ہندوستانی مسلمانوں کی حالت زار کا ذمے دار کون؟

898

zc_Jilaniہندوتا کا نعرہ لگانے والے نریندر مودی کے دور میں ہندوستانی مسلمانوں کی حالتِ زار دیکھ کر مجھے انڈین یونین مسلم لیگ کے صدر قائد ملت محمد اسمٰعیل صاحب سے 1962میں دلی میں وہ ملاقات یاد آگئی جب وہ تیسری بار لوک سبھا کے انتخاب جیت کر آئے تھے۔ اسمٰعیل صاحب 1920سے مسلم لیگ سے وابستہ تھے، قیام پاکستان کے بعد انہوں نے 1952میں انڈین یونین مسلم لیگ کی داغ بیل ڈالی تھی۔ جب میں نے ان سے پوچھا کہ انڈین یونین مسلم لیگ کے قیام کا اصل مقصد کیا تھا تو ایک لمبی آہ بھر تے ہوئے انہوں نے جواب دیا کہ تھا کہ قیام پاکستان کے بعد ہندوستانی مسلمان بے سہارا رہ گئے تھے اور ان پر ملک توڑنے کا الزام عام تھا اور ہر سو انہیں تاریکی ہی تاریکی نظر آتی تھی۔ میں نے سوال کیا کہ کیا مسلم لیگ کی مرکزی قیادت نے اس صورت حال کی پیش بینی نہیں کی تھی؟ انہوں نے جواب دیا کہ اس زمانے میں حالات نے اتنی تیزی سے پلٹا کھایا تھا کہ ا س ہما ہمی میں اس مسئلے پر غور نہیں کیا گیا کہ ہندوستان میں رہ جانے والے مسلمانوں کا کیا بنے گا، جن کے مسائل کے لیے بنیادی طور پر پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا، ورنہ تو جن علاقوں میں پاکستان قائم ہوا وہاں تو مسلمان پہلے ہی سے اکثریت میں تھے۔ قائد ملت کا کہنا تھا کہ یہ عام خیال تھا کہ ایک طاقت ور پاکستان ، ہندوستانی مسلمانوں کے تحفظ کی ضمانت ہوگا۔
یہ صحیح ہے کہ دونوں ملکوں میں اقلیتوں کے مسئلے کے بارے میں 1950ء میں نہرو لیاقت پیکٹ ہوا تھا جس کے تحت اقلیتوں کے حقوق کے تحفظ کے لیے اقلیتی کمیشن مقرر کیے گئے تھے لیکن اب کس کو یہ معاہدہ یاد ہے؟۔ اور اقلیتو ں کا کون پرسان حال ہے؟
نریندر مودی کی حکومت نے ہندوستانی مسلمانوں کو منظم طریقے سے تنہا کر کے رکھ دیا ہے۔ لوک سبھا میں ان کی کوئی آواز نہیں رہی ہے اور ریاستی انتخابات کی شطرنج پر انہیں اس بُری طرح سے شہہ مات دی ہے کہ ان کا کوئی نام لیوا نہیں۔ تازہ مثال اتر پردیش ریاستی اسمبلی کے انتخابات کی ہے جہاں 403اراکین کی اسمبلی میں صرف 25مسلمان امیدوار جیتے ہیں۔ جب کہ اتر پردیش میں مسلمانوں کی تعداد 3کروڑ 84لاکھ ہے۔ مودی کی حکمت عملی یہ تھی کہ کسی مسلم امیدوار کو کھڑا نہ کیا جائے اور صرف ہندو ووٹروں پر زور دیا جائے۔ مسلمانوں کو یکسر نظر انداز کردیا گیا۔



