روہنگیا کے مظلومین۔۔۔ ہمیں کیا کرنا چاہیے؟

187

zc_JawedAKhanسوشل میڈیا نے روہنگیا مظلوم مسلمانوں پر ہونے والے خوفناک مظالم کے جو مناظر دکھائے ہیں اس نے الیکٹرونک میڈیا بالخصوص مغربی میڈیا کو مات کردیا ورنہ اس سے قبل دنیا میں کہیں بھی ہونے والی قتل و غارت گری مغربی میڈیا اپنے ایک خاص اینگل سے دنیا کے سامنے پیش کرتا تھا۔ گزشتہ جمعہ کی نماز میں امام صاحب نے سورہ والتین وزیتون کی تلاوت کی جس میں اللہ تعالیٰ نے کئی چیزوں کی قسم کھا کر کہا کہ ہم نے انسان کو احسن تقویم پر پیدا اور پھر اسے پلٹ کر نیچوں سے نیچ (اسفل السافلین) کردیا سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے اورجنہوں نے نیک عمل کیے۔ نیچوں سے نیچ کی مختلف مفسرین نے جو تفصیل بیان کی ہے اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ انسان ایمان اور عمل صالح سے عاری ہے تو وہ اپنی سفاکی میں درندوں کو بھی مات کردیتا ہے۔ برما کی فوج اور برما کے بدھسٹ روہنگیا کے مسلمانوں کے ساتھ جو کچھ کررہے ہیں قلم اس کا احاطہ کرنے سے معذور ہے،



ایک شخص کو پکڑ کر لایا گیا دوسرے نے کھڑے کھڑے اس کے گلے پر تیز دار چھرا چلایا خون کا فوارہ نکلا وہ گر کر تڑپنے لگا اتنے ایک دوسرا شخص چھرا لے کر آیا اور اس کے بدن کو چھرے سے اس طرح گودنے لگا جیسے کہ کوئی زمین میں گڑھا کھود رہا ہو ایک چند ماہ کا چھوٹا سا بچہ ہے جس کی گردن پر ایک وحشی برمی بدھسٹ دونوں پیروں سے کھڑا ہو کر اس کو موت کی نیند سلارہا ہے۔ ایک گڑھے میں بہت سے مظلوموں کو پھینکا گیا اور اوپر سے پٹرول پھینک کر آگ لگادی گئی اسی طرح پوری پوری بستی کو نذر آتش کیا گیا اور جب لوگوں نے جان بچا کر بھاگنے کی کوشش کی تو انہیں گولیوں سے بھون دیا گیا۔ سیکڑوں لوگوں کو گڑھے میں پھینکا گیا دونوں طرف سے ٹریکٹر کے ذریعے مٹی ڈال کر انہیں زندہ دفن کردیا گیا۔ حادثے سے بڑا سانحہ تو یہ ہے پوری دنیا اور بالخصوص مغربی دنیا اور انسانی حقوق کی تمام عالمی تنظیمیں ظالمانہ بے حسی کی چادر تانے سو رہی ہیں یہاں زندہ انسانوں کے جسم سے کھال اتاری جارہی ہے عالمی ضمیرکی کھال اتنی موٹی ہے کہ اس پر کوئی اثر ہی نہیں ہو رہا بلکہ ان کا ضمیر مردہ ہو چکا ہے۔



ترکی دنیا کا وہ پہلا ملک ہے جس نے اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیا ہے ایک زمانہ تھا کہ پاکستان کو یہ اعزاز حاصل تھا کہ دنیا میں کہیں بھی مسلمانوں کے خلاف کوئی بات ہو تو آگے بڑھ کر ان کے مسئلے کو اٹھاتا تھا۔ بنگلا دیش کی حکومت جو بھارت کے زیر اثر ہے اس نے پہلے تو ان مہاجرین کو قبول کرنے سے ہی انکار کردیا تھا لیکن جب ترکی کے سربراہ طیب اردوان نے بنگلا دیش کی حکومت سے یہ کہا کہ وہ ان تمام مہاجرین کا خرچہ اٹھائے گا آپ ان کو اپنے یہاں پناہ دے دیں تب جاکہ کچھ بنگلا دیش تیار ہوا ہے۔ سب سے پہلے ترک سربراہ کی اہلیہ ایک لاکھ سے زائد روہنگیا مہاجرین کے لیے خوراک و ادویات وغیرہ لے کر گئیں وہاں انہوں نے متاثرین سے ملاقاتیں بھی کیں جب کہ پاکستان سے الخدمت فاؤنڈیشن کے صدر عبدالشکور صاحب اپنی ٹیم کے ساتھ وہاں پہنچے ہیں۔ پاکستان ہی کے ایک مخیر اور بڑے کاروباری گروپ کے ملک ریاض نے بھی بھاری بھر کم امداد کا اعلان کیا ہے۔ پاکستان سے میڈیا ٹیمیں بھی وہاں پر صورت حال کی درست عکاسی کرنے کے لیے گئی ہوئیں ہیں لیکن برما کی حکومت نہ صرف یہ کہ ان کے ساتھ کوئی تعاون نہیں کررہی بلکہ ان کے لیے مسائل پیدا ہورہے ہیں۔



ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ مغربی ممالک، یورپی یونین، مسلم ممالک کے سربراہان، انسانی حقوق کی عالمی تنظیمیں اور عالمی ضمیر کیوں سویا ہوا ہے اور یہ کب جاگے گا۔ یہ سویا ہوا تو اس وجہ سے ہے کہ یہ ظلم مسلمانوں کے ساتھ ہو رہا ہے اگر ان کی جگہ عیسائی یا یہودی ہوتے تو یہ سب ادارے پوری دنیا کو سر پر اٹھا لیتے اسی سے لگا ہوا دوسرا سوال یہ ہے کہ یہ سب ادارے کب جاگیں گے تو اس کے لیے آسان سی بات ہے کہ آپ آسیہ ملعونہ جو توہین رسالت کی مجرمہ ہے اس کی پھانسی کی تاریخ مقرر کردیں دیکھیے پھر دنیا میں کیسا شور مچتا ہے ایک مجرمہ کو بچانے کے لیے ساری انسانی حقوق کی تنظیمیں جاگ جائیں گی۔ لیکن ایسا ہو نہیں سکے گا کہ ہمارے حکمراں طبقہ ایمان، احساس، انصاف اور جرات سے محروم ہے۔ پاکستان کی حکومت نے ایک رسمی کارروائی کے طور پر برما کے سفیر کو بلا کر ہلکا سا احتجاج کیا ہے، جب کہ ہونا تو یہ چاہیے کہ برما سے سفارتی تعلقات منقطع کیے جائیں، برما کے سفیرکو ملک سے نکالا جائے اور اپنے سفیر کو واپس بلایا جائے۔



مالدیپ جیسے چھوٹے سے ملک نے اپنے سفیر کو واپس بلا لیا۔ ہمارا ایک مسئلہ مسلم ممالک کے سربراہوں کا بھی ہے جنہوں نے مجرمانہ خاموشی اختیار کی ہوئی ہے۔ بڑی تگ و دو اور مار پیٹ او آئی سی کا اس مسئلے پر اجلا س ہوا اس میں بھی کوئی مضبوط موقف اختیار نہیں کیا گیا بلکہ ہلکا سا احتجاج کیا گیا ہونا تو یہ چاہیے کہ پچاس سے زائد اسلامی ممالک ہیں جو برما سے سفارتی توڑ لیں تو اس کا بہت زیادہ اثر پڑسکتا ہے۔ ایک خبر یہ بھی مارکیٹ میں بڑے زور و شور سے چل رہی ہے پاکستان نے برما کو اپنا اسلحہ فروخت کرنا شروع کردیا ہے اس لیے پاکستانی حکومت مصلحت سے کام لے رہی ہے۔ اگر یہ خبر درست ہے تو اس کا دوسرا مطلب یہ ہوا کہ پاکستانی ہتھیاروں سے برمی مسلمانوں کا قتل عام کیا جارہا ہے۔ حکومت پاکستان کو فوری طور پر اس حوالے سے اپنی پوزیشن کی وضاحت کرنا چاہیے۔
10ستمبر بروز اتوار جماعت اسلامی کراچی نے ایک بہت بڑا مظاہرہ کیا جس میں لاکھوں افراد شریک تھے یہ پورے ملک میں اب تک کے ہونے والے مظاہروں میں سب سے بڑا ایونٹ تھا، جس میں بہت بڑی تعداد میں خواتین بھی شریک تھیں۔ پاکستان کی تمام سیاسی و غیر سیاسی تنظیمیں پورے ملک کے ہر چھوٹے بڑے شہروں میں اس مسئلے پر مظاہرہ کررہی ہیں یہ ایک اچھی بات ہے اگر یہ ساری تنظیمیں متحد ہو کر پورے ملک میں بھرپور طاقت کا مظاہرہ کریں تو ممکن ہے ہمارے حکمرانوں کے کان میں جوں رینگ جائے۔



ہم انفرادی طور سے کیا کر سکتے ہیں سب سے پہلے تو روہنگیا مظلوم مسلمانوں بالخصوص بچوں اور خواتین کے لیے اپنے ربّ سے دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ان کی اپنے غیب سے مدد فرمائے جب کوئی حکومت ہی اپنے شہریوں کی جان کے پیچھے پڑجائے تو پھر ان کا تحفظ اور کون کرسکتا ہے۔ جس طرح ملائیشیا کی حکومت نے روہنگیا کہ مہاجرین کو اپنے پناہ دینے کا اعلان کیا ہے اسی طرح پاکستان کو بھی یہ اعلان کرنا چاہیے کہ وہ ان مظلوم مسلمانوں کو گلے لگانے کے لیے تیار ہے آخر پہلے ہی ہمارے یہاں لاکھوں برمی رہ رہے ہیں اور یہ سب شریف اور قانون پسند شہریوں کی طرح رہ رہے ہیں ہم نے تیس لاکھ افغانیوں کا بوجھ برداشت کیا اور اس کے نتیجے میں ہمیں کلاشنکوف اور ہیروئن کلچر کا سامنا کرنا پڑا جس نے ہماری نسل کو تباہ کرکے رکھ دیا جب کہ ان کے مقابلے میں برمی لوگ امن و امان سے ملکی قوانین کی پابندی کرتے ہوئے رہتے ہیں، ویسے بھی پاکستان کلمہ لا الہ الا اللہ کی بنیاد پر وجود میں آیا ہے دنیا کا ہر کلمہ گو مسلمان کو یہ حق حاصل ہے کہ پاکستان میں آکر رہ سکتا ہے۔