وہ ایک شخص۔ جس سے بھارت خائف ہے

285

zc_MFبھارت اس وقت جس ایک شخص سے خوفزدہ ہے وہ ہے ڈاکٹر ذاکر نائیک۔ بھارت کی پوری سرکاری مشینری نے اس اکیلے فرد کے خلاف اعلانِ جنگ کر رکھا ہے۔ اس کی بھارتی شہریت منسوخ کردی گئی ہے، اس کا پاسپورٹ کینسل کردیا گیا ہے اور اسے اشتہاری مجرم قرار دے کر اس کی گرفتاری کے جتن کیے جارہے ہیں۔ لیکن ڈاکٹر ذاکر نائیک کی خوش قسمتی ہے کہ وہ بھارتی حکومت کی دسترس سے دور جاچکے ہیں اور اِس وقت کئی مسلمان ممالک انہیں پناہ دینے اور انہیں اپنا شہری بنانے کے لیے تیار ہیں۔ ان ملکوں میں سعودی عرب، ملائیشیا اور ترکی سرفہرست ہیں۔ بتایا جاتا ہے کہ ڈاکٹر ذاکر نائیک پچھلے سال ملائیشیا کے تبلیغی دورے پر تھے تو بھارت نے ان کی غیر موجودگی میں انہیں انتہائی ناپسندیدہ شخصیت قرار دے دیا۔ ان کے ادارے ’’اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن‘‘ پر پابندی لگادی اور ان کے پیس ٹی وی چینل کو جو اردو، بنگلا اور چینی زبان میں پروگرام نشر کررہا تھا بند کردیا۔ بھارتی حکومت نے ملائیشیا سے مطالبہ کیا کہ وہ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اس کے حوالے کردے لیکن ملائیشیا نے ایسا کرنے سے انکار کردیا۔ اس کے برعکس ملائیشیا نے ڈاکٹر نائیک کی درخواست پر انہیں سیاسی پناہ دے دی اور انہیں اپنا شہری قرار دے دیا۔



آئیے پہلے ڈاکٹر نائیک کے پروفائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ ڈاکٹر نائیک کا پورا نام ذاکر عبدالکریم نائیک ہے، وہ ممبئی کے ایک دین دار گھرانے میں 18 اکتوبر 1965ء کو پیدا ہوئے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم ایک دینی مدرسے میں حاصل کی، ان کے والدین انہیں جدید تعلیم سے آراستہ کرنے سے پہلے انہیں دین کے عبادیات سے آگاہ کرنا چاہتے تھے تا کہ لڑکا اسکول اور کالج کی سیکولر تعلیم کے دوران بے راہ رو نہ ہونے پائے۔ یہ احتیاط نتیجہ خیز ثابت ہوئی۔ چناں چہ جب انہیں اسکول کی تعلیم کے بعد میڈیکل کی تعلیم کے لیے ممبئی کے ایک مشہور میڈیکل کالج میں داخل کیا گیا تو اس وقت تک ان کا دینی شعور بہت بیدار ہوچکا تھا، انہوں نے والدین کی خواہش کے مطابق ایم بی بی ایس کی تعلیم تو حاصل کی لیکن ڈاکٹر بن کر دکھی انسانیت کی خدمت کرنے کے بجائے انہوں نے اسلام کا مبلغ بن کر بے راہ رو انسانوں کا روحانی علاج کرنے کا فیصلہ کیا۔ ڈاکٹر ذاکر نائیک کو اللہ تعالیٰ نے غیر معمولی حافظہ اور حیرت انگیز یادداشت سے نوازا ہے۔ وہ جو چیز ایک مرتبہ پڑھ لیں ان کے دل پہ نقش ہوجاتی ہے، انہوں نے اپنی اس خداداد صلاحیت کی بنیاد پر قرآن و حدیث کے وسیع مطالعے کے علاوہ اسلام اور ہندومت، اسلام اور عیسائیت، اسلام اور سیکولرازم اور اسلام و جدید سائنس کا تقابلی مطالعہ بھی کیا ہے۔ انہیں ہندوؤں کی مذہبی کتابیں، عیسائیوں کی بائبل اور دیگر غیر مسلم ادیان کی کتابیں ازبر ہیں، وہ بڑی روانی سے ان کتابوں کا حوالہ اپنے لیکچرز میں دیتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ اگر ان کے دیے گئے حوالہ جات میں کوئی غلطی ہو تو وہ اسلام کی تبلیغ چھوڑ دیں گے۔ ڈاکٹر نائیک اسلام کی دعوت غیر فرقہ وارانہ انداز میں پیش کرتے ہیں، وہ کسی مسلک یا فرقے کی نمائندگی نہیں کرتے بلکہ قرآن و حدیث کی روشنی میں اسلام کا عالمی نظریہ اپنے سامعین کے سامنے پیش کرتے ہیں، اگر ان کے مخاطب غیر مسلم اور کسی خاص مذہب کے پیرو ہیں تو وہ انہیں بتاتے ہیں کہ اسلام کے مقابلے میں ان کا مذہب کتنا غیر منطقی اور غیر انسانی رویہ اپناتے ہوئے ہے۔



