ضلعی عدلیہ پہلی بار مقدمات کی نوعیت کے مطابق خصوصی بینچ سماعت کرے گا اور 2015ء سے جو مقدمات زیر سماعت ہیں انہیں ترجیحی بنیادوں پر سماعت کرے گا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ چیف صاحب نے فوری انصاف کی فراہمی کے لیے جو اصلاحات جاری فرمائی ہیں ان میں نئی بات کیا ہے؟ ایسی اصلاحات تو وقتاً فوقتاً عدلیہ کی جانب سے جاری ہوتی رہتی ہیں۔ دوسری بات یہ ہے کہ جن ہدایات کو اصلاحات کا نام دیا جارہا ہے وہ نظام عدل کی بنیادی ضروریات ہیں۔ المیہ یہ ہے کہ ان پر عمل درآمد کبھی نہیں ہوتا۔ قبل ازیں مقدمات کا بروقت فیصلہ سنانے کے لیے ایسی ہی اصلاحات جاری کی گئی تھیں مگر نتیجہ ڈھاک کے تین پات کے سوا کچھ نہ نکلا۔ سوال یہ ہے کہ نظام عدل انصاف کی فوری فراہمی کے بجائے اصلاحات کا اجرا ہی کیوں کرتا ہے۔ ان پر عمل درآمد کیوں نہیں کیا جاتا۔ چند برس قبل عدالت عظمیٰ کی جانب سے ہدایات جاری کی گئی تھیں کہ زیر سماعت مقدمات کی سماعت کی یومیہ کارروائی سے آگاہ کیا جائے مگر یہ ہدایات زبانی جمع خرچ سے آگے نہ بڑھیں۔
عدالتوں کی اولین اور بنیادی ذمے داری جلد از جلد انصاف کی فراہمی ہے جس پر کبھی توجہ نہ دی گئی۔ کسی بھی مقدمے کی پیشی کا مقصد مقدمے کی کارروائی کو آگے بڑھانا ہوتا ہے تا کہ فوری انصاف کی فراہمی کو یقینی بنایا جاسکے مگر کارروائی کے بجائے پیشی در پیشی کا افسوس ناک کھیل کھیلا جاتا ہے۔ چند سال پہلے چیف جسٹس پنجاب نے حکم جاری فرمایا تھا کہ 2015ء تک کے مقدمات کی سماعت یومیہ بنیاد پر کی جائے اور ایک دو پیشیوں میں مقدمہ نمٹا دیا جائے مگر ہوا یہ کہ 2015ء تک کے تمام مقدمات الماریوں میں بند کردیے گئے اور 2015ء تک کے مقدمات کا فیصلہ بھی نہ کیا گیا۔
فوری انصاف کی فراہمی کے لیے ضروری ہے کہ جعلی مقدمات کی سرپرستی نہ کی جائے۔ سول کورٹ جن مقدمات کا فیصلہ سنا دیتی ہے ان کی اپیل دائر کرنے کے لیے سینئر اور نیک نام ججوں پر مشتمل کمیٹی تشکیل دی جائے جو مقدمات کا جائزہ لے کر اپیل منظور یا نہ منظور کرنے کا فیصلہ کرے۔ موجودہ نظام عدل کی سب سے بڑی خرابی یہ ہے کہ کسی بھی شخص کو مالی اور ذہنی طور پر تباہ کرنے کے لیے مقدمہ دائر کردیا جاتا ہے پھر پیشی در پیشی کا ابلیسی کھیل کھیلا جاتا ہے۔ سول کورٹ پندرہ بیس سال میں کسی مقدمے کا فیصلہ کرتی ہے، اس عرصے میں فریقین کا موقف اچھی طرح سمجھ لیا جاتا ہے اس لیے بے بنیاد اور جعلی مقدمات کی اپیل حق دار کو حق سے محروم کرنے کی مکروہ صورت ہے، سوال یہ ہے کہ یہ صورت حال کب تک برقرار رہے گی، جج صاحبان کب تک گھسی پٹی اصلاحات کو نئی اصلاحات کا نام دے کر اخبارات کی زینت بنتے رہیں گے۔