دعا کی اہمیت

494

مفتی ثناء اللہ
وہ خانہ کعبہ کا طواف بڑے اطمینان اور رب کعبہ کی عظمت کے استحضار کے ساتھ کر رہے تھے، اس وقت اور جتنے لوگ طواف کر رہے تھے، ایسا معلوم ہو رہا تھا، جیسے وہ سب اس بزرگ ہستی کی جلالت شان سے انتہائی متاثر ہوں، وقت کا بادشاہ بھی اس جم غفیر میں موجود تھا اور اس بزرگ سے ملاقات ہو جاتی ہے، حال احوال دریافت کرنے کے بعد بادشاہ گزارش کرتے ہیں کہ سیدنا کوئی حاجت ہو تو پوری کردوں؟ وہ بزرگ اپنی نظریں خانہ کعبہ کی طرف اٹھا کر فرماتے ہیں کہ مجھے اس کے مالک سے شرم آتی ہے کہ اس کے گھر میں آکر دوسروں کے سامنے اپنی حاجت پیش کروں۔ بات ختم ہوگئی۔
ایک اور موقع پر کہیں اور ملاقات ہوتی ہے، تو اب بادشاہ اس امید سے کہ اب ہم خانہ کعبہ میں نہیں ہیں یہ بزرگ اپنی حاجت بیان کریں گے، جس کو پورا کرنا میرے لیے سعادت ہوگی، گزارش کرتے ہیں کہ حضرت! کوئی حاجت ہو تو پوری کروں؟ اس پر وہ بزرگ فرماتے ہیں کہ آخرت سے متعلق یا دنیا سے متعلق؟ تو بادشاہ کہتے ہیں، حضرت! آخرت سے متعلق کوئی حاجت پوری کرنا میرے بس میں نہیں، دنیا سے متعلق۔
تو اس بزرگ نے جواب دیا کہ دنیا تو میں نے مخلوق کو پیدا کرنے والے خالق سے کبھی نہیں مانگی، تو پھر اس کی مخلوق سے کیسے مانگوں؟
ایک اور واقعہ ہے کہ ایک بوڑھے بابا اپنی پیرانہ سالی کی زندگی جنگل میں جھونپڑی بنا کر گزار رہے ہوتے ہیں کہ ایک دفعہ شکار پر نکلے ہوئے اس ملک کے بادشاہ اپنے ہم راہیوں سے بچھڑ جاتے ہیں اور بھوک، پیاس کی حالت میں ادھر سے ادھر سرگرداں وپریشان گھوم رہے ہوتے ہیں کہ اچانک ایک جھونپڑی پر نظر پڑتی ہے تو اس کو نعمت غیر مترقبہ خیال کرکے اس طرف روانہ ہو جاتے ہیں اور جھونپڑی میں بوڑھے بابا اور سامان زندگی کو دیکھ کر خوش ہو جاتے ہیں اور وہ بوڑھا بھی ایسا لگتا ہے جیسے آداب میزبانی سے خوب واقف ہوں، چنانچہ وہ بادشاہ کی خوب خاطر مدارات کرتے ہیں، اتنے میں بادشاہ کے ساتھی اپنے آقا کو ڈھونڈتے ڈھونڈتے وہاں تک رسائی حاصل کر لیتے ہیں۔
وقت رخصت میں بادشاہ اس بوڑھے کو پیشکش کرتے ہیں کہ اگر کبھی کوئی حاجت پڑے، تو میرے پاس آجانا، وقت کی چکی گھومتی رہی کہ اس بوڑھے پر سختی اور تنگی کے دن آگئے، حالات سے پریشان ہو کر اچانک ان کے ذہن میں بادشاہ کی دی ہوئی، پیشکش آ جاتی ہے اور وہ رخت سفر باندھ کر اپنی منزل کی طرف روانہ ہو جاتے ہیں، جب وہ بادشاہ کے دربار میں پہنچتے ہیں تو دربار برخاست ہو چکا ہوتا ہے اور بادشاہ اپنے رب سے راز ونیار میں مصروف ہوتا ہے، وہ بوڑھے بابا دربان کو اپنا حوالہ دے کر آمادہ کرتے ہیں کہ بادشاہ مجھے ضرور شرف باریابی عطا کریں گے، آپ بادشاہ کو اطلاع کردیں۔
چنانچہ وہ بوڑھے بابا بادشاہ کے پاس اس حال میں حاضر ہوتے ہیں کہ بادشاہ عبادت سے فارغ ہوجاتے ہیں، تو وہ بوڑھے باباحیرت سے پوچھتے ہیں کہ آپ کیا کررہے تھے؟ بادشاہ جواب دیتے ہیں کہ اپنے رب سے اپنی حاجت برداری کے لیے درخواست کر رہا تھا، تو وہ بوڑھے بابا فوراً اٹھ کر بولے کہ بس میری حاجت بھی پوری ہوگئی، جب اس زمین کے بادشاہ بھی اس کے محتاج ہیں اور اس سے اپنی حاجات طلب کرتے ہیں، تو پھر میں عام آدمی ہو کر اس ذات کے علاوہ کسی اور سے حاجت کیوں طلب کروں؟
یہ ایک تیسرا واقعہ ہے کہ ایک شہر میں ایک دفعہ چار طالب علم حصول علم کے لیے ایک جگہ جمع ہوگئے، پہلے زمانے میں اس طرح مدارس کا نظام نہیں تھا، کہ اب تو مہمانان رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ نے رہائش اور کھانے پینے کی ضروریات سے آزاد کر دیا ہے۔