ڈاکٹر ذاکر نائیک بھارت کی مقامی زبانوں گجراتی، مراٹھی، تامل کے علاوہ اردو، عربی اور انگریزی پر مکمل عبور رکھتے ہیں اور ان زبانوں میں بڑی روانی سے اپنا مافی الضمیر بیان کرسکتے ہیں۔ انہوں نے 1991ء میں تبلیغ و دعوت کے مشن کا آغاز کیا تو ممبئی کے اصحاب خیر مسلمانوں کا بھرپور تعاون انہیں حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے دعوتی اجتماعات میں مسلمانوں کے علاوہ ہندوؤں، سکھوں اور عیسائیوں کو بھرپور شرکت کی دعوت دی اور ان سے کہا کہ وہ اپنے مذہب اور عقیدے کی روشنی میں اسلام پر جو اعتراض چاہیں اُٹھا سکتے ہیں، وہ ان کے اعتراض کا جواب خود ان کی مذہبی کتب کے حوالے سے دیں گے۔ اس طرح ڈاکٹر نائیک کے اجتماعات میں غیر مسلموں کی دلچسپی بڑھتی گئی وہ اسلام کے خلاف چبھتے ہوئے سوالات سے لیس ہو کر اجتماع میں آتے اور ڈاکٹر نائیک کے جوابات سن کر بعض اوقات اتنے مرعوب ہوتے کہ وہیں کھڑے ہو کر اسلام قبول کرلیتے۔ اس طرح ڈاکٹر نائیک کی شہرت پورے بھارت میں خوشبو کی طرح پھیلتی چلی گئی۔ انہیں زیادہ شہرت اس وقت حاصل ہوئی جب انہوں نے 1994ء میں بنگلا دیش کی آزاد خیال مصنفہ تسلیم نسرین کی اسلام کے خلاف دل آزار کتاب کا نہایت بھرپور انداز میں جواب دیا اور اپنے خطابات میں اس کی تحریر کے تارو پود بکھیر کر رکھ دیے ان کے خطبات کے کیسٹ پورے بھارت اور بنگلا دیش میں دلچسپی سے سنے گئے۔
ڈاکٹر ذاکر نائیک نے بھارت سے باہر قدم نکالا تو ان کی مقبولیت میں مزید اضافہ ہوا۔ انہوں نے 2012ء سے 2016ء تک ملائیشیا کا متعدد بار دورہ کیا اور وہاں دیگر مذاہب کے مقابلے میں اسلام کی حقانیت پر متعدد لیکچر دیے۔ ان کے اجتماعات میں شرکت کرنے والوں میں ملائیشیا کے سابق وزیراعظم ڈاکٹر مہاتیر محمد بھی شامل تھے۔ ڈاکٹر نائیک متعدد افریقی اور یورپی ملکوں کا دورہ کرچکے ہیں، ان کے خطبات کی تعداد چار ہزار کے لگ بھگ بتائی جاتی ہے جن میں انہوں نے انسانی زندگی کو درپیش روزمرہ کے بیش تر مسائل پر روشنی ڈالی ہے اور اسلامی نقطہ نظر سے ان کا حل پیش کیا ہے۔



عالمی سطح پر ان کی دعوتی و تبلیغی سرگرمیوں کے اعتراف میں سعودی عرب نے انہیں شاہ فیصل انٹرنیشنل ایوارڈ سے نوازا ہے جب کہ گیمبیا سمیت کئی اور ملکوں نے بھی انہیں اعزازات دیے ہیں۔ 2010ء میں بھارت کے ممتاز اخبار ’’انڈین ایکسپریس‘‘ نے انہیں بھارت کی ایک سو انتہائی ممتاز اور بااثر شخصیات میں شامل کیا۔ بھارت میں ڈاکٹر نائیک کی مشکلات کا آغاز اس وقت ہوا جب مرکز میں بی جے پی کی فرقہ پرست حکومت قائم ہوئی اور مسلمان دشمن نریندر مودی نے اقتدار سنبھالا۔ اس حکومت میں فرقہ پرست ہندو جماعتوں کو ڈاکٹر نائیک کی آزادانہ نقل و حرکت اور ان کے ہاتھ پر پڑھے لکھے ہندو نوجوانوں کا اسلام قبول کرنا بری طرح کھٹکنے لگا۔ ان پر الزام لگایا گیا کہ وہ ملک میں تشدد کو ہوا دے رہے ہیں اور ان کا دہشت گردوں سے رابطہ ہے۔ ڈاکٹر نائیک نے ان الزامات کی سختی سے تردید کی اور کہا کہ وہ مختلف مذہب کے ماننے والوں کے درمیان پُرامن بقائے باہمی کے قائل ہیں اور مذہب کی آڑ میں ہر قسم کے تشدد اور دہشت گردی کو حرام سمجھتے ہیں لیکن بھارت کی سرکاری ایجنسیوں نے انہیں کلیئرنس دینے سے انکار کردیا۔ ڈاکٹر نائیک اس وقت بھارت سے باہر ہیں لیکن بھارت سرکار نے ان کی شہریت منسوخ کردی ہے اور انہیں اشتہاری مجرم قرار دے دیا ہے۔ بھارت میں موجود ان کی جائداد ضبط کرنے کے اقدامات کیے جارہے ہیں، ان کے تحقیقی ادارے اسلامک ریسرچ فاؤنڈیشن کا ریکارڈ بھی قبضے میں لے لیا گیا ہے، جب کہ انتہا پسند ہندو تنظیم وشوا ہندو پریشد نے ان کے سر کی قیمت پچاس لاکھ روپے لگادی ہے۔ اس طرح بھارت سرکار ایک شخص سے سخت خوفزدہ ہے اسے ڈر ہے کہ اگر ڈاکٹر نائیک کو کھلا چھوڑا گیا تو کہیں یہ شخص پورے بھارت کو مسلمان نہ بنادے۔