’’ہاں! ہاں! سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے‘‘

566

baba-alifلاہور میں عمران خان کے جلسے میں خالی کرسیوں کی بہار دیکھ کر ہم سوچ رہے ہیں کہ ایک ’’دفتر فراہمی حاضرین‘‘ بنالیں۔ جس جماعت کا دل چاہے اس دفتر سے رجوع کرسکتی ہے سوائے جماعت اسلامی کے۔ اتوار کو کراچی میں جماعت اسلامی کے سپورٹ روہنگیا مارچ میں جس طرح لاکھوں افراد نے شرکت کی ہے اس کو دیکھتے ہوئے جماعت کو دفتر فراہمی حاضرین سے رجوع کرنے کی ضرورت نہیں۔ ماضی کی طرح اس معاملے میں جماعت آج بھی خود کفیل ہے۔ جو لوگ یہ سمجھتے تھے کہ کراچی میں جماعت اسلامی مزدوروں کی طرح پتھر کو سرہانہ بنا کر سو گئی ہے وہ دیکھ لیں جماعت نہ صرف بیدار ہے بلکہ زندگی سے بھرپور بھی ہے جس میں دوردور تک سستی اور کسل مندی کے آثار نہیں۔



ایک دولت مند بدصورت عورت نے ایک خوب صورت بھکارن کو خیرات دیتے ہوئے کہا ’’میری دولت اور تمہارا حسن صرف چانس کی پیداوار ہیں‘‘۔ جماعت اسلامی چانس، وقتی ضرورت، ایجنسیوں یا کسی ڈکٹیٹر کی پیداوار نہیں نظریاتی جماعت ہے اور نظریاتی بھی ایسی کہ اس کے کارکنوں کے ہاتھ میں وزیٹنگ کارڈ اور گھر پر نام کی تختی نہ ہو پھر بھی دور سے پہچانے جاسکتے ہیں۔ یہ کارکن بجا طور پر جماعت کا اثاثہ ہیں جنہوں نے ایم کیو ایم جیسی جماعت کا اپنے نظریات اور جرات سے مقابلہ کیا۔ اس جنگ میں ایک وقت ایسا بھی آیا جب کہا جانے لگا کہ جماعت اسلامی کراچی میں اپنا سیاسی وجود کھو بیٹھی ہے۔ لیکن اس سیاسی وجود سے بلند اور کہیں ماورا جماعت کا اخلاقی وجود موجود رہا جو آج پھر اس طور اپنا اظہار کررہا ہے کہ سب حیران ہیں۔
ہمارے یہاں سیاسی جماعتیں پرانی موٹر سائیکل کی طرح ہوتی ہیں جسے چالو رکھنے کے لیے نٹ بولٹ کسنے، ٹیوننگ اور سروس کی ضرورت تسلسل سے ذہن پر سوار رہتی ہے۔



سیاسی جماعتیں جب فکری دیوالیے پن کا شکار ہوجاتی ہیں تو اپنے کارکنوں کو مسلسل مصروف رکھنے کے لیے انہیں مسلسل احتجاج کے کام پر لگائے رکھتی ہیں۔ ایم کیو ایم اس کی ایک بدترین مثال ہے۔ ابتدا ہی سے اس کا یہ حال تھا کہ سرکردہ کارکنوں اور اعلیٰ کارکنوں کو رات سوتے وقت بھی موبائل فون بند کرنے کی اجازت نہ تھی۔ نہ جانے کس سمے احتجاج کی کال آجائے۔ آخر دنوں تو یہ حال ہوگیا تھا کہ اسکاٹ لینڈ یارڈ لندن میں بھائی کے گھر کی طرف منہ کرکے چھینک بھی لیتی تو نمائش چورنگی پر کارکنان کئی کئی دن دھرنا دیے رکھتے تھے۔ آخر ی دنوں جب بھائی کو صحت، اسکاٹ لینڈ یارڈ اور زیادتی شراب لاحق ہوئی اور انہیںآم اور عوام میں کوئی فرق نظر نہیں آتا تھا، ان دنوں بھی وہ کارکنان کو کلفٹن میں فائرنگ کی مشق کرنے میں مصروف رکھنے کے آپشن تلاش کرتے رہتے تھے۔



ہمارے یہاں سیاسی جماعتوں کا احتجاج کسی زیادتی، جبر اور ظلم کے خاتمے کے لیے نہیں بلکہ اپنی طاقت کے اظہار کے لیے ہوتا ہے۔ طاقت کا یہ ننگا کھیل پاکستان میں ہر سو جاری ہے جس سے مزید ظلم جنم لے رہا ہے۔ احتجاج کی یہ طاقت اگر خوف خدا رکھنے والوں کے ہاتھ میں ہو تو اس کے مقاصد اپنی ذات سے بلند ہوکر بہت اعلیٰ و ارفع ہوجاتے ہیں۔ جماعت اسلامی کے احتجاجی مظاہرے اس کی مثال ہیں۔ جماعت اسلامی کے اکثر مظاہرے امت مسلمہ کے دردوکرب کا اظہار ہوتے ہیں۔ آسمان ان کی لحد پر تاقیامت شبنم افشانی کرے جماعت اسلامی کے سابق امیر قاضی حسین احمد سے ایک ٹی وی انٹرویو میں جب یہ سوال کیا گیا کہ جناب عالم اسلام جب بھی کہیں کوئی واقعہ ہوتا ہے اگلے دن جماعت اسلامی سڑکوں پر ہوتی ہے۔ معترض نے جملہ چباتے ہوئے کہا ’’کیا سارے جہاں کا درد جماعت اسلامی کے جگر میں ہے۔‘‘ قاضی مرحوم نے ایک لمحے کی تاخیر کیے بغیر ایک ایک لفظ پر زور دیتے ہوئے با آواز بلند اپنے پشتو لہجے میں کہا ’’ہاں ہاں سارے جہاں کا درد ہمارے جگر میں ہے۔‘‘ کشمیر کا مسئلہ ہو یا فلسطین کا، افغانستان کا ہو یا عراق کا، سب سے پہلے جو جماعت برسر احتجاج نظر آتی ہے وہ جماعت اسلامی ہے۔



