انسانوں میں عظیم ترین ہستیاں پیغمبر ہوئے ہیں، لیکن رسالت کا ادارہ اس بات کا کھلا اعلان ہے کہ انسانیت یا عوام رسالت کے ادارے کے بغیر زندگی اور کائنات کی سب سے بڑی اور سب سے واضح حقیقت یعنی ایک خدا کی موجودگی کا ادراک نہیں کرسکتے۔ ہندوؤں میں ایک فرقہ ایسا ہے جو کہتا ہے کہ خدا کو جاننے کے لیے رسالت کے ادارے کی ضرورت نہیں۔ بلاشبہ خدا کی موجودگی اتنی ’’ظاہر‘‘ یا اتنی Menifest ہے کہ ہر طرف اس کا جلوہ نظر آتا ہے۔ لیکن اس کے باوجود محض یہ ایک خام خیالی ہے کہ رسالت کے ادارے کے بغیر انسان خدا کو سمجھ سکتا ہے۔ مجدد الف ثانیؒ اسلامی تاریخ کی عظیم ترین شخصیات میں سے ہیں مگر انہوں نے کہا ہے کہ ہم محمدؐ کے خدا کو آپؐ کے وسیلے سے جانتے ہیں۔ آپؐ نہ ہوتے تو ہم خدا کو بھی نہ جانتے۔ یہاں ایک مسئلہ اور بھی ہے۔ ایک چیز ہے جاننا اور ایک چیز ہے پہچاننا۔ باالفرض محال اگر کوئی شخص رسالت کے ادارے کے بغیر یہ جان بھی لے تو اس زندگی اور اس کائنات کا کوئی خالق ہے تو وہ یہ نہیں جان سکتا کہ اس کی صفات کیا ہیں۔ وہ انسانوں سے کیا چاہتا ہے۔ وہ کن باتوں سے خوش ہوتا ہے اور کن باتوں سے ناراض ہوتا ہے۔ اس کا مفہوم یہ ہے کہ انسانیت خدا کو جاننے کے لیے خاص الخاص انسانوں کی محتاج رہی ہے۔ اس سلسلے میں عوام کی ’’عوامیت‘‘ یا ’’معمول پن‘‘ کا اندازہ اس بات سے کیا جاسکتا ہے کہ دنیا میں ایک لاکھ 24 ہزار نبی آئے مگر آج 7 ارب انسانوں کی دنیا میں ڈھائی ارب انسان کفر میں مبتلا ہیں اور اتنے ہی انسان شرک کا پرچم لیے کھڑے ہیں۔ حالاں کہ ایک لاکھ 24 ہزار نبی خدا کی موجودگی اور توحید پر اصرار کرکے دنیا سے رخصت ہوچکے ہیں۔ مگر ’’عوام کا شعور‘‘ آج بھی ’’حقیقت اولیٰ‘‘ اور اس کے ’’صحیح ترین‘‘ تصور کو سمجھنے سے قاصر ہے۔ یہاں کہنے کی ایک اہم بات یہ ہے کہ عوام کے تصور کی پستی کے باوجود امتوں کی تاریخ بہرحال انبیاء و مرسلین یعنی خواص الخواص انسانوں کی تاریخ ہے۔
حضرت نوحؑ ساڑھے نو سو سال تک تبلیغ کرتے رہے لیکن اتنے طویل عرصے میں صرف 40 لوگ مشرف بہ اسلام ہوسکے۔ یہ حضرت نوحؑ کی ناکامی نہیں تھی۔ یہ ’’عوام‘‘ کی ناکامی تھی، وہ حق کو پہچاننے اور اسے قبول کرنے سے قاصر تھے۔ بعض روایات کے مطابق حضرت نوحؑ کے زمانے کے ’’عوام‘‘ آپؑ کو بوری میں بند کرکے مارتے تھے۔ یہاں تک کہ آپؑ بے ہوش ہوجاتے تھے۔ عوام کی ناکامی اتنی ہولناک تھی کہ حضرت نوحؑ جیسے اولوالعزم نبی گمراہوں کے لیے بددعا پر مجبور ہوگئے۔ حضرت موسیٰؑ کے زمانے کے ’’عوام‘‘ کا یہ عالم تھا کہ حضرت موسیٰؑ چالیس دن میں واپس لوٹنے کا کہہ کر کوہ طور پر گئے مگر انہیں وہاں اللہ تعالیٰ نے مزید چند روز کے لیے روک لیا۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حضرت موسیٰؑ واپس لوٹے تو انہوں نے اپنے ’’عوام‘‘ کو بچھڑے کی پوجا کرتے پایا۔ جہاد کا مرحلہ آیا تو حضرت موسیٰؑ کے زمانے کے ’’عوام‘‘ نے صاف کہہ دیا کہ تم اور تمہارا خدا جہاد کرے۔ ہم اپنے حریفوں کو بہت طاقتور پاتے ہیں اس لیے ہم تو ان کے خلاف صف آرا نہ ہوں گے۔ حضرت عیسیٰؑ کو سولی پر چڑھانے کی سازش ہوئی اور عیسائیوں کی روایت کے مطابق تو آپؑ کو سولی پر چڑھا ہی دیا گیا مگر ’’عوام‘‘ نے اس عمل کی رَتی برابر بھی مزاحمت نہ کی۔ حالاں کہ وہ دیکھ رہے تھے کہ حضرت عیسیٰؑ پنگھوڑے میں کھڑے ہو کر خطاب کررہے ہیں۔ ان کے ہاتھ کے لمس سے بیمار شفایاب ہو رہے ہیں اور وہ اللہ کے حکم سے مردوں کو زندہ کررہے ہیں۔
رسول اکرمؐ سردار الانبیائتھے، خاتم النبین تھے، باعث تخلیق کائنات تھے، آپؐ نے مکے میں 13 سال تبلیغ کی لیکن آپؐ نے ہجرت کی تو چند سو لوگ آپؐ کے ساتھ تھے۔ آپؐ اس صورت حال پر دل گرفتہ رہتے تھے۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے آپؐ کی تالیف قلب کے لیے فرمایا کہ آپؐ کا کام تو صرف حق کو لوگوں تک پہنچا دینا ہے۔ ہدایت دینا تو ہمارا کام ہے۔ بلاشبہ لوگ جوق در جوق مسلمان ہوئے مگر اس وقت جب مکہ فتح ہوگیا۔ یعنی جب آپؐ کے ہاتھ میں ’’طاقت‘‘ آگئی۔ آپؐ سے ایک بار صحابہؓ نے پوچھا کہ آپؐ کی حیات طیبہ کا سخت ترین دن کون سا ہے؟ صحابہؓ کا خیال تھا کہ آپؐ غزوہ احد کے دن کا نام لیں گے۔ مگر آپؐ نے فرمایا کہ میری زندگی کا سخت ترین دن سفر طائف ہے۔ اس روز وقت کے عوام نے سردار الانبیاء پر گلی کوچوں میں اتنا پتھراؤ کیا کہ آپؐ کے نعلین مبارک خون سے بھر گئے۔ عوام نے آپؐ کی توہین کی انتہا کرتے ہوئے گلی کوچوں کے اوباش لونڈوں کو آپؐ کے پیچھے لگادیا۔ یہ دن اتنا سخت تھا کہ آپؐ کو محسوس ہوا کہ کہیں خدا نے مجھے چھوڑ تو نہیں دیا ہے۔ یہ بات آپؐ کی اس دعا سے معلوم ہوئی جو آپؐ نے اس موقع پر کی۔
عام تاریخ کو دیکھا جائے تو وہ بھی دیو قامت لوگوں کے فکر و عمل کا حاصل ہے۔ مغربی دنیا میں فلسفے کی روایت ڈھائی ہزار سال پرانی ہے۔ ڈھائی ہزار سال ایک بہت بڑی مدت ہوتی ہے۔ لیکن اس مدت سے اگر مغرب کے صرف دس فلسفیوں کو منہا کردیا جائے تو مغرب میں فلسفے کا سورج ایک چھوٹا سا چراغ بن کر رہ جائے گا۔ سوشلزم نے 70 سال تک آدھی دنیا پر حکومت کی ہے اور روس اور چین کے انقلابات کو دنیا کے بڑے انقلابات میں شمار کیا جاتا ہے۔ مگر یہ انقلاب صرف تین شخصیتوں کا حاصل تھا۔ یعنی کارل مارک، ماؤ اور لینن۔ ان تینوں شخصیتوں کو ہٹادیا جائے تو دنیا میں سوشلزم یا سوشلسٹ انقلاب کے نام کی کسی چیز کا وجود نہ ہوتا۔ مغرب میں ادب بالخصوص ڈرامے کی روایت قدیم بھی ہے اور باثروت بھی۔ لیکن اس روایت سے اگر صرف شیکسپیئر کو منہا کردیا جائے تو اس روایت میں ایک خلا پیدا ہوجائے گا۔
