مال دولت اور چمک کی کامیابی

711

Edarti LOHبالآخر میاں نواز شریف کے حلقہ انتخاب سے ان کی خالی کردہ نشست پر ان ہی کی اہلیہ کلثوم نواز جیت گئیں۔ اس ضمنی انتخاب کے بارے میں یہ رائے پہلے سے مستحکم ہوچکی تھی کہ مسلم لیگ ن ہی یہاں فاتح ہوگی۔ لیکن انتخاب کے بعد جو تجزیے اور نتائج اخذ کیے جارہے ہیں ان کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔ زیادہ تر کا تعلق تجزیہ کاروں اور سیاسی رہنماؤں کی خواہشات سے ہے۔ مثال کے طور پر مسلم لیگ ن نے اس کامیابی کا مطلب یہ نکالا ہے کہ عدالت عظمیٰ کا فیصلہ غلط ثابت ہوگیا حالانکہ عدالتی فیصلہ کسی اور حوالے سے آیا تھا اور اس بنیاد پر یہ ضمنی انتخاب تھا ہی نہیں کہ فیصلہ درست تھا یا غلط۔ اسی طرح پی ٹی آئی اور میڈیا والے یہ تجزیہ کررہے ہیں کہ مسلم لیگ ن کے ووٹوں میں 30 ہزار کی کمی ہوگئی ہے جو اس کی شکست کا اظہار ہے۔ حالانکہ تقریباً دس فی صد ووٹ پی ٹی آئی کے بھی کم ہوئے ہیں اور مسلم لیگ کے تقریباً 25 فی صد ووٹ کم ہوئے ہیں۔ دونوں کا الگ الگ سبب ہے۔ ن لیگ کے ووٹوں میں کمی کا سبب تو یہ بھی ہے کہ یہ ضمنی انتخاب تھا اور اس میں پولنگ کم ہی ہوتی ہے لیکن جتنی ہوئی عام ضمنی انتخاب کے مقابلے میں نسبتاً زیادہ ہوئی ہے۔ اسی طرح مسلم لیگ ن کے سربراہ خود مقابلے میں نہیں تھے اور صوبائی اسمبلی کا انتخاب بھی ساتھ میں نہیں ہورہاتھا اس لیے جوش جذبہ اور کارکنوں کا سرگرم ہونا جیسے عوامل نہیں تھے۔اس انتخاب میں ملی مسلم لیگ اور لبیک پارٹی نے بھی حصہ لیا اور تقریباً 12 ہزار ووٹ دونوں پارٹیاں لے گئیں اور یہی فرق مسلم لیگ ن اور پی ٹی آئی کے درمیان تھا۔



عام انتخابات یا ضمنی انتخابات میں کسی پارٹی کا جیت جانا یا ہار جانا کوئی خاص بات نہیں لیکن اب جب کہ حکومت، عدالت، طاقت کے مراکز ،تمام ادارے، سیاسی جماعت ،سیاسی رہنما سب ہی انتخابی نظام کی اصلاح کی بات کررہے ہیں۔ چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی جمہوریت کے خلاف سازش کی نشان دہی کررہے ہیں۔ وزیر داخلہ احسن اقبال اس کی تصدیق کررہے ہیں، عدالت عظمیٰ بھی معاملات دستور کے مطابق چلانے پر زور دے رہی ہے یہاں تک کہ آرمی چیف نے بھی اس حوالے سے اشارہ دیا تھا کہ اداروں کو دائروں میں رہنا ہوگا۔ سب آئین کی پاسداری کی بات کررہے ہیں تو پھر اس ایک ضمنی انتخاب میں آئین، قانون، رواداری، عدالتی احکامات، الیکشن کمیشن کے ضوابط، اخلاقیات وغیرہ سب کے پرخچے کیسے اڑادیے گئے۔ کہا جارہاہے کہ یہ عوام کا فیصلہ ہے لیکن یہ سب جانتے ہیں کہ میڈیا انتخابی مہم اور مختلف اداروں کے ذریعے اربوں روپے لٹادیے گئے۔ حکمران پارٹی کے وزرا کی فوج ایک حلقے میں موجود تھی، اپوزیشن کا الزام ہے کہ اگست اور ستمبر میں یہاں ڈیڑھ ارب روپے کے ترقیاتی کام کرادیے گئے۔ انتخابی مہم کے حوالے سے الیکشن کمیشن کے ضابطوں کی دھجیاں اڑادی گئیں، اخراجات کی کوئی حد ہی نہیں رہی، لیکن الیکشن کمیشن اسے نہیں روک سکا۔ یہ اخراجات صرف حکمران جماعت کی طرف سے نہیں ہوئے بلکہ پی ٹی آئی نے بھی ہر طرح سے چمک دکھائی۔ اس اعتبار سے یہ ضمنی انتخاب سیاسی نہیں تھا بلکہ یہاں مال دولت، طاقت اور اختیارات کے درمیان مقابلہ تھا۔ زیادہ مال اور اختیارات استعمال کرنے والے نے جیت لیا۔ جو لوگ یہ کہہ رہے ہیں کہ عوام نے عدالت عظمیٰ کا فیصلہ مسترد کردیا ہے تو وہ ایک اعتبار سے توہین عدالت کے بھی مرتکب ہورہے ہیں اور عوام کو دھوکا بھی دے رہے ہیں۔ عدالتوں کے فیصلے عدالتوں ہی میں مسترد ہوتے ہیں سڑکوں پر تو سیاسی فیصلے ہوتے ہیں۔



