خارجہ پالیسی میں تبدیلی کا نعرہ 

337

zc_ArifBeharپاکستان بھی اپنی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر کھڑا ہے۔ اسے کس سمت، کس رفتار اور کن دوستوں کے ساتھ آگے بڑھنا ہے یہ سب کچھ طے ہونے کے لمحات آن پہنچے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر نے پاکستان کو بدترین حقارت کا احساس دلایا۔ طعنہ زنی، کوسنے اور تنقید کے نشتروں نے پاکستان کے پالیسی سازوں کو بہت کچھ سوچنے پر مجبور کیا۔ 1971 میں جب پاکستان دولخت ہوا تھا تو اس ذلت اور ضعف نے طاقت میں ڈھلنے کا فیصلہ کیا تھا تب پاکستان نے بطور ریاست ایٹمی طاقت بننے کا راستہ اختیار کیا تھا۔ ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر بھی پاکستان سے اس سے کم تکلیف دہ لمحہ نہیں یہ بات خوش آئند ہے کہ اسلام آباد میں پاکستانی سفیروں کی تین روزہ کانفرنس کے اختتام پر وزیر خارجہ خواجہ آصف نے اعلان کیا کہ خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی جائی گی اور یہ کہ پاکستان اسی کے ساتھ آگے چلے گا جو ملک اس کی قربانیوں کا اعتراف کرے گا۔ پاکستانی قوم قربانی کا بکرا نہیں بنے گی جن ملکوں کے ساتھ تعلقات میں دراڑیں ہیں انہیں دور کریں گے۔ اس اعلان کے ساتھ ہی وہ امریکا کے بجائے چین روانہ ہوگئے جہاں ان کا زبردست استقبال ہوا۔ خواجہ آصف نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی تقریر کے بعد پیدا ہونے والی صورت حال پر چینی حکام سے مشاورت کی۔ اس کے بعد وہ دوسرے علاقائی ملکوں ایران اور ترکی بھی گئے۔



ڈونلڈ ٹرمپ کی شعلہ نوائی کی چھڑی لہرانے کے بعد امریکا کی نائب وزیر خارجہ گاجر اور مرہم لیے پاکستان آنا چاہتی تھیں مگر پاکستان نے ان کی میزبانی سے معذرت کی کیونکہ جذبات کا آتش فشاں ابھی پوری طرح لاوہ اُگل رہا تھا۔ پاکستان کی خارجہ پالیسی میں تبدیلی کی ضرورت عرصہ دراز سے محسوس کی جا رہی تھی۔ ہم ابھی تک سردجنگ کے زمانے کی خارجہ پالیسی کو سینے سے لگائے پھر رہے تھے یہ جانے بوجھے بغیر کہ دنیا بدل گئی وقت اور حالات کے تقاضے تبدیل ہوگئے۔ عالمی ضرورتیں اور سوچ کے زاویے تغیر پزیر ہیں۔ اس سب کے باوجود پاکستان کے پالیسی ساز ’’زمیں جنبد نہ جنبد گل محمد‘‘ کے مصداق اپنے پرانے مقام سے ایک انچ سرکنے کو تیار نہ تھے۔ سرد جنگ ختم ہو نے کے بعد امریکا نے جس طرح پاکستان سے نظریں پھیر لی تھیں اس نے پاکستان کو ایک عجیب مخمصے کا شکار بنا ڈالا تھا۔ امریکا کو دوست سمجھے یا دشمن، خنجر سمجھے یا مرہم؟ کچھ سمجھائی نہ دے رہا تھا۔ یہ حقیقت تھی کہ خطے میں امریکا اور پاکستان کے مفادات کے گھوڑے متضاد اور مخالف سمتوں میں دوڑ رہے تھے۔ دونوں کے مفادات میں گہرا تضاد رونما ہو چکا تھا۔ اس کی بنیادی وجہ امریکا کی بھارت اور افغانستان پالیسی تھی۔



چین پاکستان کا ہمہ موسمی دوست ضرور ہے مگر چین کو پاکستان کے مخمصوں کا اندازہ تھا اس لیے وہ ایک حد سے زیادہ اس معاملے میں پاکستان پر اعتماد کرنے سے قاصر تھا۔ دنیا میں بھارت کا جھوٹ ہاتھوں ہاتھ بک رہا تھا اور پاکستان کا سچ مفت میں بھی سننے کو کوئی تیار نہیں تھا۔ یہ وہ مقام تھا جہاں پاکستان کی خارجہ پالیسی میں نئے حالات کے مطابق تبدیلی کی ضرورت کا احساس بڑھتا جا رہا تھا۔ دنیا بھر میں پھیلے پاکستان کے سفیر اور سفارتی عملہ صرف تنخواہیں اور مراعات وصول کرنے تک محدود تھا۔ سفیروں کا پاور ہاوس وزارت خارجہ ہوتی ہے۔ وزارت انہیں جو گائیڈ لائن دیتی ہے سفیر وہی پالیسی لے کر چلتے ہیں۔ جب وزارت خارجہ میں ہی ایڈہاک ازم ہو اورکسی مستقل پالیسی کے بجائے معاملات روزانہ کی بنیاد پر چلائے جاتے ہوں تو ایسے میں سفیروں کو بھی دن گزارنے کی لت پڑ جا نا یقینی ہوتا ہے۔ اب وقت اور حالات نے ہمیں اپنی خارجہ پالیسی پر نظر ثانی پر مجبور کیا تو تبدیلی کے اس عمل کو پر لگا کر اُڑانا چاہیے۔ ہم دنیا کی معاشی ضرورتیں اور سیاسی مصلحتیں اور سوچ کے انداز نہیں بدل سکتے۔ ہم بھارت کی منڈی کا متبادل نہیں بن سکتے، افغانستان کی طرح راہ کی گھاس نہیں بن سکتے، ایران اور شمالی کوریا کی طرح سب کچھ بھسم کردینے کا دعویٰ بھی نہیں کر سکتے مگر اپنی حیثیت اور جغرافیائی اور سیاسی اہمیت کے مطابق دنیا میں اپنا مقام بنا سکتے ہیں۔ ایسا بھی نہیں کہ سارے جہان کی غلطیاں ہماری خارجہ پالیسی میں سمٹ آئی ہیں بلکہ حقیقت یہ ہے کہ چند بااثر ملکوں کی عینک کا نمبر بھی بدل گیا ہے۔