مالیاتی خسارہ۔آخری حدوں تک

305

zc_Rizwan-Ansariحکومت پاکستانی قوم کو آج کل یہ خوش خبری سنا رہی ہے کہ ملک میں لوڈشیڈنگ ختم ہونے والی ہے نومبر کے مہینے تک بجلی کی پیداوار 20 ہزار میگاواٹ روازانہ تک پہنچ جائے گی۔ ملک سے اندھیرے ختم ہوجائیں گے، ہر طرف روشنی ہی روشنی ہوگی۔ کاش واقعی ایسا ہوتا پاکستان کے عوام جو ستر سال سے غربت، مہنگائی، بے روزگاری، لاقانونیت اور کرپشن کا عذاب بھگت رہے ہیں وہ چین و سکون کا سانس لینے کی پوزیشن میں ہوتے۔ بجلی کا معاملہ ہی دیکھ لیں یہ حقیقت ہے کہ نئے پاور پلانٹ لگنے کے بعد بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہوا ہے اور رسد اور طلب کا فرق کم ہوگیا ہے اور آئندہ آنے والے مہینوں میں ہوسکتا ہے یہ بالکل ختم ہوجائے لیکن حکومت نے بجلی کے صارفین پر مختلف ٹیکس لگا کر اسے اتنا مہنگا کردیا ہے کہ غریب آدمی کے لیے اس کا بل ادا کرنا مشکل ہوگیا ہے۔ ملک کے ہر شہر میں الگ الگ بجلی کی کمپنیاں قائم ہیں جو اس کی تقسیم اور ترسیل کا کام کرتی ہیں۔ یہ تمام کمپنیاں نجی شعبے سے تعلق رکھتی ہیں اور بجلی کی قیمت کے تعین میں ہیر پھیر سے کام لیتی ہیں۔ نیپرا نے کافی تحقیق اور توضیح کے بعد یہ نتیجہ نکالا ہے کہ پنجاب کے بڑے شہروں کو بجلی تقسیم کرنے والی کمپنیوں نے 120 ارب روپے صارفین سے زیادہ وصول کیے ہیں اور یہ فیصلہ سنایا ہے کہ بجلی کی قیمتوں میں کمی کرکے یہ رقم صارفین کو واپس کی جائے۔ یہی معاملہ کے الیکٹرک کا ہے جس کے خلاف جماعت اسلامی نے گزشتہ ایک سال سے اسی معاملہ کو اٹھایا ہے کہ عوام سے مختلف مدوں میں 200 ارب روپے زیادہ وصول کیے ہیں اور یہ رقم عوام کو واپس کی جائے، اس کے بعد ایک مسئلہ یہ بھی ہے کہ بجلی کی تقسیم و ترسیل کا نظام بڑا پرانا ہے، کیا یہ اضافی بجلی کا بوجھ برداشت کرسکے گا اور اس کے نتیجے میں جو نقصانات ہوتے ہیں ان کو پورا کرنے کے لیے نقصانات کی رقم بجلی کے بلوں میں شامل کردی جاتی ہے ان سب حقائق کی روشنی میں اندھیرے ختم ہوجانے کے اعلانات ایک سراب لگتے ہیں۔



اس سے بڑا مسئلہ ملک میں مالیاتی خسارے کا ہے جو سال 2016-17ء میں 1.8 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 5.8 فی صد ہے جب کہ پچھلے سال یہی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 4.6 فی صد تھا۔ اس کی نوبت اس لیے یہاں تک پہنچی ہے کہ گزشتہ چار سال میں حکومت نے کمرشل بینکوں اور اسٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرضہ لیا ہے جس کو اب ہر سال واپس کرنا ہے، اس طرح ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا حصہ وفاقی بجٹ کے 65 فی صد تک بڑھ گیا ہے جب کہ دوسری طرف رواں سال حکومت کا آخری سال ہے اس لیے وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں ترقیاتی کاموں پر بہت زور دے رہی ہیں۔ پرانے منصوبے مکمل نہیں ہوئے، نئے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔ صرف کراچی میں یونیورسٹی روڈ کی تکمیل سے پہلے پنجاب چورنگی اور گذری روڈ کے منصوبے شروع کردیے گئے ہیں، یہی معاملہ ملتان کی اورنج لائن کا ہے ان سب کا نتیجہ اخراجات میں اضافہ کی شکل میں ہوگا چناں چہ اگلے سال مالیاتی خسارہ کہاں پہنچے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔



اس طرح تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے حکومت کے تمام تر رعایتی پیکیج کے بعد سال رواں میں جولائی اور اگست میں برآمدات میں 13 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی پہلے 25 فی صد ظاہر کیا گیا تھا بعد میں اعداد و شمار کی غلطیوں کے بعد اس کی اصلاح کی گئی ہے جب کہ درآمدات میں اضافہ 2 فی صد ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کاروباری حلقے حکومت پر روپے کی قدر میں کمی پر زور دے رہے ہیں لیکن ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس نسخے پر عمل کرنے سے بجائے فائدے کے نقصان ہوا ہے۔ برآمدات میں اضافہ تو نہ ہوا جب کہ بیرونی قرضہ کی مالیت میں اضافہ ہوگیا اور درآمدات مہنگی ہوگئیں۔ چناں چہ رواں سال کے اختتام پر مالیاتی خسارہ اور تجارتی خسارہ کہاں پہنچے گا اور ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچائے گا یہ اگلی حکومت کو بھگتنا ہوگا۔