پشاور (وقائع نگار خصوصی) امیر جماعت اسلامی خیبر پختونخوا مشتاق احمد خان نے چیف الیکشن کمیشن آف پاکستان جسٹس ریٹائرڈ سردار رضا خان کے نام اپنے ایک یاد داشتی خط میں کہا ہے کہ صوبہ خیبر پختونخوا میں کل رجسٹرڈ ووٹوں کی تعداد اس وقت 12,311001 ہے جن میں سے مرد ووٹرز 70,49265 اور خواتین ووٹرز 5261736 ہیں۔ یعنی مردوں کے مقابلے میں خواتین ووٹرز کی تعداد 1,787,529 کم ہے، مردم شماری میں خواتین کا کل آبادی 49.05فیصد حصہ ہے، قبائلی علاقہ جات فاٹا میں کل ووٹرز 17,49331 ہیں جن میں مرد ووٹر 1153073 اور خواتین ووٹرز 596258 ہیں۔ اس طرح خاتون ووٹر مردوں کے مقابلے میں 556815 کم ہیں۔ نادرا کے اعداد و شمار کے مطابق جن پاکستانی شہریوں کو قومی شناختی کارڈ جاری کیے گئے ہیں۔ ان میں خواتین کی خاصی تعداد شناختی کارڈ سے بھی محروم ہے، اسی طرح قبائلی علاقہ جات اور فاٹا میں عورتوں کی خاصی تعداد شناختی کارڈ سے محروم ہے۔
گزشتہ قومی انتخابات 2013ء میں صوبہ خیبر پختونخوا میں مردوں کے لیے 2520 پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے جبکہ خواتین کے لیے 2187 علیحدہ پولنگ اسٹیشن بنائے گئے تھے۔ مشترکہ پولنگ اسٹیشن کی تعداد 4707 تھی، اس طرح پولنگ اسٹیشن کی تعداد کم ہونے کی وجہ سے بھی خواتین کی ایک بڑی تعداد ووٹ ڈالنے سے محروم رہی، خواتین پولنگ اسٹیشن میں خواتین عملے کی بھی اکثر جگہ کمی کی شکایت تھی۔ جس کی وجہ سے انہوں نے وہاں موجود مختلف پارٹیوں کی خواتین سے مدد لی، جس کی وجہ سے پولنگ عملے کی غیر جانبداری متاثر ہوئی، مثلاً ضلع دیر پائین میں 6 زنانہ پولنگ اسٹیشن کے لیے کل عملہ جو تعینات کیا گیا تھا، ان کی تعداد صرف 12 تھی جبکہ زنانہ ووٹرز کی تعداد 253000 تھی۔ خواتین پولنگ اسٹیشن کی دوری، سہولیات کی عدم دستیابی اور عملے کی کمی کی وجہ سے پولنگ کا عمل متاثر رہا تھا۔ فافین نے 2008ء اور 2013ء کے انتخابات کے بارے میں اپنی رپورٹ میں جو شکایات درج کی تھیں ان میں سے زیادہ تر خواتین کے پولنگ اسٹیشن کے بارے میں تھیں، جن میں ووٹرز کے ہاتھ سے ووٹ کی پرچی لے کر عملے کے ارکان کا خود مہر لگانا، خفیہ ووٹ دینے کا انتظام نہ کرنا، ووٹ پرچی پر مہر نہ لگانا، دستخط نہ کرنا، پولنگ اسٹیشن کے عملے کا جانبداری کا مظاہرہ کرنا اور پولنگ اسٹیشن کے اندر کنونسنگ وغیرہ شامل ہیں۔
انہوں نے جماعت اسلامی کے صوبائی ہیڈ کوارٹر المرکز الاسلامی پشاور سے جاری خط میں کہا کہ مندرجہ بالا حقائق کی روشنی میں آپ سے درج ذیل اقدامات کا مطالبہ ہے کہ تمام ایسی خواتین جن کی عمر 18 برس سے زائد ہے، کو ووٹر کی حیثیت سے درج کرنے کا اہتمام کیا جائے، ان تمام خواتین کے شناختی کارڈ بروقت بنوانے کا بندوبست کیا جائے اور ہنگامی بنیاد پر اس مقصد کے حصول کے لیے مہم چلائی جائے، نادرا رجسٹریشن دفاتر کی تعداد دگنی کی جائے اور گشتی ٹیموں کی تعداد بڑھائی جائے، نیز ان دفاتر میں زنانہ عملہ مقرر کیا جائے اور خواتین کے لیے سہولیات فراہم کی جائیں کیونکہ وہ باہر لائنوں میں کھڑی نہیں ہوسکتیں۔ خواتین پولنگ اسٹیشنوں کی تعداد مردوں کے مساوی رکھی جائے اور وہاں مکمل زنانہ عملہ مقرر کیا جائے۔ نیز عملے کی مناسب تربیت کا بندوبست کیا جائے، زنانہ پولنگ اسٹیشن کی عمارتوں میں خواتین عملے اور ووٹرز کے لیے پانی، بجلی، روشنی، فرنیچر و دیگر سہولیات کا مکمل بندوبست کیا جائے اور ان کی نگرانی کا نظام تشکیل دیا جائے۔ زنانہ پولنگ اسٹیشن پر پولنگ کے دن شکایات کے ازالے کے لیے مؤثر انتظام کیا جائے۔ ٹول فری نمبروں کا اعلان کیا جائے اور گشتی نگران ٹیمیں مقرر کی جائیں، جو فوری طور پر موقع پر پہنچ سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جماعت اسلامی خواتین کی ترقی صحت اور تعلیم تک رسائی کے لیے ہر ممکن اقدام کرے گی۔