مظہر اقبال
آج کل تقریباً تمام اخبارات میں پاکستان امریکا تعلقات پر تبصرے چل رہے ہیں۔ ہر دو سرا کالم نویس، معاملہ بھٹو مرحوم صاحب سے شروع کرتا ہے۔ اور پرویز مشرف صاحب تک آ کر روک دیتا ہے۔ کوئی سول حکمرانوں کو مورد الزام ٹھیراتا ہے کوئی ماضی کے جرنیلوں کو۔ حقیقت یہ ہے کہ معاملہ اس کے بر عکس ہے۔ اول تو ہمارے ملک میں تربیت یافتہ سیاست دان ہیں ہی نہیں۔ خاندانی حسب نسب اور صاحب حیثیت ہونے کی وجہ سے کچھ لوگ پارلیمنٹ میں پہنچ جاتے ہیں۔ جماعت اسلامی واحد جماعت ہے جو نوجوانوں کو دنیا کی امامت کا درس دیتی ہے اور یہ عنصر آپ کو ان کے جوان اور ضعیف سیاست دانوں میں نظر آتا ہے۔ وہ اپنی نشستوں اور اسباق میں ’’خلیفتہ اللہ‘‘ کے الفاظ استعمال کرتے نظر آتے ہیں۔ تو جناب واپس چلتے ہیں روایتی سیاست دانوں کی طرف۔ آئیے دیکھتے ہیں اپنے آپ کو THALES جیسا فلسفی سمجھنے والے سیاست دان کی تربیت کہاں ہوئی۔ ماضی اور حال کے زیادہ تر سیاست دان جاگیرداروں کی اولاد ہیں۔ انگریز جاتے جاتے کچھ مخصوص تعلیمی ادارے بھی بنوا گئے۔ جن سے صرف طبقہ امرا کے بچے مستفید ہوتے ہیں۔ یہ تعلیم انگریزوں کے پرانے نصاب پر مشتمل ہوتی ہے۔ ان نوجوانوں کا زیادہ تر وقت کھیل کود، انگریزی زبان میں مہارت انتہائی اعلیٰ معیار کے ملبوسات اور جدید گاڑیوں کے ذکر میں گزرتا ہے۔ ان میں سے نوے فی صد سائنس یا زیادہ مشکل مضمون نہیں لیتے۔ کیونکہ یہ ان کی نوابانہ طبیعت کے مطابق نہیں۔ انہی کالجوں کے اندر سیکڑوں ملازمین ان کی خدمت کے لیے مو جود ہوتے ہیں اور یہیں سے ان کے اندر حکمرانی کے جراثیم بھر جاتے ہیں۔
اب آپ ان کی اٹھان پر غور کرتے جائیے۔ چھٹیاں ہوئیں تو اسکول کالج کے دروازے پر ہاتھی جیسی گاڑی آ کر کھڑی ہو جاتی ہے۔ ڈرائیور دروازہ کھولتا ہے۔ منشی استقبال کرتے ہیں اور دیگر ملازمین سامان اٹھا لیتے ہیں۔ عمر کی سیڑھیاں طے کرتے کرتے یہ بچے، لڑکے اور پھر گھبرو جوان بن جاتے ہیں۔
اب نفس کی بہت سی شکلیں ان کے سامنے آ کھڑی ہوتی ہیں۔ وہی منشی اور ملازمین جو اسکول میں بستہ اٹھاتے تھے اب ڈھول، گھنگرو اور طوائف لے کر آتے ہیں۔ کچھ سال گزرتے ہیں تو ان کے والد کو محسوس ہوتا ہے کہ اب ان کے اس لاڈے کو شادی کر لینی چاہیے۔ تا ہم سسرال والوں پر بھرم ڈالنے کے لیے ایم این اے کا سرٹیفکیٹ کافی ہوتا ہے۔ یہ لاڈلہ ایم این اے اور پھر وزیر بن جاتا ہے۔ پاکستان کے سیدھے سادے اور بھولے بھالے لوگ جذباتی انداز سے سوچتے ہیں کہ اب اس وزیر کے اندر سے صلاح الدین ایوبی نکلے گا اور وہ امریکا کو للکارے گا۔ میں اور آپ سب گواہ ہیں ایسا کچھ نہیں ہوتا۔کیوں؟ للکارتا وہ ہے جس کا دل مضبوط ہو۔ سورۃ کہف میں اللہ تعالیٰ نے انتہائی خوب صورتی سے دلوں کے مضبوط کا ہونے واقعہ ہمیں بتایا ہے۔ جو حق پر ہوتا ہے اس کا دل حق پر ڈٹ جاتا ہے۔ آخر کیا ایسی بات ہے کہ امت مسلمہ کے حکمران کفار کے سامنے ڈٹ جانے سے گھبراتے ہیں۔ اگر صدام ڈٹ گیا تھا تو خود اس کی اپنی قوم بھی اس کے ساتھ نہیں تھی۔ قذافی کا سونا بھی لٹ گیا بٹ گیا مگر اس صحرا سے کوئی ایک درجن سائنس دان بھی برآمد نہ ہوئے۔اسد نے پورا شام غرق کر دیا محض اپنی انا کی تسکین کے خاطر وہ ڈٹا تو اپنی ضد پر امت مسلمہ کی عزت پر نہیں۔ یہ زمین کے جتنے ٹکڑے کو ملک کہتے تھے اس سے کہیں بڑے سلطنت عثمانیہ کے صوبے ہوتے تھے۔ تربیت کا فقدان، مال سے محبت نے ان حکمرانوں اور امت مسلمہ کو اقوام عالم میں شرمندہ کر دیا۔