روہنگیا کے مسئلے پر دیکھ لیجیے۔ دیگر سیاسی اور دینی جماعتوں نے بھی احتجاج کیا ہے لیکن جماعت کی آواز وہ واحد آواز ہے جس سے طاقت کے مراکز کا وجود لرزتا ہے۔ جمعہ کو جماعت نے اسلام آباد میں برما میں مسلمانوں کے قتل اور نسل کشی کے خلاف مظاہرہ کرتے ہوئے میانمر کے سفارت خانے تک مارچ کیا اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ وہ میانمر کے سفیر کو طلب کرے اور اس سے احتجاج کرے اگلے ہی دن حکومت کو اس مطالبے کی صورت گری کرنی پڑی۔ اتوار کو کراچی میں روہنگیا سپورٹ مارچ میں یہ نعرہ ’’روہنگیا سے رشتہ کیا لاا لہ الا اللہ‘‘ کسی ایک احتجاجی جلسے، جماعت، خطے یا ملک کی آواز نہیں عالم اسلام کی آواز ہے جسے جماعت نے زبان دی ہے۔ وہ عالم اسلام جس کی نشاۃ ثانیہ کے خواب آج بھی کچھ جماعتوں کچھ ذہنوں میں بستے ہیں جو آج بھی اس عہد کی یافت میں ہیں امیر المومنین خلیفہ ہارون الرشید نے جس کی طرف اشارہ کیا تھا۔ ہارون الرشید اپنے محل کی چھت پر کھڑے تھے۔ انہوں نے آسمان کی وسعتوں میں ایک بادل کے ٹکڑ ے کو رواں دیکھا۔ اندازہ ہوا، ہوا کا زور اسے کسی اور طرف بہا لے جائے گا۔ خلیفۃ المسلمین کے ہونٹوں پر مسکراہٹ کھل اٹھی اور کہا ’’تم کہیں بھی جاکر برسو، تمہارے پانی سے جو فصل تیار ہوگی اس کا خراج تو بغداد ہی آئے گا۔‘‘ یہ خلافت کی برکت تھی۔



افراد، جماعتوں اور اسلامی ممالک کے سیاسی رشتے کسی مفاد کے اسیر ہوں امت مسلمہ کا رشتہ، امت مسلمہ کا تصور ختم نہیں ہوسکتا۔ آج بھی مسلمان، دنیا کے کسی بھی خطے میں رہتے ہوں ایک دوسرے سے وابستہ ہیں۔ نیل کے ساحل سے لے کر تابخاک کاشغر۔ یہ مذہب اور ریاست کی جدائی کا زمانہ ہے۔ مذہب محض حسن اخلاق کا نمائندہ ہے سیاسی رویوں میں جس کا اظہار ہونا چاہیے، مذہب کو بس اس حدتک برداشت کیا جا سکتا ہے۔ اسلام کا نفاذ موجودہ نسل کے لیے ایک نہ سمجھ میں آنے والی ترکیب بنا دیا گیا ہے۔ اس متعفن اور بوسیدہ سیاسی نظام کے مقابل جو ہمارے یہاں رائج ہے اسلامی طرز حکومت کا تصور ذہن میں لانا مشکل سے مشکل تر ہوتا جارہا ہے۔



مغربی ثقافت اس طور بھرپور انداز میں حملہ آور ہے کہ اسلامی ریاست کا تصور دم توڑتا محسوس ہورہا ہے۔ مغرب نے وہ خون آلود خنجر جو خلافت عثمانیہ کے سینے میں گھونپا تھا، اس کی آب آج بھی اسی طرح باقی ہے۔ المیہ یہ ہے کہ ہم نہ صرف اس قاتل سے ہاتھ ملانے پر مجبور ہیں بلکہ اپنا پورا وجود ہی اس کے سپرد کیے دے رہے ہیں، اسی کے عطا کردہ نظام میں سرگرم عمل ہیں، اسی نظام کی اصلاح میں اپنی توانائیاں کھپا رہے ہیں حالانکہ اس نظام کو اصلاح کی نہیں تدفین کی ضرورت ہے۔ وہ جماعتیں باعث خیر ہیں جو ایک طرف مغربی استعماری قوتوں کے خلاف سرگرم عمل ہیں، دوسرے اس ظلم کے خلاف مزاحمت کررہی ہیں جو دنیا بھر میں مسلمانوں پر روا ہے اور اسے نہ جرم سمجھا جارہا ہے اور نہ کوئی دست قاتل کو پکڑنے والا ہے۔