سابق وزیر پٹرولیم ڈاکٹر عاصم حسین، جن کو کراچی میں فوجی آپریشن کے دوران، 2015 میں چار سو ساٹھ ارب روپے کی کرپشن اور اپنے ہسپتال میں دہشت گردوں کو پناہ دینے اور علاج و معالجہ فراہم کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا اور جو حراست کے دوران کافی عرصہ ہسپتال میں زیر علاج رہے، اب عدالت نے انہیں دل کے عارضہ کے علاج کے لیے ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی ہے اور یہ اجازت ملتے ہی وہ لندن روانہ ہوگئے۔
کس قدر تعجب کی بات ہے کہ ڈاکٹر عاصم جن کے ایک نہیں کئی ہسپتال ہونے کے باوجود ان ہسپتالوں میں ان کا علاج ممکن نہیں تھا۔ لوگوں کے ذہنوں میں قدرتی طور پر یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ یونیورسٹی درجے کے حامل ان اسپتالوں میں دل کے عارضہ کا علاج ممکن نہیں تو پھر ہمارے ملک کے ہسپتالوں کا نظام ناقص ہے جب ہماے ہاں کینسر کا کامیاب علاج ممکن ہے تو دل کے عارضہ کا علاج کیوں نہیں ہوسکتا۔ اگر یہ کہا جائے تو غلط نہیں ہوگا کہ صاحب ثروت اور بااثر ملزم گرفتار ہوتے ہی بیمار بن جاتے ہیں اور جیل سے بچنے کے لیے ہسپتال میں داخل ہو جاتے ہیں اور پھر مقدمات سے بچنے کے لیے ملک سے فرار ہونا چاہتے ہیں تو بہانہ بیرون ملک علاج کا بناتے ہیں۔
ہمارے ہاں فوج کے اتنے اعلیٰ پائے کے ہسپتال ہیں لیکن، سابق فوجی آمر، مشرف کی کمر میں موچ آئی تو وہ فوجی ہسپتال میں علاج کرانے کے بجائے دبئی فرار ہوگئے۔ حالانکہ جب انہیں مقدمات کی سماعت کے لیے عدالت بلایا جاتا تھا تو راستہ میں فوجی ہسپتال میں چھپ جاتے تھے۔ پرویز مشرف پر بھی، ڈاکٹر عاصم کی طرح سنگین الزامات کے مقدمات زیر سماعت ہیں بلکہ انہیں ان سے زیادہ سنگین، غداری اور بے نظیر بھٹو کے قتل کے الزام میں مقدمات کا سامنا ہے۔
اس بات کی کوئی تردید نہیں کرتا کہ سابق صدر آصف علی زرداری کے قریبی ساتھی، ڈاکٹر عاصم حسین کو سیاسی سودے بازی کے نتیجے میں ملک سے باہر جانے کی اجازت دی گئی ہے، تو کیا عدالتیں بھی اس سودے بازی کا حصہ ہیں؟ ادھر پرویز مشرف کے ملک سے فرار ہونے کے پیچھے فوج کا دباؤ کارفرما نظر آتا ہے۔ خود پرویز مشرف نے اعتراف کیا ہے کہ ان کے ملک سے باہر جانے کی اجازت کے لیے فوج کے سربراہ نے اپنا اثرو رسوخ استعمال کیا تھا۔ تو سوال یہ ہے کہ ہماری عدالتیں، جن کے بارے میں عدلیہ کی آزادی کی تحریک کے بعد، دعویٰ کیا جاتا ہے کہ آزاد ہیں، کیا اب بھی مقتدر، با اثر افراد کے دباؤ کے سامنے گھٹنے ٹیک دیتی ہیں۔
لوگ ابھی بھولے نہیں کہ امریکا میں پاکستان کے سابق سفیر حسین حقانی، جنہیں عدالت عظمیٰ کے مقرر کردہ عدالتی کمیشن نے میمو گیٹ کی تفتیش کرنے کے بعد یہ فیصلہ دیا تھا کہ انہوں نے وہ میمو لکھا تھا جس میں امریکا سے، زرداری حکومت کو فوج کی برطرفی کے خطرہ سے بچانے کے لیے، پاکستان میں براہ راست مداخلت کرنے کے لیے کہا گیا تھا۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ عدالت عظمیٰ جس نے یہ عدالتی کمیشن مقرر کیا تھا، حسین حقانی کا جرم ثابت ہونے کے بعد یہ فیصلہ دیا کہ کمیشن نے محض اپنی رائے ظاہر کی ہے۔ لوگوں کو اس بات پر بھی سخت تعجب ہوا کہ عدالت عظمیٰ نے عدالتی کمیشن کے فیصلہ سے پہلے ہی 2012 میں حسین حقانی کو ملک سے باہر جانے کی اجازت دے دی، جب کہ حسین حقانی پر سنگین الزام تھا۔ پانچ سال قبل حسین حقانی ملک سے رسی تڑا کے ایسے فرار ہوئے کہ اب تک وطن واپس نہیں آئے ہیں۔ لوگوں کو شبہ ہے کہ حقانی چونکہ سابق صدر زرداری کے قریبی ساتھی تھے اس لیے ان کی وطن سے فرار ہونے میں سیاسی آشیر باد حاصل تھی۔ اس زمانہ میں جب حقانی کے خلاف میمو گیٹ کے مقدمہ کی سماعت ہورہی تھی تو وہ پہلے ایوان صدر میں اور اس کے بعد وزیر اعظم گیلانی کے ایوان وزیر اعظم میں پناہ گزیں تھے۔
