چنانچہ کم از کم خیبر پختونخوا میں تو تعلیم کا شعبہ زبوں حالی کا شکار نہیں ہونا چاہیے لیکن پرویز خٹک کچھ اور حقیقت بیان کررہے ہیں۔ گو کہ انہوں نے تعلیمی زبوں حالی کی ذمے داری پورے معاشرے، حکمرانوں اور سیاست دانوں پر ڈالی ہے اور حقیقت یہی ہے کہ یہ سب ذمے دار ہیں۔ مگر خیبر پختونخوا کی حد تک پاکستان تحریک انصاف اور وہاں کے وزیراعلیٰ ذمے دار ہیں۔ عمران خان کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تبدیلی آگئی ہے تو یہ تبدیلی نظر بھی آنی چاہیے۔ یہ صحیح ہے کہ صوبے میں اچھے معیار کے کچھ اسکول بنائے گئے لیکن بیشتر اسکولوں کا حال برا ہے۔ پیسے نہ ہونے کی وجہ سے اسکول بند پڑے ہیں اور اساتذہ موجود نہیں۔ تبدیلی اس کا نام نہیں کہ چند علاقوں کو چھوڑ کر باقی صوبے کو لاوارث چھوڑ دیا جائے اسی طرح صحت کے شعبے کا حال ہے جہاں اس وقت ڈینگی کا وائرس لوگوں کی جان لے رہا ہے لیکن کوئی پرسان حال نہیں۔ عمران خان تو احتیاطاً اپنے بچوں کو لے کر لندن چلے گئے تھے مگر صوبے کے شہری علاج معالجے سے محروم ہیں۔ پرویز خٹک کے بقول ’’وقت آگیا ہے کہ ہم اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور سوچیں کہ ہم ترقی کی دوڑ میں پیچھے اور بد عنوانی میں آگے کیوں چلے گئے ہیں، چنانچہ خیبر پختونخوا کے حکمران بھی اپنے گریبانوں میں جھانکیں اور یہ بھی دیکھیں کہ صوبے کی سطح پر بدعنوانی کا کیا عالم ہے۔
خیال تھا کہ خیبر پختونخوا میں ایک نئی حکومت آنے سے یہ صوبہ ایک مثالی صوبہ بنے گا جو دوسروں کے لیے قابل تقلید ہوگا لیکن ایسا کچھ ہوا نہیں۔ عمران خان اپنے صوبے پر توجہ دینے کے بجائے سیاسی معرکہ آرائی میں الجھے رہے اور کبھی دھرنے، کبھی جلسے، یہی کھیل کھیلتے رہے۔ ان کی نظریں صوبے کے بجائے وفاق کی حکومت پر ہیں اور یہ ان کا حق میں ہے لیکن اس سے پہلے اپنے صوبے کی حالت تو بہتر بنائیں، اس کا فائدہ انہیں مرکز میں بھی ہوگا۔ پرویز خٹک دعوے سے نہیں کہہ سکتے کہ ان کے صوبے میں بد عنوانی کی دوڑ نہیں لگی ہوئی۔ ان کا کہناہے کہ حکمرانوں کو بنیادی کام نمٹانے کے بجائے اداروں کے کام میں مداخلت ہی سے فرصت نہیں ملتی اور ذاتی مفاد کے لیے عوامی مفاد اور وسائل کو داؤ پر لگانے میں ہچکچاہٹ نہیں ہوتی۔ یہ بھی صحیح ہے کہ ہر جگہ ایسا ہی ہورہاہے لیکن پھر وہی بات کہ یہ کام کہاں کہاں نہیں ہورہا۔ تاہم پرویز خٹک کا دعویٰ ہے کہ صوبے میں تمام محکموں کا قبلہ درست کردیاگیا ہے اور تعلیمی ماحول کو بدرجہا بہتر کرنے کی کوشش کی ہے۔ ایسا ہے تو بہت اچھا ہے اور جہاں تعلیمی ماحول کو بہتر بنایا گیا ہے وہاں درس گاہوں میں منشیات کے استعمال کا سدباب بھی کیا جائے۔ ہم ان کی اس بات سے سو فی صد متفق ہیں کہ اچھا تعلیمی ماحول اور تعلیم کا فروغ پورے معاشرے کی ذمے داری ہے اور تعلیم یافتہ قوم ہی نہ صرف ترقی کرتی ہے بلکہ بد عنوانی کے سامنے چٹان بن جاتی ہے۔ جو قومیں تعلیم کے میدان میں پیچھے رہ گئیں وہ ہر میدان پچھڑگئیں۔