آخر ان لوگوں میں اور ہمارے سابقہ حکمرانوں میں کس چیز کی کمی تھی۔ توکل، قناعت، عشق رسول، جرأت و بہادری، علوم، فنون اور انصاف، یہ وہ اجزا ہیں جو ایک خلیفہ میں ہونے چاہیں۔ اقبال ؒ نے بارہا قرآن اور احا دیث کو اس ضمن میں آسان الفاظ میں پیش کیا۔ ایک امام نماز پڑھا کر سلام پھیرتا ہے۔ تو اسے پتا ہوتا ہے کہ یہ سب نمازی اس پر مکمل اعتماد کرتے ہیں۔ اس کی کو شش ہوتی ہے کہ وہ کسی کی دل آزاری نہ کرے۔ اگر امام غلطی کرتا ہے تو نمازی اس کی تصیح کر دیتے ہیں۔ بالکل یہی معاملہ خلیفتہ اللہ کا ہے کہ وہ اللہ کو بھی جواب دہ ہے اور مخلوق کو بھی۔ لیکن جناب معاملہ اس وقت بڑا عجیب نظر آتا ہے جب بھٹو مرحوم پاکستان کا مقدمہ لڑنے اقوام عالم آ جا رہے تھے اور وہ ڈنکے کی چوٹ پر بات بھی کرتے تھے، آخر کو انہوں نے کہاں مار کھائی۔ اگر چٹاگانگ، سلہٹ اور ڈھاکا اور کئی بڑے صوبوں کے رہنما ان کی امامت میں آ جاتے تو حالات کچھ اور ہوتے۔ آ خر بات آ گئی نہ امامت کی۔ بقول اقبال ؒ
لیا جائے گا تجھ سے امتحان دنیا کی امامت کا
اس اندرونی خلفشار کا نقصان کیا ہوا۔ بھٹو صاحب جب امریکیوں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کر رہے تھے، تو اس وقت گھر کے بھیدی نے ہی لنکا ڈھائی۔ ہنری کسنجر تو ان کا معترف ہو گیا مگر بنگالی کو الگ ملک نظر آنے لگا۔
مشرف صاحب بھی حادثاتی طور پر اقتدار میں آئے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ ایک زبردست جنگجو ہے۔ مگر ملک جنگی پیچ و خم و فوجی زیر و بم سے نہیں چلتے۔ ضیاء الحق مرحوم کے استاد ڈاکٹر اللہ بخش سے ہماری ملاقات ہوئی بہت اچھا نقطہ بتلایا کہ کوئی بھی حکمران اس وقت تک احسن طریقے سے ملک نہیں چلا سکتا جب تک اس کے اندر ریاست کو چلانے کے لیے State of the art skills نہ ہو۔ مشرف صاحب نائن الیون اور بلوچستان میں پھنسے رہے اور جب جانے لگے تو دہشت گرد شمالی وزیر ستان میں اپنی چھاونی بنا چکے تھے۔
یہ ایک مثال ہے اس طرح کی اور بہت سی مثالیں ہیں۔ جب اقوام عالم کے سامنے کھڑے ہونے کا وقت آتا ہے تو مسلم حکمران اپنی تربیت کی وجہ سے مار کھا جاتے ہیں۔ جبھی میں نے آغاز میں سیاسی شہزادوں کا ذکر کیا۔ اس وقت امت مسلمہ کو سیاسی شہزادوں کی نہیں بلکہ مومنین کی ضرورت ہے۔ ہمیں یہ بات اپنی نسلوں کے دلوں میں ڈالنی ہوگی کہ امت مسلمہ میں حکمران نہیں خلیفہ ہوتے ہیں۔ برطانیہ نے آج سے دو سو سال پہلے فیصلہ کر لیا تھا کہ ہمیں OMARIAN LAW (یعنی عمر فاروقؓ کا قانون) اپنانا ہوگا۔ ان کی تحقیق کے مطابق پوری انسانی تاریخ میں عمر فاروقؓ کا دور واحد دور تھا جس میں مکمل امن تھا اور ہمیں وہ مشہور جملہ اپنے بچوں کو ذہن نشین کرانا ہوگا۔ ’’اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی پیاسا مر گیا تو روزِ قیامت میرا حساب ہو گا‘‘۔
ہمارے حکمران غیروں کے آگے کیا بولیں گے وہ تو خود اپنی ہی قوم کے آگے شرمندہ ہیں وہ غیروں سے کیا انصاف کی بات کریں گے جن کے اپنے ملک میں بیوائیں عدالتی دروازے پر بوڑھی ہو جاتی ہیں۔
نگہ بلند، سخن دلنوار، جال پر سوز
یہی ہے رختِ سفر میرِ کارواں کے لیے
میانمر، روہنگیا میں ہزاروں مسلمانوں کو موت کے گھاٹ اتار دیا گیا۔ کیوں کوئی حجاج بن یوسف سامنے نہیں آیا۔ کیوں کسی مسلمان حکمران نے کوئی نوجوان محمد بن قاسم روانہ نہیں کیا۔ سب مسلمان حکمران اپنی ہی کرسی کی بھیک مانگ رہے ہیں۔ روہنگیا مسلمان کسی عمر مختار کے انتظار میں ہیں۔ آج اگر مسلم ریاستوں میں کوئی مومن حکمران ہوتا تو صرف ایک ہی پیغام کافی تھا، ’’اگر تمہاری رعایا میں موجود مسلمانوں کا کوئی ایک فرد بھی دکھی ہوا تو تمہاری خیرنہیں‘‘۔
کس شیر کی آمد ہے کہ رن کا نپ رہا ہے
رن ایک طرف چرخ، کْہن کانپ رہا ہے