جنوری 2011 میں لاہور میں سر بازار دو نوجوانوں کو گولی مارنے اور ایک نوجوان کو کار سے روندھ کر ہلاک کرنے والے، سی آئی اے کے ایجنٹ ریمنڈ ڈیوس کا معاملہ بھی لوگوں کو اچھی طرح یاد ہے کہ کس طرح زرداری حکومت نے امریکی دباؤ میں آکر دیت کا سہارا لے کر ریمنڈ ڈیوس کو ملک سے فرار کردیا تھا۔ دیت کی رقم، ریمنڈ ڈیوس یا امریکی حکومت نے ادا نہیں کی تھی بلکہ زرداری حکومت نے خاموشی سے سرکاری خزانہ سے ادا کی تھی۔ ایسے انصاف کی کہیں اور نظیر نہیں ملتی۔
یہ تو تازہ مثالیں ہیں عدالتی ناانصافیوں کی۔ آئیے آپ کو 63سال پہلے اس تاریخی مقدمے اور اس کے فیصلے کی جانب لے چلوں جس نے پاکستان کی تاریخ کا دھارا ہی موڑ کر رکھ دیا۔ اس مقدمہ کا میں عینی شاہد ہوں کیونکہ میں نے اسے پورا کور کیا تھا۔ اکتوبر 1954میں گورنر جنرل غلام محمد نے آناً فاناً بغیر کوئی ٹھوس وجہ بتائے پہلی دستور ساز اسمبلی توڑ دی تھی۔ دستور ساز اسمبلی کے اسپیکر مولوی تمیز الدین خان نے گورنر جنرل کے اس اقدام کو سندھ چیف کورٹ میں للکارا تھا، ان کا مقدمہ برطانیہ کے نامور قانون دان، سر ڈنگل فٹ نے لڑا اور جیت گئے۔ سندھ چیف کورٹ نے غلام محمد کے اقدام کو کالعدم قرار دیا اور اسمبلی کی بحالی کا حکم دیا تھا۔
سندھ چیف کورٹ کے اس فیصلہ کے خلاف گورنر جنرل غلام محمد نے عدالت عظمیٰ میں جو اس زمانہ میں فیڈرل کورٹ کہلاتی تھی اپیل کی تھی۔ اس سے پہلے کہ چیف جسٹس محمد منیر اپیل کی سماعت کرتے، گورنر جنرل غلام محمد، جھنڈا لہراتی کار میں جسٹس محمد منیر کی قیام گاہ پہنچے۔ غلام محمد اور جسٹس محمد منیر ایک ہی ککے زئی ملک برادری سے تعلق رکھتے تھے۔ سربراہ مملکت اور چیف جسٹس کی اس غیر معمولی ملاقات کے بعد چیف جسٹس محمد منیر نے سندھ چیف کورٹ کے فیصلہ کے خلاف اپیل منظور کر لی اور دستور ساز اسمبلی کی تحلیل کا فیصلہ جائز قرار دیا، جواز کے لیے ’’نظریہ ضرورت‘‘ کا اصول پیش کیا گیا۔ یعنی غیر قانونی اقدام بھی نظریہ ضرورت کے تحت جائز ہے۔ جسٹس اے آر کارنیلیس واحد جج تھے جنہوں نے اس فیصلہ سے اختلاف کیا۔
فیڈرل کورٹ کے اس فیصلہ نے جو واضح طور پر گورنر جنرل کے دباؤ کے تحت دیا گیا تھا، پاکستان میں ہمیشہ کے لیے سیاست کا رخ موڑ دیا اور جمہوریت کے مستقبل کو تاریکی میں دھکیل دیا اور عملی طور پر ملک میں فوجی طالع آزماوں کے لیے دروازے کھول دیے۔
یہ ہمارے ملک میں انصاف کا عجیب و غریب پہلو ہے دوسری طرف انصاف کے حصول کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ مہنگا انصاف ہے۔ وکلا کی بھاری فیسوں کی وجہ سے ایک غریب اور عام آدمی کے لیے انصاف کا حصول محال ہوگیا ہے۔ پھر ججوں کی کمی اور وکلا کے مالی مفادات کے نتیجے میں مقدمات کی تاریخوں پر تاریخیں لگتی ہیں اور مقدمات فیصل ہوتے ہوتے برسوں لگ جاتے ہیں۔
انصاف میں تاخیر دراصل انصاف سے محرومی کے مترادف ہے۔ اسی کے ساتھ، پٹواری، پولیس اور زمینداروں کے گٹھ جوڑ نے دیہات میں انصاف کا گلا گھونٹ دیا ہے۔کیسی ستم ظریفی ہے کہ 1956 سے اب تک بے شمار لا کمیشن قائم ہوئے ہیں لیکن عدالتی نظام کی اصلاح اور عوام کو سستے اور فوری انصاف کے حصول کی راہ میں کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی ہے۔ کیا ہمارے نصیب میں انصاف نہیں لکھا؟