نواز شریف کی نااہلی کا فیصلہ متفقہ تھا‘ عدالت عظمیٰ۔کیس کی تہہ میں گئے تو پھر شکوہ نہ کیجیے گا‘چھیڑ چھاڑ سے باز رہنے کا انتباہ

594
اسلام آباد( خبرایجنسیاں+مانیٹرنگ ڈیسک) عدالت عظمیٰ نے کہا ہے کہ نوازشریف کی نااہلی 5رکنی بینچ کا متفقہ فیصلہ تھا‘ وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں‘ نیب میں ریفرنسز بھجوانے پر بھی کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔
بدھ کو پاناما کیس میں نواز شریف خاندان کی نظرثانی درخواستوں کی سماعت کرتے ہوئے جسٹس اعجاز الحسن نے ریمارکس دیے کہ بینچ نے بہت محتاط رہ کر پاناما کیس کا فیصلہ لکھا ہے اوریہ محض ایک جھلک ہے، اگر آپ چاہتے ہیں کہ اس کی تہہ میں جایا جائے تو پھر شکایت نہ کیجیے گا۔
انہوں نے یہ ریمارکس اس وقت دیے جب نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے سوال کیا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ نہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر 62ون ایف کیسے لگ سکتا ہے؟
سماعت کے دوران خواجہ حارث نے کہا کہ 28 جولائی کا5رکنی بینچ درست نہیں تھا جبکہ درخواست گزارکو فیئر ٹرائل کا حق نہیں دیا گیا۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ خواجہ حارث کے موکل نے 2 ارکان کے فیصلے کو چیلنج نہیں کیا جس کا مطلب ہے کہ انہوں نے فیصلہ قبول کیا۔ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ وہ فیصلہ اقلیتی تھا اوراقلیتی فیصلے کی قانونی اہمیت نہیں ہوتی،عدالت عظمیٰ اس معاملے میں شکایت کنندہ، پراسیکیوٹر اور جج خود بن گئی ہے۔
جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ احتساب عدالت کو آزادی ہے جو چاہے فیصلہ کرے، آپ کے پاس موقع ہوگا کہ آپ گواہان اور جے آئی ٹی ارکان سے جرح کرسکیں گے۔
خواجہ حارث نے کہا کہ جس بنیاد پر نواز شریف کو نااہل قرار دیا گیا اس پر ان کے الیکشن کو کالعدم قرار دیا جا سکتا تھا۔ نواز شریف کی آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلیت نہیں بنتی تھی۔
جسٹس آصف کھوسہ نے کہا کہ فیصلہ لکھنے والوں کو پتا ہے کہ انہوں نے کیا لکھا، عدالتی فیصلے میں اختلاف صرف جے آئی ٹی کے معاملے پر تھا۔ تینوں میں سے کسی جج نے نہیں کہا کہ وہ اقلیتی فیصلے سے اختلاف کر رہے ہیں۔ 28 جولائی کو ہم 2 ججز نے صرف حتمی فیصلے پر دستخط کیے تھے، نااہلی اور ریفرنس نیب کو بھیجنے کے معاملے پر ہمارا نتیجہ ایک ہی تھا۔ انہوں نے کہا کہ عدالتی فیصلے پر ہرجج دستخط کرنے کا پابند ہوتا ہے۔
جسٹس گلزار احمد نے کہا کہ پہلے فیصلہ دینے والے ججز نے اپنا فیصلہ تبدیل نہیں کیا۔جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ 3ججز نے فیصلہ تبدیل کیا تو عدالتی حکم تبدیل ہوجائے گا ۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے کہا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں 3ججز کوہی اپنے دلائل سے قائل کرلیں آپ نے 3ججز کو مطمئن کرنا ہے انہیں کرلیں، ہم 2ججز 3ججز کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا ۔
خواجہ حارث نے دلائل دیتے ہوئے کہا کہ 62ون ایف کے تحت نااہلی تاحیات ہے، جس پر جسٹس اعجاز افضل نے سوال کیا کہ یہ کہاں لکھا ہے کہ نااہلی تاحیات ہو گی؟
 خواجہ حارث نے کہا کہ عوامی عہدہ رکھنے والے کو صادق اور امین نہ قرار دینا معمولی بات نہیں، عدالت نے طریقہ کار کی پیروی کیے بغیر نااہل کیا اور اپیل کا حق نہیں دیا، اثاثے ظاہر نہ کرنا بدنیتی تھی یا قانونی پیچیدگی اس کا تعین نہیں کیا گیا، جس پر جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ غریب اور امیر کے لیے الگ الگ قانون نہیں ہوسکتا۔
خواجہ حارث نے کہا کہ وہ تنخواہ جو نہیں لی گئی اس پر نااہلی ہوئی ہے۔ جسٹس اعجاز افضل نے ریمارکس دیے کہ یہ وہ کیس نہیں جس میں تنخواہ ملازم کے ہاتھ میں دی جائے۔ جسٹس عظمت سعید نے کہا کہ آپ کے مطابق 10ہزار تنخواہ تسلیم کرنا نااہلی کے لیے کافی نہیں تھا؟ جس پر خواجہ حارث نے کہا کہ تنخواہ ان کے موکل کے اکاؤنٹ میں نہیں گئی۔ جسٹس اعجاز افضل نے کہا کہ قانون کے مطابق تنخواہ ملازم کے ہاتھ پر نہیں رکھی جاتی۔ انہوں نے کہا کہ معاہدے کے مطابق آپ کی تنخواہ مقرر تھی، معاہدے میں یہ کہیں نہیں لکھا کہ آپ تنخواہ نہیں لیں گے، وصول نہ کی گئی تنخواہ بھی اثاثہ ہوتی ہے۔
جسٹس اعجاز الاحسن نے کہا کہ اقامہ معطل ہونے کی صورت میں ہی تنخواہ ختم ہوسکتی ہے۔
بعد ازاں عدالت نے کیس کی مزید ماعت جمعرات تک ملتوی کردی نواز شریف کے وکیل دلائل جاری رکھیں گے ۔