چیئرمین سینیٹ نے جامعات کو طلبہ کا ریکارڈ خفیہ اداروں کو دینے سے روک دیا

749

اسلام آباد (صباح نیوز) چیئرمین سینیٹ نے جامعات کے وائس چانسلرز کو خفیہ اداروں کو طلبہ کا ریکارڈ فراہم کرنے سے روک دیا جبکہ میاں رضا ربانی کا کہنا ہے کہ لاپتا افراد کی بازیابی کے معاملے پر پارلیمنٹ ناکام ہوگئی ہے ۔ تفصیلات کے مطابق منگل کو سینیٹ اجلاس کی کارروائی کے دوران لاپتا افراد کا معاملہ اٹھایا گیا اس حوالے سے انتہا پسندی ،دہشت گردی شدت پسندی کے قومی بیانیہ کی عدم موجودگی پر اراکین سینیٹ نے تشویش کا اظہار کیا ۔چیئرمین سینیٹ رضاربانی نے اراکین کو آگاہ کیا کہ انہیں اطلاع ملی تھی کہ جامعہ کراچی سے طلبہ کا خفیہ اداروں نے ریکارڈ مانگا ہے تاکہ یہ متعلقہ تھانوں میں رکھا جا سکے ۔

انہوں نے کہا کہ میں نے فوری طور پر ذاتی حیثیت سے اس اقدام کا نوٹس لیتے ہوئے وائس چانسلر جامعہ کراچی کو خط لکھا اور ہائر ایجوکیشن کمیشن نے بھی اس معاملے کا جائزہ لیا اور انہوں نے بھی طلبہ کا ریکارڈ خفیہ ایجنسیوں کو فراہم کرنے کی مخالفت کی اور مجھے معلوم ہوا ہے کہ میرے خط اور ہائر ایجوکیشن کے مؤقف پر جامعہ کراچی کے متعلقہ اعلی سطح کے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ ریکارڈ کسی کو نہیں دیا جائے گاجبکہ ہائرایجوکیشن کمیشن نے بھی چیئرمین سینیٹ کے مؤقف کی حمایت کر دی ہے ۔



قبل ازیں سینیٹرحافظ حمداللہ نے کہا کہ 8ستمبر کو اہلحدیث کے رہنما علی محمد تراب کو بلوچستان میں محافظوں سمیت اغوا کیا گیا آج تک لاپتا ہیں ،بلوچستان کے وزیر داخلہ نے بازیابی کی یقین دہانی کرائی تھی ۔ انہوں نے کہا کہ یہ ایک اہم معاملہ ہے وفاقی حکومت کو اس حوالے سے اقدامات کرنا چاہیے۔سینیٹر فرحت اﷲ بابر نے کہا کہ حافظ حمد اﷲ نے جو ایشو اٹھایا ہے وہ اغوا کانہیں جبری گمشدگی کا لگتا ہے ۔جسٹس علی نواز چوہان جو چیئرمین نیشنل کمیشن آف ہیومن رائٹس بھی ہیں نے کہا ہے کہ ایسا کوئی قانون موجود نہیں ہے جس سے سیکورٹی اداروں کو پابندبنائیں کہ یا ان سے پوچھیں کہ فلاں بندہ کہاں ہے؟پہلے اٹک میں لاپتا فرد کا واقعہ ہوا آپ کامعاملہ گھمبیر ہوتا جا رہا ہے کون سے ایسے لوگ ہیں جو تمام ادارون سے بالاتر ہیں۔ ایسے اقدامات سے دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اور مزید دہشت گرد پیدا ہوں گے ۔پارلیمان کو اپنا کام کرنا ہوگا اور اس معاملے پر قانون سازی کرنا ہوگی،اس ایشو کو بھی انسانی حقوق کمیٹی کے سپرد کیا جائے۔



چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی نے کہا کہ لاپتا افراد کے معاملے پر پارلیمان ناکام ہوچکی ہے اور اس کا اعتراف میں کر چکا ہوں۔ارکان سینیٹ نے طویل عرصے سے لاپتا افراد کا معاملہ حل نہ ہونے پر گہری تشویش کا اظہار کیا ہے ، سینیٹ میں دہشت گردوں اور انتہاپسندوں کے جواز کو رد کرنے سے متعلق قومی بیانیہ واضح کرنے کے لیے کمیٹی آف دی ہول کا اجلاس طلب کرنے کا مطالبہ کردیا ہے جبکہ چیئرمین سینیٹ نے اپوزیشن کو ہدایت کی کہ وہ لاپتا افراد کے حوالے سے قرارداد اور بل دوبارہ ایوان میں پیش کریں۔ چیئرمین سینیٹ نے افغانستان کی بگرام جیل سے رہا ہونے والے پاکستانیوں کی بحالی کے معاملے کو فنکشنل کمیٹی برائے انسانی حقوق کے سپردکردیا۔ انہوں نے کہا کہ سویلین بحالی ایکٹ کے تحت ان شہریوں کے معاو ضے کا جائزہ لے کر ایک ماہ میں رپورٹ سینیٹ میں پیش کی جائے ۔



علاوہ ازیں اجلاس کے دوران ایم کیو ایم پاکستان کے رکن طاہر حسین مشہدی نے انکشاف کیا کہ پی آئی اے واحد ائر لائن ہیں جس کا جہاز غائب ہو گیا، حکومت بتائے طیارہ کہاں غائب ہوا اور اس کی تلاش میں اب تک کیاپیش رفت ہوئی؟ ،پی آئی اے کے گمشدہ جہاز کے سوال کے جواب پر ایوان میں قہقے لگ گئے۔ وفاقی وزیر پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے دلچسپ منطق پیش کی کہ پی آئی اے دنیا کی واحد ائر لائن ہے جس کا ایک پورا بوئنگ طیارہ ہی غائب ہو گیا، یہ واقعہ جرمن ایم ڈی کے دور میں ہوا، پی آئی اے کا جرمن ایم ڈی جاتے ہوئے بوئنگ جہاز لے گیا، گمشدہ جہاز کا ابھی کوئی پتا نہیں چلا، جہاز کی تلاش کے لیے کمیٹی بنائی گئی تھی مگر انہیں بھی تاحال نہیں ملا۔



انہوں نے ایوان کو بتایا کہ 2 برس قبل ایک شخص کو ذمے داری دی تھی کہ ادارے کی بہتری کے لیے اقدام اٹھائے، پی آئی اے کے پاس مجموعی طور پر 37 جہاز ہیں، 3 جہاز پی آئی اے کی ملکیت ہیں اور باقی ویٹ اور ڈرائی لیز پر حاصل کیے گئے ہیں۔ ایوان بالا کے اجلاس میں وقفہ سوالات کے علاوہ ایجنڈے میں شامل دیگر امور نمٹائے گئے جبکہ تجارتی ادارے بحالی بل 2017ء کی بھی منظوری دی گئی۔ ایوان بالا میں صدر مملکت کے پارلیمان کے مشترکہ اجلاس سے خطاب پر بحث کا آغاز بھی کیا گیا۔ سینیٹ کا اجلاس آج سہ پہر 3بجے تک ملتوی کردیا گیا۔