پشت نہیں ڈال سکتا۔ اب ہمارے لیے چین کنوے میں چھلانگ مارنے سے تو رہا! وہ دن بھی ہمیں دیکھنا پڑ سکتا ہے کہ بھارت اقوام متحدہ کے ذریعے جیش محمد اور مسعود اظہر کو دہشت گرد قراردلوانے میں کامیاب ہو جائے اور چین چوں چراں تک بھی نہ کرے۔ اس خوش فہمی میں اب نہیں رہنا چاہیے کہ ہم جو جی چاہے گل کھلاتے پھریں اور چین ہمیں بچا لے گا۔
برکس کے اعلامیے میں ایسٹ ترکمانستان اسلامک موومنٹ کا بھی نام ہے جو چین کے لیے دردِ سر ہے۔ اس کے علاوہ تحریک طالبان پاکستان، حزب التحریر، القاعدہ، داعش، اور اسلامک موومنٹ آف ازبکستان کا بھی ذکر ہے۔ یہ تمام دہشت گرد تنظیمیں وہی ہیں جنہیں امریکا آئے دن عالمی امن کے لیے خطرہ قرار دیتا ہے۔ برکس کے اعلامیے سے یہ نتیجہ بھی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ ان پانچ ممالک کی نظر میں لشکر طیبہ اور جیش محمد اور داعش یا القاعدہ ایک ہی سکے کے دو رخ ہیں۔ برکس میں چین کے علاوہ روس، برازیل، بھارت اور جنوبی افریقا شامل ہیں۔ اس کے قیام کا مقصد ایک نئی عالمی قیادت کی تشکیل دینا ہے۔ یعنی مستقبل میں وہی ممالک دنیا پر راج کریں گے جن کی معیشت مضبوط ہو گی۔ امریکا سپر پاور والی بات عن قریب قصہ پارینہ بن جائے گی۔ بلکہ یہ کہنا درست ہو گا کہ قصہ پارینہ بن چکی ہے۔ امریکا تو اب نیشنل جیوگرافک کا وہ شیر لگتا ہے جسے چار پانچ گیدڑ مل کر بھاگنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ برکس میں تو پھر بھی دو بڑی طاقتیں یعنی روس اور چین شامل ہیں۔



ماتھا پیٹنے کی بات یہ ہے کہ جو نئی عالمی طاقت کرہ ارض پر ابھر رہی ہے اس میں بھارت تو موجود ہے ہم نہیں۔ ہماری عادت ہے بھارت سے مقابلہ کرنے کی ہر معاملے میں۔
بھارت اگر اپنی فلموں میں لچر پن دکھائے گا تو ہم بھی پیچھے نہیں رہیں گے۔ بھارت اگر ایک میزائل بنائے گا تو ہم دس بنائیں گے۔ لیکن ہم اچھی باتوں میں مقابلہ کرنے سے گریز کرتے ہیں۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ ہم بھی برکس کے رکن ہوتے۔ اگر ایسا ہوتا تو مجال ہے کہ یہ اعلامیہ جاری ہو سکتا۔ انگریزی کا ایک محاورہ ہے: Better late than never سو اب بھی وقت ہے کہ ہم آنکھیں کھول لیں اور سبق سیکھ لیں۔ وہ سبق جو تاریخ ہمیں بار بار سکھانے کی کوشش کر رہی ہے۔ ہمیں تاریخ کا شکر گزار ہونا چاہیے کہ وہ ہمیں بار بار موقع دیتی ہے۔ ہماری بدنصیبی ہم سیکھنے کو تیار ہی نہیں۔ اندھے بہرے اور گونگے بنے بیٹھے ہیں۔ برکس کے اعلامیے اور تاریخ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے سب سے پہلا اور اہم سبق جو ہمیں سیکھنا چاہیے وہ یہ ہے کہ ہم کسی پر بھی انحصار نہ کریں چاہے اس سے ہماری دوستی مثالی ہو۔ چین ہمارا ماما نہیں لگتا۔ اب یہ بات سمجھ لینی چاہیے۔ اکہتر میں ہم امریکا کی مدد کے منتظر رہے اور آدھا پاکستان گنوا دیا۔ اللہ تعالی بھی اس کی مدد نہیں کرتا جو اپنی مدد خود کرنے پر تیار نہ ہو۔ ہمیں اپنی تقدیر کا مالک خود بننا ہے نہ کہ ہم تمام عمر ایک کرائے کا ملک بنے رہیں جسے جو سپر پاور چاہے اپنے مطلب کے لیے سر پر بٹھا لے اور مطلب نکل جانے کے بعد پٹخ دے۔ چین کے بھارت کے ساتھ سنگین سرحدی تنازعے ہیں اور اس کے باوجود وہ اپنی سوچ کو بھارت کی سوچ کے مطابق ڈھال رہا ہے۔ یہ واقعی بھارت کی سفارتی کامیابی اور ہماری بدترین ناکامی ہے۔ ہمیں اپنی مدد خود ہی کرنا ہو گی۔ کوئی امریکا یا چین نہیں آئے گا ہماری کشتی کو بھنور سے نکالنے۔ برکس کے اعلامیے میں یہ سبق واضح ہے۔



دوسرا سبق یہ سیکھنے ہے کہ سفارت کاری اور بین الاقوامی معاملات میں مستقل دوست اور دشمن کوئی نہیں ہوتے۔ دوستیاں دشمنیاں بدلتی رہتی ہیں۔ تبدیلی اسے ہی کہتے ہیں۔ حالات کو دیکھ پر اپنی حکمت عملی تبدیل کرنی پڑتی ہے۔ اگر آج ہم معاشی طور پر مضبوط ہوتے تو الٹا بھارت کو دہشت گرد ملک قرار دلواتے اس بات پر کہ کیا کیا انسانیت سوز ظلم ہو گا جو یہ کشمیریوں اور دیگر اقلیتوں پر نہیں توڑتا۔ گائے جس کا مقصد ہی ذبح ہو جانا ہے بھارت میں محفوظ اور اس کی جگہ انسان ذبح ہو رہے ہیں۔ جہادی لشکر پالنے سے ہم بھارت کا یا دنیا کو کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ اگر ہم معاشی طاقت نہیں تو کچھ بھی نہیں۔ ہمیں جہاد کی تعلیمات عام کرنی چاہیے لیکن یہ جہاد ہمارے نفس کے خلاف ہو۔ معاشرے میں ہزار برائیاں موجود ہیں۔ یہ جہاد ان کے خلاف ہونا چاہیے۔ ہم کیسے مسلمان ہیں۔ ایک طرف تو یہ کہتے ہیں کہ صفائی نصف ایمان ہے اور دوسری طرف ہر جگہ غلاضت کے ڈھیر لگانے میں فخر محسوس کرتے ہیں۔ اس عید پر جو غلاضت کے ڈھیر دیکھے تو سوچا کہ کیسے ایک سنت ادا کرتے کرتے آدھے ایمان کا بیڑہ غرق کر دیا ہم لوگوں نے!