بر حمتک یا ارحم الرّ احمین 

316

ڈاکٹر وسیم علی برکاتی
میانمار جس کا پرانا نام برما تھا۔ اس کے شہر اراکان میں مسلمانوں کی بیس لاکھ کے قریب آبادی تھی۔ چودھویں صدی سے مسلمانوں کی آبادی پر مشتمل یہ علاقہ بادشاہت کے دور میں قائم ہوا تھا۔ چودھویں صدی اور اس کے بعد کے دور کے بادشاہ مسلمانوں کو بلاکر ان سے امور مملکت میں مشورے اور منصوبہ بندی کا کام لیتے تھے۔ بعد میں فوجی حکومتیں قائم ہوئیں اور وہ فوجی حکومتیں بھی مسلمانوں کو امور مملکت میں شامل رکھتی تھیں۔ اس مسلم آبادی کو یہاں کے بدھ مذہب سے تعلق رکھنے والے والے باشندوں نے کبھی دل سے تسلیم نہیں کیا۔ مقامی باشندے ان مسلمانوں کو روہنگیا یعنی خارجی یا انٹرنل ڈسپلیسڈ پرسن (idp) کہتے ہیں۔ پچاس سالہ فوجی حکومت کے بعد نومبر دو ہزارپندرہ میں پہلی مرتبہ باقاعدہ الیکشن کے نتیجے میں جمہوری حکومت کا قیام عمل میں آیا۔ اور امن نوبل انعام یافتہ آنگ سان سوچی جو نیشنل لیگ آف ڈیموکریسی ((NLD کی بھی سربراہ تھیں اور نظر بندی کی زندگی گزار رہی تھیں۔ ملک کی پہلی منتخب سربراہ بن گئیں۔ امید تھی کہ ان کے آنے سے میانمار کے روہنگیا مسلمانوں کے مسائل بہت حد تک حل ہوجائیں گے۔



لیکن ان کی حکومت کے قیام کے بعد ملک میں روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم اپنی انتہا پر پہنچ گئے۔ آشین وراتھو جو میانمار کی ایک بدھ مت تنظیم کا سرکردہ فرد بھی ہے۔ مسلمانوں کے خلاف کھل کر سامنے آگیا۔ اور یہ مانا جاتا ہے کہ آج جو کچھ بھی روہنگیا مسلمانوں پر ظلم و ستم ڈھائے جا رہے ہیں۔ اسی آشین وراتھو کی سربراہی اور کہنے پر ہو رہے ہیں۔ آخر اس ظلم و ستم کی وجہ کیا ہے؟
کبھی روہنگیا مسلمانوں پر الزام عائد کیا جاتا ہے کہ یہ ملکی معاملات میں مداخلت کرنے والے باہر سے آئے ہوئے لوگ ہیں۔ کبھی ان پر مذہب کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے۔ مردوں، عورتوں اور بچوں کو زندہ جلادیا جاتا ہے۔ گردنیں کاٹ کر تن سے جدا کردی جاتی ہیں۔ گھروں کو آگ لگا دی جاتی ہے۔ بستیوں کو خالی کرالیا جاتا ہے۔ ایک وجہ یہ بھی بیان کی جاتی ہے کہ جو حقیقت سے بہت زیادہ قریب ہے کہ دراصل روہنگیا مسلمانوں کی آبادی کا علاقہ اراکان قدرت کی عطا کردہ نعمتوں اور خزانوں سے مالا مال ہے۔ اراکان چٹاگام کے جنوب میں چودہ ہزار مربع میل پر مشتمل ایک تنگ پٹی پر مشتمل پورے ملک میں ایک زر خیز علاقہ ہے۔



