نائن الیون کے سولہ برس

268

zc_ArifBeharگیارہ ستمبر کو امریکا پر ہونے والے خوفناک حملوں کو سولہ برس ہوگئے۔ ابھی تک خوف اور دہشت کی اس محیر العقول کارروئی کے حوالے سے کہی کہانیاں محوِگردش ہیں مگر سب سے اہم تھیوری، سب سے اہم کہانی وہی ہے جو امریکا کی زبانی دنیا تک پہنچی۔ دنیا نے بھی ایک مظلوم کی کتھا کے طور آنکھیں بند کر کے اسی تھیوری پر اعتبارکر لیا اور اسی کہانی نے سولہ برس میں واقعات، حادثات، اقدامات کی صورت بے شمار انڈے اور بچے دیے۔ یہاں تک کہ حالات کی ایک ایسی دلدل وجود میں آگئی جس میں ہر گزرتے دن کے ساتھ بہت سے ملک تو ڈوب گئے مگر امریکا خود بھی اس میں دھنس کر رہ گیا۔ امریکا کی کتھا یہ تھی کہ دنیا سے کٹے ہوئے افغانستان کے تورا بورا کے غاروں میں چھپے اُسامہ بن لادن کی نگرانی میں امریکا پر حملوں کا منصوبہ بنا۔ اس کے لیے وسائل اکٹھے ہوئے، فدائی سامنے آئے۔ جن کے امریکا تک پہنچنے کی منازل نہایت آسانی سے سر ہوتی گئیں اور ایک روز عرب باشندوں نے امریکا کے جہاز اغوا کیے اور وہ امریکا کے اہم سیاسی اور کاروباری مراکز پر جاگرے۔



ورلڈ ٹریڈ سینٹر کے مینار، وائٹ ہاؤس اور پنٹاگون ان کے اہداف میں تھے کچھ ہدف کامیاب اور کچھ ناکام ہوئے۔ مجموعی طور ان حملوں میں دوہزار نو سو ستانوے افراد ہلاک چھ ہزار زخمی اور دس بلین ڈالر کا نقصان ہوا۔ بیالیس منٹ کے مختصر وقت میں ورلڈ ٹریڈ سینٹر کی ایک سو دس منزلہ عمارت ملبے کا ڈھیر بن کر رہ گئی۔ بتایا گیا کہ اس کارروائی کا مقصد امریکا کو تباہ کرنا تھا۔ القاعدہ کے سربراہ اُسامہ بن لادن نے پہلے ان حملوں میں ملوث ہونے کی تردید کی اور بعد میں واقعے کی ذمے داری قبول بھی کی۔ یہ وہ وقت تھا سرد جنگ ختم ہوئے کم وبیش دس سال کا عرصہ ہوچکا تھا اور امریکا دنیا کی واحد سپر طاقت تھا۔ امریکا دنیا کو کنٹرول کرنے کے لیے نیو ورلڈ آرڈر پیش کر چکا تھا اور اس پر عمل درآمد ہو رہا تھا۔ امریکا کے ایک معتبر مفکر سوویت یونین کے انہدام اور کمیونزم کے زوال کے بعد تہذیبوں کے تصادم کا فلسفہ پیش کر چکے تھے اور ان کا کہنا تھا کہ کمیونزم کے بعد اب مغرب کو فوری طور پر اسلامی تہذیب سے خطرہ ہے اور یہ تصادم یقینی ہوتا جا رہا ہے۔



نائن الیون کی کارروائی امریکا کے لیے ایک جال ثابت ہوئی۔ اس کے بعد امریکا طاقت، ردعمل اور انتقام کے جس سفر پر چل پڑا سولہ برس سے جاری ہے۔ انتقام کی یہ ہوا کئی مسلمان ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کا چراغ بجھا کر بھی تھم نہ سکی۔ امریکی کارروائیوں کے باعث مشرق وسطیٰ سے جنوبی ایشیا تک ہنستے بستے مسلمان ملکوں کے اقتدار اعلیٰ کی کرچیوں کا ڈھیر سا لگ گیا۔ نائن الیون کا مقصد اگر امریکا کو ایک ہی ہلے میں تباہ کرنا تھا تو وہ پورا نہیں ہوا مگر امریکا نائن الیون کے جس دھاگے میں اُلجھ گیا دوبارہ اس میں سلجھن نہ آسکی۔ افغانستان امریکا کی فوجی طاقت، بین الاقومی دبدبے اور یونی پولر حیثیت کے لیے برمودہ ٹرائی اینگل ثابت ہوا۔ امریکی صدر بش جونیئر کو کرسئ اقتدار سے ہٹے زمانے گزر گئے۔ اُسامہ بن لادن اور ان کے میزبان ملا عمر کو دنیا سے رخصت ہوئے کئی سال بیت گئے۔ اس خونیں کھیل سے وابستہ اور اس کے رازوں کے شناور بے شمار کردار تاریخ کے دھندلکوں میں گم ہو چکے ہیں مگر امریکا اور دنیا کا بڑا حصہ ابھی بھی ذہنی اور عملی طور پر حالات کے اسی موڑ پر کھڑا ہے جہاں اسے نائن الیون نے پہنچایا تھا۔ سولہ برس بعد بھی امریکا افغانستان میں پھنس کر ایک کے بعد دوسری غلطی کر رہا ہے۔



ان غلطیوں میں امریکا کی یونی پولر حیثیت بھی گئی اور عالمی منظر نامہ بھی تبدیل ہوتا جا رہا ہے۔ یک قطبی دنیا کثیر القطبی میں بدل رہی ہے اور یہ سب نائن الیون کے حادثے کے بعد پیدا ہونے والے حالات کا نتیجہ ہے۔ نائن الیون کے واقعے کا سارا ملبہ مسلمانوں پر پڑا اور امریکا نے فلسطین اور کشمیر جیسی مسلمانوں کی تحریکوں سے معاندانہ رویہ اپنا لیا۔ برس ہا برس سے جاری ان تحریکوں کو دہشت گردی کے ساتھ بریکٹ کیا گیا او ر اب بھی امریکا انتقام اور غصے کی کیفیت سے باہر نہیں نکل سکا۔ میڈیا کے زور پراس واقعے بعد مغرب میں اسلامو فوبیا پیدا کیا گیا تو اس کا نتیجہ بھی ہر گزرتے دن کے ساتھ ظاہر ہونے لگا ہے۔ مغرب، شہری آزادیوں، تحمل، برداشت اور ثقافتی تنوع جیسی جن اقدار پر ناز کرتا تھا وہ عدم برداشت اور سخت گیری پر مبنی سماجی رویوں اور ظالمانہ قوانین میں بدل کر رہ گیا اور آج مغرب میں جابجا مسلمان عدم برداشت کے رویوں کا شکار ہوتے جا رہے ہیں۔ آج یہ رویہ صرف مسلمانوں تک محدود ہے کل یہ مغرب کی عادت اور پھر روایت بن جائے گی۔