غمِ دنیا بھی غمِ یار میں شامل کرلو
نشہ بڑھتا ہے شرابیں جو شرابوں میں ملیں
یہاں ہماری مراد شرابِ خبیث ہے، جس سے صرف شہوانیت، حیوانیت اور درندگی کے جذبات فروغ پاتے ہیں، ورنہ شرابِ طہور تو اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے، ارشادِ باری تعالیٰ ہے: (۱) ’’اور اُن کا ربّ انہیں شرابِ طہور پلائے گا، (الدہر:21)‘‘۔ (۲) ’’بے شک نیکوکار ضرور (جنت کی) نعمتوں میں (مگن) ہوں گے، (عزت والی) مسندوں پر بیٹھے نظارا کر رہے ہوں گے، آپ ان کے چہروں میں نعمت کی تازگی پہچان لیں گے، ان کو مہر بند شرابِ (خالص) پلائی جائے گی، اس کی مُہر مشک ہے اور یہی وہ چیز ہے کہ جس پر للچانے والوں کے جی للچانے چاہییں اور اس کی ملونی تسنیم سے ہے، وہ چشمہ جس سے مقرّبینِ بارگاہ پیتے ہیں، (المطففین: 22-28)‘‘۔
اس اُفتادِ طبع کے سبب ہمارا معاشرہ بحیثیت مجموعی ذمے دار شہری اور تہذیب وتمدّن کا عکاس نظر نہیں آتا، ہر معاملے میں اپنی حدود سے تجاوز اور دوسروں کی حدود میں دخل اندازی ہمارا قومی مزاج بنتاجارہا ہے۔ اکثر ٹیلی ویژن پر ٹِکر چل رہے ہوتے ہیں کہ فلاں فلاں علاقے میں شدید ٹریفک جام ہے، اس سے دوسروں کی حق تلفی بھی ہوتی ہے، طبیعتوں میں تناؤ بھی پیدا ہوتا ہے، گاڑیوں میں ایندھن کا خرچ بھی بڑھ جاتا ہے، انجن کی قوتِ کار بھی متاثر ہوتی ہے۔ بے تدبیری، عجلت پسندی اور بد انتظامی سے سڑکوں پر ضائع ہونے والے ایک ایک فرد کے وقت کا حساب لگایا جائے، تو اس کا میزان روزانہ لاکھوں گھنٹے تک پہنچ جاتا ہے۔
اسلام ہر شعبۂ حیات کی رہنمائی فرماتا ہے، اس میں ’’راستے کے حقوق‘‘ بھی ہیں۔ شارعِ عام کسی ایک شخص کی ملکیت نہیں ہوتا، اس پر سب لوگوں کے مساوی حقوق ہوتے ہیں اور کسی کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ دوسروں کے حقوق پر تعدّی کرے۔ لیکن ہمارے ہاں یہ عام شِعار بن گیا ہے، ہر طبقے کے لوگ جب چاہتے ہیں شارع عام کو بند کردیتے ہیں، کوئی تقریب منعقد کرتے ہیں یا جلوس وریلیاں نکالتے ہیں اور اس سلسلے میں ہمارے ہاں کوئی ضابطہ یا اصول نہیں ہے اور نہ ہی ہماری حکومت اتنی مضبوط ہے کہ قانون کی طاقت سے ان چیزوں کا سدِ باب کرے اور اس کے لیے کوئی قانون یا ضابطہ بنائے۔ میں نے امریکا کے مختلف شہروں میں دیکھا ہے، وہاں ہمارے لوگ میلاد النبی ؐ کے جلوس نکالتے ہیں، لیکن یہ چھٹی کے دن ہوتا ہے، مقامی پولیس سے باقاعدہ اجازت لی جاتی ہے، جلوس کا راستہ اور وقت متعین ہوتا ہے اور جلوس کے منتظمین کو سیکورٹی فراہم کرنے والے اداروں کو باقاعدہ معاوضہ بھی دینا پڑتا ہے۔ الغرض یہ نہیں ہوسکتا کہ جب کسی کے جی میں آئے، وہ لوگوں کا راستہ بند کردے اور اُن کو اُن کے ’’حقِ مُرور‘‘ یعنی Right of Passage سے محروم کردے۔ رسول اللہ ؐ نے فرمایا: ’’راستوں پر بیٹھنے سے بچو، صحابہ نے عرض کی: یہ تو ہمارے لیے ناگزیر ہے، کیونکہ ہم وہاں گفت وشنید کے لیے بیٹھتے ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: اگر تمہارا بیٹھنا ناگزیر ہے تو راستے کا حق ادا کرو، صحابہ نے عرض کی: راستے کا حق کیا ہے؟،