چنانچہ وہ طالب علم دن بھر علم حاصل کرتے اور رات کو اپنے ٹھکانے پر آکر کچھ خرید کر کھالیتے، ایک دن ایسا آیا کہ سب کی جمع پونجی ختم ہوگئی اور فاقوں کو نوبت آگئی، جب کئی دن گزر گئے اور بھوک سے بے جان ہو گئے، تو ان چاروں نے آپس میں مشورہ کیا کہ اب ہماری حالت اس حد تک پہنچ گئی ہے کہ ہم دوسروں سے سوال کر سکتے ہیں، اس لیے ہم میں سے ایک باہر جاکر کچھ مانگ کرلے آئے، چنانچہ انہوں نے قرعہ ڈالا اور ایک طالب علم کا نام اس کام کے لیے متعین ہوگیا، جس طالب علم کے نام پر قرعہ نکلا، اس کے لیے یہ بات سوہان روح تھی کہ وہ کسی کے درپر جاکر سوال کرے، چنانچہ اس نے یہ ارادہ کیا کہ وہ اپنی اس حالت کا ذکر سب کو رزق دینے والی ذات کے سامنے کرے گا۔
اس نے وضو کیا اور نماز پڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مانگنے لگا، ادھر یہ طالب علم اللہ تعالیٰ کے سامنے گریہ وزاری میں مصروف تھا اور ادھر اللہ تعالیٰ نے اس شہر کے بڑے کو خواب میں متنبہ کیا، کہ جاؤ فلاں جگہ میرے محبوب بندے بھوکے ہیں، ان کی حاجت روائی کرو۔
یہ واقعات ان قصوں کی طرح نہیں، جو دادی اماں بچوں کو بہلانے کے لیے جھوٹ موٹ گھڑ کر سْناتی ہیں، بلکہ یہ وہ حقیقت ہے، جس کو آج ہمارے فرسودہ ذہن سننے اور ماننے کو تیار نہیں۔
آج ہمیں کوئی مصیبت، پریشانی، یا کوئی ضرورت پیش آجائے، تو سب سے پہلے ہماری نظر دنیاوی اسباب کی طرف جاتی ہے اور دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور جہاں جہاں سے تھوڑی سی امید بھی حاجت پوری ہونے کی ہو، وہاں وہاں گھومتے پھرتے ہیں، دَر دَر کی خاک چھانتے پھرتے ہیں، لیکن ہمارا ذہن اس بات کی طرف نہیں جاتا کہ جس ذات نے اس تکلیف میں مبتلا کیا ہے، کیا میں نے اس ذات کے سامنے اپنی اس تکلیف کو پیش کیا ہے؟ یا مجھے اس کی ضرورت ہے کہ میں اپنی اس حاجت کو اس ذات کے سامنے پیش کروں، جن کے پاس زمین وآسمان کے خزانے ہیں، وہ ایسی قادر ذات ہے کہ اگر سیدنا آدم علیہ السلام سے لے کر قیامت تک آنے والے انسان اور جنات سب کے سب ایک میدان میں جمع ہو جائیں اور سب اپنی اپنی خوہشات کے مطابق اللہ تعالیٰ سے مانگیں اور اللہ تعالیٰ ان سب کو ان کی خواہش کے مطابق عطا کر دے، تو اس سے اللہ تعالیٰ کے خزانوں میں اتنی بھی کمی نہیں آئے گی، جتنی کے ایک سوئی سمندر میں ڈبو دی جائے اور اس کے ساتھ جو پانی کا قطرہ نکلتا ہے اس سے جو سمندر کے پانی میں کمی واقع ہوتی ہے۔
آج ہماری حالت یہ ہے کہ ہم دنیاوی اسباب ہی کو سب کچھ سمجھتے ہیں اور دعا کرنے، اللہ تعالیٰ سے مانگنے کی سوچ اور فکر نہیں ہوتی اور اگر دعا کرتے بھی ہیں، تو بس ذرا نام کو ہاتھ اٹھا لیتے ہیں، نہ دل حاضر، نہ آداب کا خیال، ہاتھ اٹھائے اور منھ پر پھیرلیے، یہ بھی پتہ نہیں کہ زبان سے کیا کلمات نکلے اور کیا دعا مانگی؟!
قربان جائیے اس رحیم وکریم ذات کے، جو نہ صرف مانگنے سے تنگ نہیں ہوتے، بلکہ خوش ہوتے ہیں اور نہ مانگنے والوں سے ناراض ہوتے ہیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے: اور تمہارے رب نے فرمادیا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، بلاشبہ جو میری عبادت (دعا) سے تکبر کرتے ہیں، عنقریب بحالت ذلت جہنم میں داخل ہوں گے۔‘‘
اس آیت کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے حکم فرمایا ہے کہ تم مجھے پکارو، میں تمہاری دعا قبول کروں گا، یہ اللہ تعالیٰ کا بہت بڑا انعام اور احسان ہے کہ بندوں کو اپنی ذات عالی سے مانگنے کی اجازت دے دی اور پھر قبول کرنے کا وعدہ بھی فرمالیا۔