روہنگیا مسلمان اور مسلم افواج کے بہادر جرنیل؟

502

ملک الطاف حسین
میانمر میں روہنگیا مسلمانوں کا قتل عام جاری ہے۔ پانچ دنوں میں 21 سو گاؤں شہریوں سمیت جلا دیے گئے، تین لاکھ مسلمان ہجرت کر گئے۔ 1962ء سے وقفے وقفے کے ساتھ روہنگیا مسلمانوں کو میانمر کی فوج اور بدھ بھکشو قتل اور تشدد کا نشانہ بناتے آرہے ہیں۔ 2012ء سے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف فوجی آپریشنوں میں تیزی آگئی۔ 25 اگست سے اب تک 6 ہزار سے زائد مسلمان انتہائی بے دردی کے ساتھ قتل کردیے گئے، سیکڑوں معصوم بچے ذبح اور عورتوں کو بے آبرو کردیا گیا۔ بدھ بھکشوؤں اور فوج کے ظلم سے روہنگیا مسلمان مجبور ہوئے کہ پڑوسی ملک بنگلا دیش کو ہجرت کرجائیں مگر یہاں بھی حسینہ واجد جس کی اسلام دشمنی مودی سرکار اور میانمر کی حکمران آنگ سان سوچی سے کم نہیں ان کے فوجی مظلوم روہنگیا مسلمانوں کی مدد کرنے کے بجائے انہیں واپس میانمر میں دھکیلتے ہوئے نظر آتے ہیں۔



بہرحال روہنگیا مسلمان ہوں یا مقبوضہ کشمیر اور مقبوضہ بیت المقدس و فلسطین سمیت عراق، شام، لیبیا، یمن اور افغانستان کے مظلوم مسلمان ہوں، مسلمانوں پر ہر جگہ غیر مسلم فوجیں براہ راست یا بالواسطہ حملہ آور ہیں۔ صلیب اور ترشول کے پیروکار دیگر اسلام دشمن قوتوں کے ساتھ مل کر مسلمانوں کا قتل عام جاری رکھے ہوئے ہیں، ناجائز قبضے، غیر قانونی تسلط اور جارحیت و مداخلت کے سلسلے 70 برس سے جاری ہیں۔ ڈیزی کیٹربم، کارپٹ بمباری، کیمیائی ہتھیار اور بموں کی ماں تک مسلمانوں پر گرائے اور برسائے جارہے ہیں۔ عالم اسلام کے مسلمان ’’مظلوم مسلمانوں‘‘ کی حمایت کرتے ہیں۔ دینی اور سیاسی جماعتیں بھی جلسے، جلوس اور مظاہرے کررہی ہیں تا ہم مسلم حکمران (سوائے ترکی کے صدر طیب اردوان) مذمتی بیان سے آگے نہیں بڑھتے جب کہ مسلم افواج کے بہادر جرنیل زیادہ تر تو صلیبی جنگجوؤں اور ناٹو دہشت گردوں کے لیے ’’قُلی‘‘ کا کام کرنے میں مصروف ہیں۔



دنیا کے 56 اسلامی ممالک میں سے کسی ایک ملک کا بھی کوئی ایک ’’جنرل‘‘ ایسا نہیں کہ جو مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لیے میدان جنگ میں اُترنے کو تیار ہو۔ 40 مسلم ممالک کا فوجی اتحاد بھی ریت میں منہ چھپائے پڑا ہے، ایسا لگتا ہے کہ اس مسلم فوجی اتحاد کی ڈیوٹی میں سوائے ’’سعودی شاہی خاندان‘‘ کے اقتدار کی حفاظت کے کچھ نہیں۔ پاکستان جو ایٹمی طاقت ہے اور جس کے پاس دنیا کی بہترین بہادر اور لڑاکا فوج ہے اس کے کورکمانڈرز کانفرنس میں بھی امریکا کے ساتھ تعلقات کو بہتر کرنے اور رکھنے پر تو ضرور غور کیا گیا لیکن مظلوم روہنگیا مسلمانوں سے ہمدردی کے لیے ایک لفظ تک نہیں کہا گیا۔ ویسے بھی جنہوں نے ڈاکٹر عافیہ امریکا کے حوالے کردی اور پھر امریکی فوجیوں نے مسلمانوں کی اس بیٹی کے ساتھ کیا کچھ نہیں کیا تو پھر ان کے نزدیک مظلوم روہنگیا مسلمان عورت کے بے آبرو ہونے یا اس کی گود میں شیر خوار بچے کا سر تلوار سے کاٹ دینے کا کیا غم…..؟



حقیقت بھی یہی ہے اور دنیا کی جدید و قدیم تاریخ بھی اس بات کی گواہ ہے کہ ظلم کو ہمیشہ طاقت سے روکا جاتا ہے، قراردادوں اور فریادوں سے ظالم پیچھے نہیں ہٹتا جب تک کہ اس کی پیشانی پر وار نہ ہو، فوجیں فوجوں کا مقابلہ کرتی ہیں، فوجیں اسی لیے کھڑی کی جاتی ہیں کہ جب عقیدے، وجود اور وطن پر حملہ ہوگا تو وہ آگے بڑھیں گی لیکن جہاں فوجیں خود ظالموں کے ساتھ مل جائیں، حملہ آوروں کے فرنٹ لائن اتحادی کہلوا کر فخر محسوس کریں تو پھر یقیناًنہتے شہریوں کا خون ندی نالوں کی طرح بہتا ہے، گھر اجڑتے اور شہر ویران ہوتے ہیں، کیمپ آباد اور قبرستان بھرنے لگتے ہیں، جب مظلوم کو کہیں سے انصاف نہیں ملتا اور نہ ہی کوئی مدد کو پہنچتا ہے تو پھر ردعمل پیدا ہوتا ہے، جن لوگوں نے اپنی ماں کو بے آبرو، بہن کو اغوا اور باپ کو قتل ہوتے دیکھا ہوتا ہے تو وہ انتقام کی آگ میں سلگنے لگتا ہے اور پھر جب وہ گھر سے باہر نکلتا ہے تو قاتل اور حملہ آور اُسے دہشت گرد کہتے ہیں،



