ایک مرتبہ بھروسا کرکے تو دیکھیے

377

baba-alifخواجہ آصف بڑے آدمی ہیں، وزیر خارجہ بن کر اور بھی بڑے ہوگئے ہیں۔ نہ جانے ان کے پیچھے جو عورت ہے اسے پتا ہے یا نہیں کہ اس کے آگے ایک بڑا آدمی ہے۔ ہماری مراد اس عورت سے ہے جو ان کے گھر میں ہے۔ گھر والیوں کو پتا ہی نہیں چلتاکہ ان کا گھروالا کتنا بڑا آدمی ہے۔ پتا بھی ہو تو ظاہر نہیں کرتیں۔ ظاہر ہو جائے تو مان کر نہیں دیتیں۔ البتہ وہ عورت یا عورتیں جو تخیل میں رہتی ہیں انہیں پتا ہوتا ہے کہ جو ان کے پیچھے پڑا ہے وہ کتنا بڑ ا آدمی ہے۔ گھر والیاں دنیا دیکھنے کی خواہش کریں تو انہیں ورلڈ اٹلس دکھا کر بھی بہلایا جاسکتا ہے لیکن تخیل میں بسنے والیوں کو واقعی دنیا دکھانا پڑتی ہے کیونکہ بندہ انہیں طلاق بھی نہیں دے سکتا۔ خواجہ آصف اب خیر سے وزیر خارجہ ہیں دونوں اقسام کی بیویوں کو دنیا دکھا سکتے ہیں۔ انفار میشن ٹیکنالوجی کے اس دور میں بھی ہمیں ان کے وزیرخارجہ بننے کا علم تب ہوا جب ان کا یہ بیان سامنے آیا کہ پا کستان کی خارجہ پالیسی تبدیل کی جائے گی۔ ہمارے یہاں جب بھی اس قسم کا بیان دیا جاتا ہے اس سے مراد ہوتی ہے۔ امریکا کے قبضے سے آزادی۔
امریکا پر بعضوں کو پیر تسمہ پا کا گمان ہوتا ہے۔ الف لیلیٰ میں سندباد جہازی کی مہمات میں ایک لاغر بوڑھے کا ذکر ملتا ہے جسے ترس کھا کر سند باد اپنے کاندھے پر سوار کرلیتا ہے۔ وہ بوڑھا سندباد کو اپنے پیروں اور پنجوں سے ایسا جکڑ لیتا ہے کہ وہ کوشش کے باوجود اس سے نجات حاصل نہیں کرپاتا یہاں تک کہ قریب المرگ ہوجاتا ہے۔



بالآخر شراب پلاکر اس سے نجات حاصل کرتا ہے۔ امریکا نہ لاغر ہے نہ بوڑھا اور نہ کاندھے پر سوار ہونے کے لیے کسی کی منت کرتا ہے۔ شکار خود چل کر اس کے پاس جاتا ہے اور اپنی خوشی سے اسے کاندھے پر سوار کرتا ہے اور کچھ دن پھولا پھولا پھرتا ہے کہ سیاں بھئے کوتوال اب ڈر کاہے کا۔ لیکن جب رفتہ رفتہ امریکا اسے اپنے شکنجہ میں جکڑتا ہے تب اسے احساس ہوتا ہے
نحوستوں کا قلندر ہے یہ پیر تسمہ پا
کسی دن اس کو گلے سے اتار
داستان میں تو سندباد کسی نہ کسی طرح پیر تسمہ پا سے نجات حاصل کرلیتا ہے لیکن امریکا سے نجات پانا ناممکن۔ نجات کی خواہش کرنے والے کا کیا انجام ہوتا ہے لیکن اس سے پہلے ایک لطیفہ سن لیجیے: ایک شخص کے پاس پچاس بھینسیں تھیں۔ کسی نے اسے یک دم دولت مند بننے کے لیے ایک وظیفہ تاکید کیا اور نصیحت کی کہ وظیفہ ختم ہوتے ہی چار نفل پڑھ لینا۔ پہلے دن اس نے وظیفہ پڑھ کر نوافل پڑھیں۔ پچیس بھینسیں مرگئیں۔ اس نے وظیفہ بتانے والے سے رجوع کیا اس نے کہا فکر کی کوئی بات نہیں۔ پڑھنے میں غلطی ہوگئی ہوگی وظیفہ جاری رکھو۔ اگلے دن بعداز وظیفہ نوافل پڑھیں۔ پندرہ بھینسیں مرگئیں۔ اس نے پھر صاحب وظیفہ سے رجوع کیا پھر وہی جواب ملا۔ پھر بعد از وظیفہ نوافل پڑھیں بقیہ دس بھینسیں بھی مر گئیں۔ رنج اور صدمے سے اس شخص کا براحال تھا۔ ایک بھینس کا بچہ بہت شور کررہا تھا اس نے غصہ اور بہت غصے اس کی طرف دیکھا لیکن بھینس کے بچے کا شور کرنا بند نہ ہوا۔ بالآخر وہ غصے سے کھڑا ہوگیا اور بولا ’’اوئے چپ کرجا تُوتو آدھی رکعت کا بھی نہیں ہے‘‘۔