جدید تحقیقات سے پتا چلا ہے کہ اراکان کی ساحلی پٹی پر واقع سمندر کی تہہ میں قدرتی خزانے بھرے ہوئے ہیں۔ یہاں تیل اور گیس کے بڑے ذخائر موجود ہیں۔ روہنگیا مسلمانوں سے دشمنی اور ان پر ڈھائے جانے والے مظالم کی ایک وجہ یہ بھی بتائی جاتی ہے کہ روہنگیا مسلمانوں کے آباد علاقے اراکان کے کوہِ اراکان کی چوٹیوں سے پھوٹنے والے چشمے دریائے ناف، دریائے کلا دان، دریائے لیمرو اور دریائے مایو کی شکل میں سارے میانمار (برما) کو سیراب کرتے ہیں۔ جب کہ حقیقت تو یہ ہے کہ یہاں ایک بندرگاہ بھی تعمیر کی جارہی ہے۔ روہنگیا مسلمانوں کی اقلیت کی زندگی کو بدھ مت اکثریت نے اپنے معاشی مفادات کے لیے مذہب کی آڑ میں عذاب میں مبتلا کردیا ہے۔ اقوام متحدہ اور امریکا سمیت دنیا کے کئی ممالک نے روہنگیا مسلمانوں کو دنیا کی مظلوم ترین اقلیت قرار دیا ہے۔ روہنگیا مسلمانوں پر اس قدر ظلم ڈھایا جاتا ہے کہ وہ قریبی مسلم ممالک خصوصاً بنگلا دیش میں پناہ لینے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انڈونیشیا اور ملائشیا میں بھی روہنگیا پناہ گزین موجود ہیں۔



دو ہزار چودہ میں میانمار میں جمہوری اداروں کے استحکام کے وقت اقوام متحدہ نے اس امر کو یقینی بنانے کے لیے عملی اقدامات پر بڑا زور دیا تھا کہ آنے والی حکمران پارٹی روہنگیا مسلمانوں کو مقامی باشندہ تسلیم کرے اور وہ سارے حقوق فراہم کرے جو ایک ملک کے باشندے کو حاصل ہوتے ہیں۔ لیکن میانمار کی موجودہ حکومت تیرہ لاکھ روہنگیا مسلمانوں کو غیر قانونی تارکین وطن کہہ کر شہریت دینے سے انکار کردیا ہے۔ اقوام متحدہ کے سابق سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے رپورٹ میں کہا تھا کہ میانمار میں امن کا واحد راستہ روہنگیا مسلمانوں کو ملکی شہریت فراہم کرنا ہے۔ دو ہزار بارہ اور تیرہ میں تقریباً دو لاکھ روہنگیا مسلمانوں نے میانمار حکومت، فوج اور بدھ مذہبی پیرو کاروں کے ظلم و ستم کے ہاتھوں پریشان ہوکر بنگلا دیش، ملائشیا، تھائی لینڈ اور انڈونیشیا ہجرت کی۔ ورلڈ ایمنسٹی رپورٹ کے مطابق پچھلے چند دنوں میں اراکان کے اکیس سو دیہات کو جلادیا گیا ہے۔ دس ہزار افراد کو قتل کردیا گیا یا زندہ جلا دیا گیا ہے۔ جن میں کم سن بچے، مرد، عورتیں، بوڑھے اور جوان سب شامل ہیں۔ انسانی نازک اعضاء اور جسم کے ہاتھ پاؤں، سر اور ہتھیلیوں کو جسم سے الگ الگ کاٹ کر علیحدہ کیا گیا ہے۔



پندرہ سو سے زائد خواتین کی عصمت دری کی گئی۔ اب ضرورت اس امر کی ہے کہ بحیثیت انسان کے پوری دنیا کے انسانوں کو ان روہنگیا مسلمانوں کو اس غیر انسانی سلوک سے نجات دلانی چاہیے۔ عالمی قوانین کی پابندی ہونی چاہیے۔ ستاون ممالک پر مشتمل آرگنائزیشن آف اسلامک کارپوریشن، چونتیس ممالک پر مشتمل افواج اور بحیثیت مسلمان ہماری ذمے داری ہے کہ ایمان کے تیسرے درجے سے نکل کر کم از کم دوسرے درجے کو اختیار کریں اور اپنے ان روہنگیا مسلمانوں کے لیے آواز بلند کریں۔ اللہ کے رسول ؐ نے فرمایا ہے کہ: ’’تم مسلمانوں کو باہم رحم دلی، الفت و محبت اور باہم تکلیف میں ایسا پاؤ گے جیسے کہ اگر ایک عضو پیمار پڑ جائے تو سارا جسم بخار اور بے خوابی میں اس کا شریک رہتا ہے‘‘۔
اللہ کے رسول ؐ نے مسلمان کے مسلمان پر چھ حقوق بتائے جن میں سے ایک یہ ہے کہ: ’’وہ اپنے بھائی کی خیر خواہی کرے چاہے وہ موجود ہو یا غائب‘‘۔