عقیقہ۔۔۔ ایک اہم سنت

913

مولانا محمد نجیب قاسمی
عقیقے کے لغوی معنی کاٹنے کے ہیں۔ شرعی اصطلاح میں نومولود بچے/ بچی کی جانب سے اس کی پیدائش کے ساتویں دن جو خون بہایا جاتاہے اسے عقیقہ کہتے ہیں۔ عقیقہ کرنا سنت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ کرام سے صحیح اور متواتر احادیث سے ثابت ہے۔
اس کے چند اہم فوائد یہ ہیں:
*زندگی کی ابتدائی سانسوں میں نومولود بچے، بچی کے نام سے خون بہاکر اللہ تعالیٰ سے اس کا تقرب حاصل کیا جاتا ہے۔
*یہ اسلامی Vaccination ہے، جس کے ذریعے اللہ تعالیٰ کے حکم سے بعض پریشانیوں، آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل جاتی ہے۔ (ہمیں دنیاوی Vaccinations کے ساتھ اس Vaccination کا بھی اہتمام کرنا چاہیے)۔
*بچے، بچی کی پیدائش پر جو اللہ تعالیٰ کی ایک عظیم نعمت ہے، خوشی کا اظہار ہوجاتا ہے۔
*بچے/ بچی کا عقیقہ کرنے پر کل قیامت کے دن باپ بچے/ بچی کی شفاعت کا مستحق بن جائے گا، جیسا کہ حدیث میں ہے۔
*عقیقے کی دعوت سے رشتے دار، دوست واحباب اور دیگر متعلقین کے درمیان تعلق بڑھتا ہے، جس سے ان کے درمیان محبت والفت پیدا ہوتی ہے۔
عقیقہ کے متعلق چند احادیث
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: بچے/ بچی کے لیے عقیقہ ہے، اس کی جانب سے تم خون بہاؤ اور اس سے گندگی (سر کے بال) کو دور کرو۔ (بخاری)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: ہر بچہ/ بچی اپنا عقیقہ ہونے تک گروی ہے۔ اس کی جانب سے ساتویں دن جانور ذبح کیا جائے، اس دن اس کا نام رکھا جائے اور سرمنڈوایا جائے۔ (ترمذی، ابن ماجہ، نسائی، مسند احمد)۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس فرمان: ’’کل غلام مرتہن بعقیقتہ‘‘ کی شرح علما نے بیان کی ہے کہ کل قیامت کے دن بچے کو باپ کے لیے شفاعت کرنے سے روک دیا جائے گا، اگر باپ نے استطاعت کے باوجود بچے/ بچی کا عقیقہ نہیں کیا ہے۔ اس حدیث سے معلوم ہوا کہ حتی الامکان بچوں کا عقیقہ کرنا چاہیے۔
ان مذکورہ ودیگر احادیث کی روشنی میں علماء کرام فرماتے ہیں کہ بچے/بچی کی پیدائش کے ساتویں دن عقیقہ کرنا، بال منڈوانا، نام رکھنا اور ختنہ کرانا سنت ہے۔ لہٰذا باپ کی ذمے داری ہے کہ اگر وہ اپنے نومولود بچوں کا عقیقہ کرسکتا ہے تو اسے چاہیے کہ وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اس سنت کو ضرور زندہ کرے تاکہ عنداللہ اجر عظیم کا مستحق بنے، نومولود کو اللہ کے حکم سے بعض آفتوں اور بیماریوں سے راحت مل سکے، نیز کل قیامت کے دن بچوں کی شفاعت کا مستحق بن سکے۔عقیقہ کرنے کے لیے ساتویں دن کا اختیار کرنا مستحب ہے۔ ساتویں دن کو اختیار کرنے کی اہم وجہ یہ ہے کہ زمانے کے ساتوں دن بچے پر گزر جاتے ہیں۔ لیکن اگر ساتویں دن ممکن نہ ہو تو ساتویں دن کی رعایت کرتے ہوئے چودھویں یا اکیسویں دن کرنا چاہیے، جیسا کہ سیدنا عائشہؓ کا فرمان احادیث کی کتابوں میں موجود ہے۔ اگر کوئی شخص ساتویں دن کے بجائے چوتھے یا آٹھویں یا دسویں دن یا اس کے بعد کبھی بھی عقیقہ کرے تو یقیناًعقیقہ کی سنت ادا ہوجائے گی، اس کے فوائد ان شاء اللہ حاصل ہوجائیں گے، اگرچہ عقیقے کا مستحب وقت چھوٹ گیا۔
بچے/ بچی دونوں کا عقیقہ کرنا سنت ہے، البتہ احادیث کی روشنی میں صرف ایک فرق ہے، وہ یہ ہے کہ بچے کے عقیقے کے لیے دو اور بچی کے عقیقے کے لیے ایک بکرا/ بکری ضروری ہے۔ لیکن کسی شخص کے پاس بچے کے عقیقے کے لیے دو بکرے ذبح کرنے کی استطاعت نہیں ہے تو وہ ایک بکرے سے بھی عقیقہ کرسکتا ہے۔