برصغیر کی ملت اسلامیہ کی علم، تصوف اور سیاست کی تاریخ شاندار ہے۔ اس روایت سے صرف دس بارہ شخصیات کو الگ کردیا جائے تو یہ روایت معروف معنوں میں غریب ہوجائے گی۔ مثلاً کیا ہم مجدد الف ثانی، حضرت شاہ ولی اللہ، داتا گنج بخش، نظام الدین اولیا، خواجہ معین الدین چشتی، مولانا قاسم نانوتوی، امام رضا خان بریلوی، مولانا اشرف علی تھانوی، اقبال، مولانا مودودی اور قائد اعظم کے بغیر برصغیر کی ملت اسلامیہ کے علم، تصوف اور سیاست کا کوئی تصور کرسکتے ہیں۔ اردو شاعری کی تاریخ شاندار ہے۔ لیکن اگر اس تاریخ سے صرف میر، غالب، اکبر اور اقبال کو نکال لیا جائے تو یہ تاریخ اچانک ’’ارب پتی‘‘ سے ’’لکھ پتی‘‘ ہوجائے گی۔ اردو ناول کی تاریخ اب سوسال پر محیط ہے یا اس تاریخ سے اگر صرف قرۃ العین حیدر کو نکال دیا جائے تو اردو ناول کی روایت ایک آنکھ، ایک کان، ایک ہاتھ اور ایک پاؤں سے محروم ہوجائے گی۔ اردو تنقید کی عمر بھی اب سوسال سے زیادہ ہوچکی ہے، لیکن اگر اس ’’بزرگ‘‘ روایت کو حالی، محمد حسن عسکری، کلیم الدین احمد، سلیم احمد اور شمس الرحمن فاروقی کا سرمایہ میسر نہ ہو تو اردو تنقید کا حال پتلا ہوجائے گا۔
اردو افسانے کی روایت سے اگر صرف پریم چند، بیدی، منٹو اور غلام عباس کو نکال دیا جائے تو اس روایت کی بیش تر ’’عظمت‘‘ تحلیل ہوجائے گی۔ خیر یہ تو مذہب، علم و فکر اور ادب و سیاست کی بات ہے ان کے ساتھ اداکاری اور گلوکاری کا ذکر بھی فضول ہے۔ لیکن جس طرح عظیم الشان چیز عظیم لوگوں کی رہین منت ہوتی ہیں اسی طرح ’’معمولی چیزیں‘‘ بھی غیر معمولی لوگوں کی مہر کے ساتھ سامنے آتی ہیں۔ مثلاً ہندوستان کی فلم انڈسٹری سو سال پرانی ہے لیکن اس طویل روایت سے اگر صرف دلیپ کمار کی اداکاری کو منہا کردیا جائے تو برصغیر میں فن اداکاری کی 60 فی صد توقیر غائب ہو جائے گی۔ بھارت کی فلم انڈسٹری نے سو سال میں لاکھوں گیت تخلیق کیے ہیں اور لیکن اگر ان گیتوں کے پس منظر میں موجود صرف چار لوگوں یعنی محمد رفیع، کشور کمار، مکیش اور لتا منگیشکر کی آوازوں کو فراموش کردیا جائے تو فلمی گلوکاری کی روایت پر جاں کنی کا عالم طاری ہوجائے گا۔ یہاں سوال یہ ہے کہ زندگی کی بلند ترین سطح سے زندگی کی معمولی سطح تک ’’عوام‘‘ کہاں ہیں؟ اس سوال کا جواب یہ ہے کہ عوام کہیں بھی نہیں ہیں۔ اس کی وجہ ظاہر ہے۔ عوام خود اپنی زندگی کو معنی فراہم کرسکتے ہیں نہ خواص کے بغیر ان کا روحانی و اخلاقی ارتقا ہوسکتا ہے، نہ علمی، ذہنی، تہذیبی، سماجی اور سیاسی ارتقا ہوسکتا ہے۔ یہاں تک کہ خواص کے بغیر ان کا ’’فلمی ارتقا‘‘ بھی ممکن نہیں۔ تاریخ کے طویل سفر میں عوام زندگی کے ہر دائرے میں صارف یا Consumer رہے ہیں اور رہیں گے۔