اس سے بڑا مسئلہ ملک میں مالیاتی خسارے کا ہے جو سال 2016-17ء میں 1.8 ٹریلین روپے تک پہنچ گیا ہے جو مجموعی قومی پیداوار کا 5.8 فی صد ہے جب کہ پچھلے سال یہی خسارہ مجموعی قومی پیداوار کا 4.6 فی صد تھا۔ اس کی نوبت اس لیے یہاں تک پہنچی ہے کہ گزشتہ چار سال میں حکومت نے کمرشل بینکوں اور اسٹیٹ بینک سے بے تحاشا قرضہ لیا ہے جس کو اب ہر سال واپس کرنا ہے، اس طرح ملکی اور غیر ملکی قرضوں کی واپسی کا حصہ وفاقی بجٹ کے 65 فی صد تک بڑھ گیا ہے جب کہ دوسری طرف رواں سال حکومت کا آخری سال ہے اس لیے وفاقی حکومت اور تمام صوبائی حکومتیں ترقیاتی کاموں پر بہت زور دے رہی ہیں۔ پرانے منصوبے مکمل نہیں ہوئے، نئے منصوبے شروع کیے جارہے ہیں۔ صرف کراچی میں یونیورسٹی روڈ کی تکمیل سے پہلے پنجاب چورنگی اور گذری روڈ کے منصوبے شروع کردیے گئے ہیں، یہی معاملہ ملتان کی اورنج لائن کا ہے ان سب کا نتیجہ اخراجات میں اضافہ کی شکل میں ہوگا چناں چہ اگلے سال مالیاتی خسارہ کہاں پہنچے گا یہ وقت ہی بتائے گا۔
اس طرح تجارتی خسارہ 30 ارب ڈالر تک پہنچ گیا ہے۔ برآمدات میں اضافہ نہ ہونے کے برابر ہے حکومت کے تمام تر رعایتی پیکیج کے بعد سال رواں میں جولائی اور اگست میں برآمدات میں 13 فی صد اضافہ ہوا ہے۔ یہ بھی پہلے 25 فی صد ظاہر کیا گیا تھا بعد میں اعداد و شمار کی غلطیوں کے بعد اس کی اصلاح کی گئی ہے جب کہ درآمدات میں اضافہ 2 فی صد ہے۔ اس سے نمٹنے کے لیے کاروباری حلقے حکومت پر روپے کی قدر میں کمی پر زور دے رہے ہیں لیکن ماضی کا تجربہ یہ بتاتا ہے کہ اس نسخے پر عمل کرنے سے بجائے فائدے کے نقصان ہوا ہے۔ برآمدات میں اضافہ تو نہ ہوا جب کہ بیرونی قرضہ کی مالیت میں اضافہ ہوگیا اور درآمدات مہنگی ہوگئیں۔ چناں چہ رواں سال کے اختتام پر مالیاتی خسارہ اور تجارتی خسارہ کہاں پہنچے گا اور ملکی معیشت کو کتنا نقصان پہنچائے گا یہ اگلی حکومت کو بھگتنا ہوگا۔