آپ ؐ نے فرمایا: نگاہیں نیچی رکھنا، راستے سے تکلیف دہ چیز کو ہٹانا، سلام کا جواب دینا، نیکی کا حکم دینا اور برائی سے روکنا، (بخاری)‘‘۔ نگاہیں نیچی رکھنے سے مراد یہ ہے کہ غیر محرم عورتوں کو ہوس بھری نظروں سے نہ دیکھے، موجودہ دور میں چونکہ ہجوم بڑھ چکے ہیں، اس لیے کہا جائے گا کہ بیدار مغز ہوکر بیٹھو یا چلو۔ اسی طرح کسی کو یہ حق بھی نہیں ہے کہ راستے پر گندگی ڈالے یا پانی بہائے، چند احادیث مبارکہ ملاحظہ ہوں:
(۱) نبی ؐ نے فرمایا: ’’میں نے ایک شخص کو دیکھا کہ وہ جنت کی نعمتوں میں لوٹ پوٹ ہورہا ہے، جنت میں اس کے داخلے کا سبب یہ بنا کہ اس نے شارعِ عام سے لوگوں کو تکلیف پہنچانے والے ایک درخت کو کاٹ کر راستہ صاف کیا، (مسلم)‘‘۔ (۲) نبی ؐ نے فرمایا: ’’لعنت کا ہدف بنانے والی دو چیزوں سے بچو، صحابہ نے عرض کی: یارسول اللہ! وہ کون سی دو چیزیں ہیں، آپ ؐ نے فرمایا: راستے میں یا شجرِ سایہ دار کے نیچے قضائے حاجت کرنا، (مسلم)‘‘۔ (۳) آپ ؐ نے فرمایا: ’’جو مسلمانوں کے راستے میں اُن کے لیے اذیت کا سبب بنا، وہ اُن کی لعنت کا حق دار ہے، (المعجم الکبیر للطبرانی)‘‘۔ (۴) آپ ؐ نے فرمایا: ’’ایک شخص جو اعمالِ خیر کا زیادہ عادی نہ تھا، اس نے راستے سے کسی درخت کی کانٹے دار شاخ کو کاٹا یا اُسے راستے سے ہٹایا، تو اللہ تعالیٰ نے اُس کی اس ادا کو قبول فرماتے ہوئے اسے جنت میں داخل فرمایا، (ابوداؤد)‘‘۔ (۵) سیدنا ابوذر بیان کرتے ہیں: نبی ؐ نے فرمایا: ’’مجھ پر میری امت کے اچھے اور برے افعال پیش کیے گئے، تو میں نے اچھے اعمال میں راستے سے کسی تکلیف دہ چیز کو ہٹانا بھی پایا، (مسلم)‘‘۔ (۶) سیدنا ابن عمر بیان کرتے ہیں: ’’رسول اللہ ؐ نے سات مقامات پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا: ’’کوڑے کا ڈھیر، مَذبح، مقبرہ، شارعِ عام، حمّام، اونٹوں کے بیٹھنے کی جگہ اور بیت اللہ کی چھت، (ترمذی)‘‘۔ آپ ؐ نے بیت اللہ کی چھت پر ادب کی بنا پر نماز پڑھنے سے منع فرمایا اور باقی مقامات نماز کی تقدیس کے منافی ہیں اور شارع عام کے ساتھ لوگوں کے حقوق بھی متعلق ہوتے ہیں اور توجہ بھی بٹتی ہے۔
’’فتحِ بیت المقدس کے موقع پر عمر فاروقؓ نے بیت المقدس کے آگے مسجد کی بنیاد رکھی، کعب بن مالک نے انہیں اشارے سے کہا: صخرۃ کے سامنے رکھیں، سیدنا عمر فاروقؓ نے انکار کیا اور ان پر ناراضی کا اظہار کیا۔ آپ نے یہودیوں کے مقدس مقام کی اہانت نہیں کی، بلکہ وہاں پر جو گندگی تھی، اپنی چادر میں ڈال کر اسے صاف کردیا اور مسلمانوں نے بھی اُن کے ساتھ مل کر وہاں جھاڑو لگایا۔ اس فعل کو اس تناظر میں سمجھیں کہ نصاریٰ کو جب بیت المقدس میں غلبہ ملا تو انہوں نے یہودیوں کے مقدس مقام کو کوڑے کا ڈھیر بنادیا، کیونکہ وہاں یہود کا قبلہ تھا اور یہ عمل انہوں نے یہود سے بدلہ لینے کے لیے کیا،کیونکہ جب یہود کو وہاں غلبہ حاصل تھا تو نصاریٰ کے مقدس مقام کو انہوں نے گندگی کا ڈھیر بنادیا، اسی بنا پر یہود ونصاریٰ پر لعنت کی گئی، (مسند الفاروق ابن کثیر، ج: 1، ص: 536)‘‘۔