دنیا جو چاہے کہتی ہے کہتی رہے لیکن یہ بات فطری طور پر تسلیم شدہ ہے کہ ’’بدلے کی جنگ‘‘ کا کوئی اختتام نہیں ہوتا تاوقتیکہ جنگ کی حقیقی وجوہات اور اسباب کو ختم نہ کردیا جائے۔ جب تک ظالم اور جارح اپنے ظلم اور جارحیت سے باز نہیں آئے گا قابض اپنا غیر قانونی قبضہ نہیں چھوڑے گا۔ دوسروں کی آزادی اور خود مختیاری کا احترام نہیں کیا جائے گا، تب تک یہ کیسے ممکن ہے کہ تمہارے ہاتھ میں تو تلوار ہے اور وہ بھی خون میں تر ہو لیکن تمہارا مدمقابل اپنا چاقو بھی نیچے رکھ دے کہ اس کے وار سے تمہاری ناک کے کٹ جانے کا خطرہ ہے…..؟ نہیں یہ ہرگز نہیں ہوگا، تم جب تک حملہ آور اور میدان میں رہو گے، مزاحمت بھی جاری رہے گی۔



میانمر کے بدھ بھکشوؤں اور فوج نے بہت بڑی غلطی کی کہ غریب اور مظلوم روہنگیا مسلمانوں کو لاوارث (سب کا اللہ وارث ہے) سمجھ کر ان کا قتل عام کیا اور بستیوں کو آگ لگادی، اب یہ آگ اتنی آسانی سے بجھے گی نہیں جب کہ یہ بھی درست ہے کہ اسلامی ممالک کی فوجیں کہ جو سلامی کے چبوتروں کے سامنے کبوتروں کی طرح قطار بنائے کھڑی ہیں وہ کبھی بھی مقبوضہ کشمیر، مقبوضہ بیت المقدس و فلسطین اور افغانستان سمیت روہنگیا مسلمانوں کوئی مدد نہیں کریں گی لیکن پھر بھی بدھ بھکشوؤں اور میانمر کے فوجیوں کو یہ بات معلوم رہنی چاہیے کہ جہاں تم نے مسلمان عورتوں اور بچوں کا خون بہایا ہے، انتقام کی آگ بھی وہیں پر بھڑکے گی، پھر اس کو تم اور تمہاری نام نہاد عالمی برادری جو بھی نام دے اُس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔ تمہارے پہلو میں ہی تمہارا دشمن کھڑا ہوگا، بدلے کی جنگ جب شروع ہوگی جیسا کہ افغانستان میں جاری ہے تو پھر سوچی، حسینہ اور مودی کا ٹرائیکا اپنے دانت گنتا اور زخم چاٹتا رہ جائے گا۔



ہم آخر میں تمام مسلم ممالک کے فوجی جرنیلوں کو یہ خوشخبری دینا چاہتے ہیں کہ یہ خوش باش رہیں اور اپنے دفتروں میں کیک اور پیسٹریاں کھاتے رہیں، ان کے عہدے، وردی اور سلامتی کو کوئی خطرہ نہیں کیوں کہ ان کے اندر اب کوئی محمد بن قاسم، طارق بن زیاد، موسیٰ بن نصیر، صلاح الدین ایوبی، محمود غزنوی اور ٹیپو سلطان نہیں رہا۔ لہٰذا اسلامی ممالک کے تمام ’’فوجی جرنیل‘‘ قطعاً کوئی شرمندگی محسوس نہ کریں۔ مسلمان عوام بخوبی سمجھتے ہیں کہ ہمارے جنرل روس، امریکا اور ناٹو افواج کے سامنے بے بس ہیں جو سرنڈر کردینے کے مترادف ہے۔ مظلوم اور محکوم یا یہ کہ ڈاکٹر عافیہ سمیت قید اور لاپتا مسلمان بچوں اور عورتوں کی کسی جنرل کو کوئی فکر نہیں کرنی چاہیے،



ان کے پاس وقت بہت کم اور قیمتی ہے یہ اپنی ملازمت اور خدمات کو ’’صلیبی دہشت گردوں‘‘ کے ساتھ تعاون کرنے کے لیے استعمال کریں۔ مظلوم مسلمانوں کے وارث اور مددگار خود بخود کہیں نہ کہیں سے ضرور آئیں گے کیوں کہ ابھی تک وہ لوگ زندہ ہیں کہ جنہوں نے کوئی وردی تو نہیں پہن رکھی اور نہ ہی ان کے سینے پر کوئی تمغا ہے تاہم انہیں بدر، احد، موتہ، یرموک اور کربلا کا سبق خوب اچھی طرح سے یاد ہے۔
اللہ ربّ العزت سے دُعا ہے کہ وہ ہمیں ظالموں کا اتحادی بننے کے بجائے ان کا تعاقب اور مقابلہ کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین۔