نواز شریف کی سیاست بدری اور ملک کی ترقی 

411

zr_M-Anwerملک کے اکثر سیاست دانوں اور عام لوگوں کے رویے کے بارے میں غور کررہا تھا تو خیال آیا کہ ’’غلام ذہنیت کے لوگ دنیاوی آقاؤں کے تخلیق کار ہوتے ہیں، لیکن کیا ہم بھی ایسے ہی حاکموں کو پیدا کررہے ہیں؟‘‘۔ ہمارے حاکم ہماری خدمت کے وعدے پر اقتدار میں آکر بیک وقت ملک اور قوم دونوں ہی کو رسوا کرنے کا باعث بن جاتے ہیں۔ پھر جب عدالت انہیں ناہل قرار دیتی ہے تو یہ چیخ چیخ پوچھا کرتے ہیں کہ ’’مجھے کیوں نکالا؟۔ نواز شریف کی صاحب زادی مریم نواز نے حد کردی اپنے والد کے خلاف کی جانے والی کارروائی پر جو منہ آیا وہ بولیں ان کا کہنا تھا کہ پاناما کیس میں ’’جو منصف تھے وہ مدعی بن گئے‘‘ ان کا یہ جملہ توہین عدالت کے مترادف ہے۔ یہی نہیں وہ عوام سے اپنی والدہ کے لیے ووٹ مانگنے کی مہم کے دوران اس قدر جذباتی نظر آئیں کہ انہوں نے پاک وطن کی عزت کو اپنے والد نواز شریف کی عزت سے مشروط کردیا۔ انہوں نے لاہور میں بے وقوفی کی حد تک سادہ عوام سے سوال کیا کہ ’’کیا یہ بات سہی ہے کہ جو کروڑوں ووٹ لے کر آئے۔ وزیراعظم ایک اقاما کی مار ہو؟ کیا ایسا پاکستان منظور ہے؟‘‘۔ مریم نواز نے پاکستان کے حوالے سے کیوں سوال اٹھا دیا؟ انہیں عوام سے سوال کرنا ہی تھا تو وہ یہ پوچھتی کہ ’’کیا ایسا لیڈر آپ کو منظور ہے جو بھارتی تاجر سے خصوصی ملاقات کرے اور بھارتی مشکوک باشندوں کو قوانین کے خلاف اپنی فیکٹری میں ملازمت فراہم کرے؟‘‘۔ نواز شریف کی بیٹی کو اپنے باپ کی محبت میں اس قدر جذباتی بلکہ بے تکی بات کرنے کی اجازت کس نے دی؟ اور اب تک ان کے اس جملے کا نوٹس کیوں نہیں لیا گیا؟



مریم نواز کو پاکستانی عوام سے سوال پوچھنے سے پہلے اپنے آپ سے یہ سوال کرنا چاہیے تھا کہ ’’آخر ان کے والد نے را کے ایجنٹ کلبھوشن کی گرفتاری پر ملک کے سیکورٹی کے اداروں کی تعریف کیوں نہیں کی اور آخر کیا وجہ تھی کہ ان کے وزیراعظم والد نے عالمی عدالت میں نمائندگی کے لیے پاکستانی جج کو کیوں نہیں بھجوایا؟‘‘ کیا یہ ملک سے زیادہ بھارت کا ساتھ دینے کی کوشش نہیں تھی؟ عالمی عدالت میں پاکستانی جج موجود نہ ہونے کی وجہ سے بھارت کے حق میں بآسانی فیصلہ ہوگیا۔ پاکستان کے خلاف آنے والے فیصلے پر پاک وطن کی جگ ہنسائی بھی ہوئی۔ یہی وقت ہے کہ کلبھوشن کے اس عالمی عدالت میں پاکستان کی نمائندگی نہ ہونے پر بھی انکوائری ہونی چاہیے۔ مریم نواز نے ایک غلط بات کردی تو اس کا فائد سیاسی طور پر الطاف حسین کو ملنا یا ان کی طرف سے اٹھانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ہے ہماری سیاست میں اکثر یہی ہوتا رہا ہے کہ کسی کے غلط عمل کو مثال بناکر مزید غلطیاں کی جائیں۔
آصف زرداری نے 2015 میں سندھ حکومت اور ان کے دوستوں کے خلاف رینجرز کی کارروائی پر ’’اینٹ سے اینٹ بجانے‘‘ کی بات کی اور اچانک ہی ملک چھوڑ گئے۔ تاہم انہوں نے اینٹ سے اینٹ بجانے کا مظاہرہ کرنے کے بجائے پندہ ماہ ملک سے باہر رہنے کے دوران اپنے الفاظ کی وضاحت ہی کرتے رہے۔ کہنا یہ ہے کہ ہمارے سیاست دان نہ ملک سے مخلص ہیں اور نہ ملک کے اداروں سے۔ یہ لوگ تو پورا نظام اپنی انگلیوں کے اشارے پر چلانے کے خواہش مند ہیں۔ یہ سیاست دان لفظ جمہوریت سے فائدہ اٹھا کر ذاتی مفادات کے حصول کے لیے فعال رہتے ہیں۔ یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ یہ لوگ انہیں منتخب کرنے والوں کو بیوقوف ہی نہیں بلکہ پاگل سمجھتے ہیں۔



