چھیڑ چھاڑ پر عدالت عظمیٰ کا انتباہ 

259

Edarti LOHسابق وزیراعظم نواز شریف کی نا اہلی کے خلاف نظر ثانی کی اپیلوں کی سماعت کا آغاز تو ہوچکا ہے لیکن گزشتہ بدھ کو سماعت کے دوران میں عدالت عظمیٰ کی طرف سے انتباہ کیاگیا ہے کہ چھیڑ چھاڑ سے باز رہا جائے، مذکورہ فیصلہ محض جھلک ہے، عدالت کیس کی تہہ میں گئی تو پھر شکوہ نہ کیا جائے۔یہ محض تبصرہ نہیں ہے بلکہ شریف خاندان کو نرمی سے سمجھانے کی کوشش ہے کہ فیصلے سے چھیڑ چھاڑ کی گئی تو مزید پھنستے چلے جانے کا پورا امکان ہے۔ عدالت عظمیٰ نے یہ وضاحت بھی کردی ہے کہ نواز شریف کے خلاف فیصلہ متفقہ تھا جب کہ شریف خاندان کا اصرار ہے کہ فیصلہ صرف تین ججوں کا تھا، متفقہ نہیں تھا۔ عدالت عظمیٰ کے ججوں کا کہنا ہے کہ 5 رکنی بینچ نے بہت محتاط رہ کر فیصلہ لکھا تھا، وجوہات مختلف ہوسکتی ہیں لیکن کسی جج نے نیب میں ریفرنس بھجوانے پر بھی اختلاف نہیں کیا۔ شریف خاندان کا پورا زور اس پر ہے کہ فیصلہ متفقہ نہیں تھا لیکن عدالت نے واضح کردیا ہے کہ 5 ججوں پر مشتمل بینچ کا فیصلہ متفقہ تھا اور کسی جج نے اختلاف نہیں کیا۔



شریف خاندان کا دوسرا اعتراض یہ ہے کہ اپنے بیٹے کی کمپنی میں کام کرتے ہوئے طے کردہ تنخواہ وصول نہیں کی اور یہ نا اہلی کا جواز نہیں بنتا۔ اب ہوسکتا ہے کہ اس چھیڑ چھاڑ کے نتیجے میں یہ عقدہ بھی وا ہوجائے۔ شاید اسی لیے عدالت عظمیٰ نے انتباہ کیا ہے۔ دوران سماعت نواز شریف کے وکیل خواجہ حارث نے یہی نکتہ اٹھایا۔ ان کا کہنا تھا کہ کیپٹل ایف زیڈ ای سے تنخواہ وصول کرنے یا ظاہر نہ کرنے پر I 62 ایف کیسے لگ سکتا ہے۔ اس پر زیادہ سے زیادہ نواز شریف کا الیکشن منسوخ کردیا ہوتا۔جسٹس اعجاز افضل کا مشورہ تھا کہ آپ کے پاس موقع ہوگا کہ احتساب عدالت میں گواہوں اور جے آئی ٹی ارکان پر خوب جرح کرلیں۔ جسٹس آصف سعید نے بڑا دلچسپ مشورہ دیا کہ چلیں آپ ہمیں چھوڑیں، 3 ججوں ہی کو اپنے دلائل سے قائل کرلیں، ہم دو جج تین ججوں کے فیصلے سے اختلاف کریں یا نہ کریں اس سے فرق نہیں پڑتا۔ بہر حال معاملات ابھی اور آگے بڑھیں گے لیکن شریف خاندان اور فیصلے سے متاثر دیگر افراد عدالت عظمیٰ کے خلاف جو مہم چلارہے ہیں اس کا نقصان انہی کو ہوگا، کیا یہ بات سمجھ میں نہیں آرہی؟