عمران خان اور الیکشن کمیشن

307

Edarti LOHپاکستان تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان ایک نیانکتہ لائے ہیں کہ الیکشن کمیشن انہیں پاناما مقدمہ لڑنے کی سزا دے رہا ہے۔ ان دونوں باتوں کا باہم کوئی تعلق نظر نہیںآتا۔ کیا عمران خان یہ ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن پاناما مقدمہ چلانے کے خلاف تھا یا یہ کہ اس کے نتیجے میں میاں نوازشریف کی نا اہلی سے الیکشن کمیشن ان پر برہم ہے۔ لیکن پاناما مقدمے میں تو اور بھی کئی مدعی تھے گو کہ اس مقدمے کو عدالت عظمیٰ تک لے جانے میں اہم کردار عمران خان ہی کا تھا۔ جہاں تک الیکشن کمیشن اور عمران خان کا تعلق ہے تو وہ بالکل الگ معاملہ ہے۔ الیکشن کمیشن عمران خان کو توہین عدالت کے الزام میں بار بار طلب کرچکا ہے لیکن عمران خان کے خیال میں وہ اس سے ماورا ہیں اور الیکشن کمیشن کی یہ حیثیت نہیں کہ انہیں طلب کرسکے۔ لیکن کیا الیکشن کمیشن اس ملک کا ایک اہم ادارہ نہیں ہے ؟ عمران خان یہ تسلیم کرنے پر تیار نہیں اور کہتے ہیں کہ الیکشن کمیشن مافیا کا ہتھیار ہے، اسے نواز شریف اور زرداری استعمال کرتے ہیں۔ لیکن اگر ایسے ہی خیالات کا اظہار مسلم لیگ ن بھی کسی ادارے کے خلاف استعمال کرے تو عمران خان کا ردعمل کیا ہوگا؟ وہ تو کہتے ہیں کہ یہ کمیشن کوئی عدالت نہیں کہ مجھے بار بار طلب کرے، میں نے کوئی غلط کام نہیں کیا۔ اگر ایسا ہے تو کمیشن میں جانے میں کیا پریشانی ہے۔ نواز شریف بھی تو یہی کہتے ہیں کہ انہوں نے کوئی غلط کام نہیں کیا، انہیں کیوں نکال دیا گیا۔



عمران خان کے پاس تو کوئی عوامی عہدہ نہیں ہے کہ اس سے ہٹا دیا جائے۔ اس رویے سے ن لیگ اور پیپلز پارٹی کو یہ کہنے کا موقع مل گیا ہے کہ دوسروں کو مقدمات کا سامنے کرنے کی تاکید کرنے والا خود منہ چھپاتا پھر رہا ہے۔ چنانچہ عمران خان کے قابل ضمانت وارنٹ جاری ہوگئے اور الیکشن کمیشن نے حکم دیا ہے کہ انہیں 25ستمبر کو گرفتار کر کے پیش کیا جائے کیوں کہ انہوں نے ہر حکم نظر انداز کیا ہے، ملک میں موجود ہونے کے باوجود پیش نہیں ہوئے، وہ توہین عدالت کے مرتکب ہوئے ہیں ۔ عمران خان کے وارنٹ گرفتاری ایس ایس پی آپریشنز کے حوالے کردیے گئے ہیں۔ امکان تو یہی ہے کہ عمران خان گرفتاری کی مزاحمت کریں گے اور بنی گالا جا بیٹھیں گے۔ لیکن وہ ایک قومی سطح کے لیڈر ہیں ، پولیس سے آنکھ مچولی یا گرفتاری ان کی شخصیت پر منفی تاثر قائم کرے گی۔ بعض رہنماؤں نے عمران خان کو تسلی دی ہے کہ وہ حاضر ہو جائیں، انہیں گرفتار نہیں کیا جائے گا۔ سیاست دانوں کو گرفتاریوں سے ڈرنا نہیں چاہیے۔ مگر وہ کہہ رہے ہیں کہ انہیں بلیک میل کیا جارہا ہے۔ یہ کون کررہا ہے؟ نواز شریف تو باہر ہوگئے اور پیپلز پارٹی مرکز میں اقتدار میں نہیں ہے۔ اور انہیں بلیک میل کر کے کیا فائدہ حاصل کیا جاسکتا ہے۔ نوازشریف کی نا اہلی اور عمران خان کے وارنٹ جاری ہونے پر پیپلز پارٹی خوش ہے اور سمجھ رہی ہے کہ اس کا راستہ صاف ہوگیا ہے۔ یہ بھی اصول ہے کہ کسی کو اس کی کسی کمزوری ، خامی یا غلطی پربلیک میل کیا جاتا ہے۔ عمران خان اپنی انا کا بٹ توڑ کر قانون کا راستہ اختیار کریں۔ ابھی تو انہیں اپنی پارٹی میں بھی مسائل کا سامنا ہے۔