سابق وزیراعظم ذوالفقار بھٹو نے امریکا سے نجات کی کوشش کی، مارے گئے۔ جنرل ضیا الحق نے جب تک امریکا کو کاندھے پر سوار رکھا خیریت سے رہے۔ جب اتارنے کی کوشش کی فضا سے ہی اوپر پرواز کر گئے۔ نواز شریف نے امریکا کو ڈاج دے کر چین کو جھپی پانے کی کوشش کی پوچھتے پھر رہے ہیں مجھے کیوں نکالا۔ ذوالفقار علی بھٹو ایک ذہین فطین اور شاطر شخص تھے جن کی کرسی بہت مضبوط تھی۔ ضیاء الحق کہا کرتے تھے میرا کلہ بہت مضبوط ہے۔ نواز شریف تیسری مرتبہ وزیراعظم بنے ان کا مینڈیٹ بہت بھاری تھا۔ ہم سوچ رہے ہیں جب یہ مضبوط لوگ امریکا کی مار نہ سہار سکے تو بچارے وزیرخارجہ خواجہ آصف کتنی رکعتوں کی مار ہیں۔
پاکستان کو صدر ٹرمپ کی دھمکی غیر متوقع نہ تھی۔ سب کو صدر ٹرمپ کے ارادوں کا علم تھا۔ ہمارے حکمرانوں کو بھی ہوگا لیکن نہ جانے انہوں نے کیوں ایسے پوز کیا جیسے کہ یہ سب کچھ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے۔ اس سے پہلے بھی کئی مرتبہ ایسا ہوچکا ہے۔
جوتھا کام اس کا وہ کردیا، تو یہ کہہ کے مجھ سے وہ چل پڑا
ترا راستہ کوئی اور ہے، مرا راستہ کوئی اور ہے
باقی کسر برکس اعلا میے نے پوری کردی۔ اس میں چین جیسا دوست بھی شامل تھا جس کی دوستی ہمالیہ سے بلند، شہد سے میٹھی اور نہ جانے کون سے سمندر سے سے زیادہ گہری ہے۔ اس پر ایک ہاہا کار مچ گئی۔ حالانکہ برکس اعلامیے میں بھی کوئی نئی بات نہیں تھی۔ اس اعلامیے کے پیرا گراف نمبر 48میں لکھا ہے ’’ہم خطے کی سلامتی کی صورت حال کے تناظر میں طالبان، داعش، القاعدہ اور ان کی ذیلی تنظیموں بشمول مشرقی ترکستان مومنٹ، اسلامی مومنٹ آف ازبکستان، حقانی نیٹ ورک، لشکر طیبہ، جیش محمد، تحریک طالبان پاکستان اور حزب التحریرکی دہشت گردی پر اپنی تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘



حالانکہ پچھلے سال ہارٹ اف ایشیا کانفرنس کے پیرا گراف نمبر 14میں ہم خود سرتاج عزیز صاحب کی سربراہی میں یہ عہد کرچکے ہیں کہ ’’ہم اپنے اختلافات کو پر امن طور پر حل کرنے اور کسی بھی ملک کی سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال سے گریز، علاقائی سا لمیت اور خود مختاری کے عزم کا اعادہ کرتے ہیں۔ ہم دوسرے ممالک کے معاملات میں عدم مداخلت کے حوالے سے خطے میں اتفاق رائے پیدا کرنے کے لیے کام کریں گے۔ افغانستان اور خطے میں سیکورٹی صورت حال کی سنگینی، داعش اور اس سے منسلک تنظیموں حقانی نیٹ ورک، القاعدہ، اسلامک موومنٹ اف ازبکستان، اسلامک موومنٹ آف ایسٹ ترکستان، لشکر طیبہ، جیش محمد، تحریک طالبان پاکستان، جماعت الاحرار، جند اللہ اور دیگر غیر ملکی جنگجوؤں سمیت طالبان اور دہشت گرد گروپوں کی کارروائیوں پر تشویش کا اظہار کرتے ہیں۔‘‘
ہم ایک زود حس عاشق کی طرح ہوگئے ہیں۔ محبوب کا کسی اور سمت دیکھ لینا جس کے لیے بلائے جان ہوتا ہے۔ حالانکہ ممالک کے درمیان عشق وعاشقی نہیں ہوتی۔ ضرورتیں اور اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں۔ دوکلام سے فوجیں ہٹانے کے بارے میں بھارت کے چالاک سیاست دانوں نے چین سے یہ ڈیل کی ہوگی۔ آپ برکس اعلامیے میں ساتھ دے دیجیے ہم دوکلام سے فوجیں پیچھے ہٹالیں گے۔ اللہ اللہ خیر صلا۔ ویسے بھی چین اور بھارت کون سا لڑ رہے تھے۔ بس ایک دوسرے کے گال سہلا رہے تھے۔ برکس اعلامیے اور صدر ٹرمپ کی دھمکی سے ہم اتنے پریشان ہوئے کہ میٹنگ پر میٹنگ، سلامتی کے اداروں کے اجلاس پر اجلاس۔ کوئی ڈراما سا ڈراما۔ غیرت کے مظاہروں کا نہ ختم ہونے والا طوفان، کھڑکی توڑ رش۔ ہم نے بہت ڈومور کرلیا اب دنیا ڈومور کرے۔ دیکھ لیجیے گا کچھ دن بعد ہم پہلے سے زیادہ ڈومورکی تعمیل کررہے ہوں گے۔



صدر ٹرمپ کی دھمکی ہو یا برکس اعلامیہ میں لی گئی تنظیموں کا نام، اس بات کا پیغام ہے کہ ’’مقبوضہ کشمیر ہو یا افغانستان مسلمانوں کو اس بات کا حق نہیں کہ وہ اپنے علاقوں کا دفاع کرسکیں اپنے علاقوں کو قابض افواج سے آزاد کرانے کے لیے جہاد کرسکیں یا نبوت کی طرز پر خلافت کے قیام کے لیے کوششیں کرسکیں۔ ان کاموں کے لیے عسکری جدوجہد تو ایک طرف کوئی سیاسی یا فکری جدوجہد بھی کرے گا تو اس کو دہشت گرد سمجھا جائے گا۔‘‘ امریکا ہو یا چین اللہ کے دشمنوں سے اتحاد اور توقعات کا یہی نتیجہ ہوتا ہے۔ ستر سال سے ہم ایسا ہی کررہے ہیں ایک مرتبہ اللہ پر بھروسا کرکے تو دیکھیے۔