حالانکہ وہ بھی پارلیمنٹ میں ہونے چاہییں۔ در حقیقت اخلاقی اعتبار سے تو زوال آگیا ہے۔ غلط بیانیوں اور جھوٹی گواہیوں، ثبوت چھپانے، خاندانی دولت کے ذرائع بتانے سے انکار یا غلط اعداد و شمار بتانا کیا یہ سب بددیانتی نہیں ہے؟ لیکن یہ سب کام کرنے والے حکمران محض ایک ضمنی الیکشن جیت کر یہ ثابت کرنا چاہ رہے ہیں کہ ہم پاک صاف ہیں اب ہم پر لگنے والے تمام الزامات دھل گئے ہیں۔ ہاں ایسا ہی ہے۔ روپے کی ریل پیل اور چمک نے سب کچھ چھپادیا ہے۔ اب تجزیے بھی اسی طرح ہورہے ہیں۔ اس انتخاب کا ایک اور پہلو یہ بھی ہے کہ پی ٹی آئی کی رہنما یاسمین راشد الیکشن کمیشن کے خلاف عدالت میں جائیں گی۔ ان کا خیال ہے کہ انتخابی نتائج پر ان 29 ہزار ووٹوں کا سایہ ہے جن کے خلاف پی ٹی آئی نے درخواست دائر کر رکھی ہے ان کا کہناہے کہ ن لیگ اور الیکشن کمیشن نے دھاندلی کرائی ہے۔ گویا ان کے ووٹوں میں کمی اس وجہ سے ہوئی ہے لیکن اگر انہیں اپنے سابقہ ووٹ بھی مل جاتے تو بھی وہ جیت نہیں سکتی تھیں۔ لہٰذا اب ایک بار پھر ’’میں نہ مانوں‘‘ اور دھرنوں کی طرف چلیں گے بقیہ چھ سات ماہ تو بچے ہیں پھر نئے الیکشن ۔۔۔ پاکستانی عوام سنجیدہ سیاسی جماعتوں اور اگر میڈیا میں رجل الرشید ہیں تو وہ بھی اس بات پر غور کریں کہ خرابی کہاں ہے۔ کب تک افراد اور پیسوں کی غلامی چلتی رہے گی۔ قانون کب بروئے کار لایاجاسکے گا۔ انتخابی نظام کی اصلاح کسی حکمران جماعت کی ترجیحات ہے بھی نہیں۔ کون سی جماعت چاہے گی کہ افراد کے بجائے پارٹی منشور کی اہمیت ہو اور کون سا لیڈر چاہے گا کہ معاملات اس کے ہاتھ سے نکل کر قانون کے ہاتھ میں چلے جائیں۔ اس کا حل طاقت ور الیکشن کمیشن ہے لیکن طاقت کے رکھوالے الیکشن کمیشن کو یہ طاقت دینے پر تیار نہیں۔ 2018 کا انتخاب بھی اب دور نہیں لیکن انتخابی فہرستیں ، الیکٹرانک ووٹنگ، دھاندلی سے پاک الیکشن کے انتظامات، حلقہ بندیاں، غیر جانبدار انتخابی عملہ وغیرہ یہ سب اب تک صرف مباحثوں اور خیالات تک محدود ہیں جس دن یہ حقیقت بنیں گے اس دن تبدیلی کا آغاز ہوگا۔ ہماری نظر میں موجودہ نظام کی وجہ سے بڑی نظر آنے والی پارٹیوں میں سے کوئی یہ کام نہیں چاہتی۔ورنہ متناسب نمائندگی کا وعدہ بیشتر پارٹیوں کے منشور میں رہا ہے لیکن حکومت میں آنے کے بعد سب بھول جاتے ہیں۔ بلکہ بھولتے نہیں اچھی طرح جانتے ہیں کہ متناسب نمائندگی کا نظام ان کی خاندانی سیاست کا خاتمہ کردے گا۔