عمران خان کے پاس تو کوئی عوامی عہدہ نہیں ہے کہ اس سے ہٹا دیا جائے۔ اس رویے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ دوسروں کو مقدمات کا سامنے کرنے کی تاکید کرنے والا خود منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ چنانچہ عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہوگئے اور الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ انہیں 25ستمبر کو گرفتار کر کے پیش کیا جائے کیوں کہ انہوں نے ہر حکم نظر انداز کیا ہے، ملک میں موجود ہونے کے باوجود پیش نہیں ہوئے، وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری ایس ایس پی آپریشنز کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ امکان تو یہی ہے کہ عمران خان گرفتاری کی مزاحمت کریں گے اور بنی گالا جا بیٹھیں گے۔ لیکن وہ ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں ، پولیس سے آنکھ مچولی یا گرفتاری ان کی شخصیت پر منفی تاثر قائم کرے گی۔ بعض رہنماؤں نے عمران خان کو تسلی دی ہے کہ وہ حاضر ہو جائیں، انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ سیاست دانوں کو گرفتاریوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ یہ کون کررہا ہے؟ نواز شریف تو باہر ہوگئے اور پیپلز پارٹی مرکز میں اقتدار میں نہیں ہے۔ اور انہیں بلیک میل کر کے کیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کی نا اہلی اور عمران خان کے وارنٹ جاری ہونے پر پیپلز پارٹی خوش ہے اور سمجھ رہی ہے کہ اس کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ یہ بھی اصول ہے کہ کسی کو اس کی کسی کمزوری ، خامی یا غلطی پربلیک میل کیا جاتا ہے۔ عمران خان اپنی انا کا بٹ توڑ کر قانون کا راستہ اختیار کریں۔ ابھی تو انہیں اپنی پارٹی میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