اس وقت پتا چلے گا کہ یہ عمارت جلنے اور دو افراد کی جان جانے کا فائدہ کس کو ہوا ہے۔ زیادہ دن نہیں گزرے نندی پور پروجیکٹ کاریکارڈ جل گیا تھا۔ اس سے قبل لاہور میں ایل ڈی اے پلازہ میں لگنے والی آگ میں میٹرو بس کا ریکارڈ جل گیا تھا۔ کراچی کے بحریہ کمپلیکس میں بھی آگ لگی تھی ، کے ای ایس سی کی عمارت بھی جلی تھی اور ایکسپورٹ پروموشن بیورو کی عمارت میں بھی آگ لگی تھی۔ حیرت انگیز بات ہے سب عمارتوں میں آگ لگنے سے ریکارڈ ہی جلا۔ بیشتر واقعات چھٹی کے دن ہوئے تاکہ پتا نہیں چل سکے کہ آگ کیسے لگی ۔آخر میں پاکستان کی لال بجھکڑ پولیس اور تحقیقاتی ادارے آ کر بتاتے ہیں کہ الیکٹرک شارٹ سرکٹ کی وجہ سے آگ لگ گئی تھی۔ اس مرتبہ تیز ہواؤں پر الزام ہے کہ اس کی وجہ سے آگ بار بار بھڑک رہی تھی۔ خراب آلات کا کوئی ذمے دار نہیں۔ اب کس سے منصفی چاہی جائے ، ہر ادارہ ریکارڈ جلا ہے۔
ایک سوال ضرور ذہن میں آتا ہے کہ آج کے دور میں بھی سارا ریکارڈ صرف کاغذوں ہی پرکیوں ہوتا ہے۔ کمپیوٹر کیا اس کام کے لیے استعمال نہیں ہوسکتے۔ جس رفتار سے آتشزدگی اور نقصانات ہو رہے ہیں اس اعتبار سے کسی بھی دن پانامہ کا ریکارڈ بھی جل جاء گا ۔جے آئی ٹی کا بھی ۔۔۔ پھر پوچھتے اور ڈھونڈتے رہیں کہ کس کس کانام کہاں کہاں لیا گیا۔ آج کل لے دے کر تھوڑا بہت انحصار یا آسرا عدالت عظمیٰ کا ہے۔ تو یہی کہا جاسکتا ہے کہ عدالت عظمیٰ اس آتشزدگی کا بھی ازخود نوٹس لے اور تحقیقات کرائے کہ اس آتشزدگی یا آتشزنی کے پیچھے کون ہے۔ ویسے ریکارڈ موجود ہوں تو بھی کیا ہوتا ہے۔ نیب نے دعویٰ کیا ہے کہ آصف زرداری کے خلاف 22ہزار مصدقہ دستاویزات موجود ہیں تو کیا ہوا۔ ’’17برس‘‘ بعد نیب عدالت نے ’’سرسری‘‘ سماعت کر کے بری کردیا۔ ریکارڈ کس کام کا ۔