اب بھی فلسطین کی سرزمین پر یہودیوں کو غلبہ حاصل ہے، اس لیے وہ وقتاً فوقتاً بیت المقدس کو آگ لگانے اور نقصان پہنچانے کی کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن سیدنا عمر فاروقؓ نے عظیم کردار اور اعلیٰ اقدار کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنے غلبے کے زمانے میں دونوں مذاہب کے مقدس مقامات کے احترام کو ملحوظ رکھا، کیونکہ اسلام تمام انبیائے کرام کا احترام کرتا ہے اور یہود ونصاریٰ کے مقدس مقامات بالترتیب سیدنا سلیمان وعیسیٰ علیہما السلام کی ذواتِ مقدسہ کے ساتھ نسبت رکھتے تھے۔
اسی طرح ہمارے ہاں دوسروں کی حق تلفی بھی ایک شعار بن چکی ہے، لوگ لاکھوں روپے خرچ کر کے اپنے مکانات کی رنگائی کرتے ہیں، ابھی اس سے فراغت نہیں ہوتی کہ اگلے دن کوئی من چلا آکر اس پر اپنے من پسند نعرے لکھ دیتا ہے، خواہ اس کا تعلق کسی تنظیم سے ہویا کسی لیڈر کی شان میں قصیدہ گوئی کرنی ہو یا کسی کی توہین مقصود ہو یا پروفیسر گوگیا پاشا ٹائپ کا کوئی ’’روحانی عامل‘‘ ہو یا سر کی چوٹی کے بال سے لے کر پاؤں کے تلووں تک ہر مرض کے لیے نسخۂ اکسیر فراہم کرنے والے قبلہ بڑے حکیم صاحب ہوں۔ عید الاضحی کے موقع پر گلی کوچوں میں نجاست پھیلانے کی ہر ایک کو آزادی ہوتی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے کہ قربانی کی آلائشوں کے لیے ہر محلے میں ایک پوائنٹ مقرر ہو اور مقامی ادارے بھی آلائشوں کو بروقت ٹھکانے لگائیں۔ الغرض آج ہمیں اپنی اجتماعی زندگی میں تہذیب وتمدن کی مسلّمہ اقدار کو فروغ دینے کی ضرورت ہے، عوام میں احساسِ ذمے داری اور شعورِ آگہی پیدا کرنے کی ضرورت ہے، جسے Civic Sense
کہتے ہیں۔اس سلسلے میں ہمارا الیکٹرونک میڈیا مؤثر کردار ادا کرسکتا ہے۔ کیونکہ میڈیا کے مقاصد میں لوگوں کو آگہی دینا اور شعور عطا کرنا ہے، انہیں معاشرے کا ذمے دار فرد بنانا ہے، لیکن افسوس کہ ہمارا میڈیا بحیثیت مجموعی یہ فریضہ انجام نہیں دے رہا، بلکہ وہ ذہنی وفکری انتشار کو ہوا دے رہا ہے، انہیں ریٹنگ کی ایسی خطرناک بیماری لاحق ہوچکی ہے، جس کا علاج ہماری قابلِ افتخار عدلیہ اور پیمرا سمیت کسی کے پاس نہیں ہے، حکومتِ وقت خود ریٹنگ کے سلطان سے جانِ اقتدار کے امان کی طلب گار رہتی ہے۔ ہر ایک اپنی اپنی پسند وناپسند اور عصبیتوں کا اسیر ہے یا کسی طے شدہ ایجنڈے پر عمل پیرا ہے، انسانی اقدار ترجیحات کی فہرست میں شامل ہی نہیں ہیں۔