قوم اسٹیبلشمنٹ یا ایجنسیوں پر شک کرتی ہے تو بھی اس کی وجوہ ہیں۔ بڑی وجہ تو یہ ہے کہ عام افراد یہ چاہتے ہیں کہ چور ڈاکو کا سخت احتساب کیا جائے اور سیاسی ملزموں کے ساتھ بھی عام ملزموں جیسا ہی سلوک کیا جائے۔ الزام لگنے کے بعد انہیں ملک سے باہر جانے کی اجازت بھی نہ دی جائے۔ لیکن لوگوں کو کیا معلوم سب کچھ قانون کے دائرے میں ہی ہوتا ہے۔ سخت ایکشن بھی اور نرمی بھی۔
باوجود اس کے کہ متعلقہ اداروں کی کرپٹ اور ملک کو نقصان پہنچانے والے سیاسی اور غیر سیاسی عناصر کے خلاف کارروائیوں میں غفلت ہوگی مگر پھر بھی قوم اب ان سیاست دانوں پر ہی نہیں بلکہ ان کے بیٹے، بیٹی اور نمبر دو حیثیت کے لیڈروں پر بھی اعتماد کرنے کو تیار نہیں ہے۔ سچ تو یہ ہے کہ قوم جمہوری نظام حکومت سے نالاں ہوچکی ہے۔ کم از کم ایسے سیاست دانوں سے ان کی بیزاری واضح ہے جو اپنی جماعتوں میں الیکشن نہ کرانے کے باوجود انہیں جمہوری پارٹیاں کہتے ہیں۔
نواز شریف نااہل ہونے کے بعد ایک منصوبہ بندی کے تحت لندن جاچکے ہیں۔ ان کی پارٹی کے لوگوں کا کہنا ہے کہ وہ اپنی اہلیہ کے علاج کے لیے لندن گئے ہیں۔ کاش یہ بات درست ہو، اور کلثوم نواز کو کینسر ہی ہو اور وہ اس کا علاج کروا رہی ہوں۔ لیکن سوشل میڈیا کی خبریں کچھ اور ہی اطلاعات فراہم کررہی ہیں۔ اس میڈیا کی رپورٹوں کے مطابق کلثوم نواز کو لندن میں شاپنگ کرتے اور ہوٹلوں میں بھی دیکھا گیا ہے۔ ہوسکتا ہے کہ علاج کے درران وہ ڈاکٹرز کے مشورے سے دل بہلانے کے لیے آؤٹنگ پر نکل گئیں ہوں۔



قوم کو نواز شریف ان اور ان کی اہلیہ سمیت کسی ایسے لیڈر کی بیماریوں سے کوئی دکھ نہیں ہوتا۔ لیکن انسانی ہمدردی کے تحت وہ صرف یہ جاننا چاہتی ہے کہ ان کی بیماریوں کی اطلاعات تو جھوٹ نہیں ہے۔ کیونکہ نواز شریف کو عدالت نے ہی قرار دیا ہے کہ وہ صادق و امین نہیں رہے۔ اب ان کی باتوں پر کیسے یقین کیا جائے؟۔
مسلم لیگ کے ذرائع کا کہنا ہے کہ عدالت عظمیٰ کی جانب سے نواز شریف کی نااہلی فیصلے پر نظر ثانی کی درخواست مسترد ہونے کے بعد میاں نواز شریف اپنی اہلیہ کے ساتھ شدید پریشان ہیں۔ ان کی پریشانی کی وجہ یہ ہے کہ وہ سمجھ رہے تھے کہ شاید عدالت عظمیٰ اس فیصلے پر درخواست کے مطابق نظر ثانی کردے گی اور انہیں سیاسی نظام میں رہنے کا موقع مل جائے گا۔ جب کہ انہیں معلوم ہے کہ بیماری اور صلاحیتیں نہ ہونے کی وجہ سے کلثوم نواز این اے 120سے کامیاب ہو بھی گئیں تو انہیں وزیراعظم بنانے کا فیصلہ آسان نہیں ہوگا بلکہ یہ اقدام پارٹی کی ساکھ کو مزید نقصان پہنچانے کا باعث بھی ہوسکتا ہے۔
بار بار حکومتوں میں رہنے والے سیاست دان سمجھتے ہیں کہ پاکستان صرف ان ہی کی وجہ سے چل رہا ہے حالانکہ پاکستان کو تو اللہ اپنے نظام سے چلا رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ جس سے جو کام لینا چاہتا ہے لیکر اسے فارغ کردیتا ہے۔ نواز شریف کو شکر اداکرنا چاہیے کہ وہ صرف سیاست سے باہر ہوئے ہیں۔ انہیں یہ بھی یقین رکھنا چاہیے ملکی سیاست سے باہر ہونے کا سلسلہ ان پر ختم نہیں ہوگا بلکہ ابھی باری دیگر کی بھی آنے کو ہے۔ لیکن دیکھنے کی بات یہ ہے کہ آئندہ اقتدار کے لیے کس پائے کے جمہوریت پسند سامنے آتے ہیں یا آمریت کے پرانے دوستوں کے نصیب جمہوریت کے نام پر پھوٹتے ہیں۔ ویسے بھی را کے ایجنٹوں کے خلاف کارروائی تو اب شروع ہوئی ہے۔