گاؤ کُشی کے خلاف مہم کے بل پر مسلمانوں کو ہراساں اور قتل کرنے کا ایسا سلسلہ شروع کیا گیا ہے کہ ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔ اب تک گؤ رکھشکھوں کے ہاتھوں25 مسلمان ہلاک ہو چکے ہیں۔ ’’گھر واپسی‘‘ کا نعرہ لگا کر دیہات میں اقتصادی طور پر کمزور مسلمانوں کو ہندو مت میں دھکیلا جا رہا ہے۔ جب سے مودی سرکار آئی ہے اتر پردیش میں 425 سے زیادہ مسلم گھرانوں کو ہندو بنایا گیا ہے۔ ویسے یہ سلسلہ 2003 سے جاری ہے اور 27ہزار مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو مت میں دھکیلا گیا ہے۔ نریندر مودی کے گرو، گول والکر کا علی الا علان یہ کہنا تھا کہ مسلمان اور عیسائی باہر سے آئے ہیں ان کو ہندوستان میں رہنے کا کوئی حق نہیں انہیں اس ملک سے نکلنا ہوگا یا پھر انہیں ہندو مت اختیار کرنا ہوگا۔

دھرم جا گرن سمیتی نے اعلان کیا ہے کہ وہ 31دسمبر 2021تک ہندوستان کے تمام مسلمانوں اور عیسائیوں کو ہندو بنا کر پورے ملک کو ہندو راشٹر( ہندو قوم) میں تبدیل کر دے گی۔ وشوا ہندو پریشد کے چمپت رائے کاکہنا ہے کہ ہندوستان میں اوریجنل مسلمان بہت کم ہیں اکثریت ان کی ہے جن کے آباو اجداد ہندو تھے جنہیں جبراً مسلمان بنایا گیا تھا۔ چمپت رائے کہ کہنا ہے کہ 1966ء سے اب تک 6لاکھ مسلمانوں کو ہندو دھرم میں لایا گیا ہے۔
تامل ناڈو کے بھارتیا جنتا پارٹی کے رہنما سبرامنیم سوامی نے گزشتہ سال مارچ میں ایک تقریرمیں کہا تھا کہ مندروں کی طرح مساجد ، مقدس جگہیں نہیں ہیں اس لیے انہیں مسمار کیا جا سکتا ہے ۔ اس کے دوروز بعد ہریانہ میں بھارتیا جنتا پارٹی کے وزیر اعلیٰ نے اعلان کیا کہ ہندوؤں کی مقدس کتاب بھگوت گیتا کی تعلیم پوری ریاست میں لازمی قرار دی جائے گی ۔

مارچ 2005ء میں آزادی کے بعد پہلی بار ہندوستان میں من موہن سنگھ کی حکومت نے پہل کی تھی اور ہندوستانی مسلمانوں کی سماجی، اقتصادی اور تعلیمی شعبوں میں صورت حال کی تحقیقات کے لیے، جسٹس راجندر سچر کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی تھی۔ سچر کمیٹی نے 2006ء میں اپنی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش کی تھی۔ اس رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ ملک کی بیش تر ریاستوں میں مسلمانوں کی حالت اتنہائی پسماندہ دلتوں سے بھی بد تر ہے اور مسلمان سماجی، اقتصادی اور تعلیمی میدان میں محرومیوں کے شکار ہیں۔ یونیورسٹیوں سمیت تعلیمی اداروں میں مسلمانوں کو بہت کم داخلے ملتے ہیں، مرکزی اور ریاستی ملازمتوں، ریلوے، دفاعی اداروں اور پولیس میں روزگار کے حصول میں مسلمان بہت پیچھے ہیں۔ انڈین ایڈمسٹریٹو سروس میں مسلمانوں کی نمائندگی بہت کم ہے۔
یہی صورت حال، قیام پاکستان سے پہلے مسلمانوں کی تھی جس کے تدارک کے لیے پاکستان کا مطالبہ کیا گیا تھا۔ سچر کمیٹی کی رپورٹ پارلیمنٹ کے سامنے پیش ہوئے 10 سال سے زیادہ ہوگئے لیکن ابھی تک مسلمانوں کی حالت زار بہتر بنانے کے لیے کوئی ٹھوس قدم نہیں اٹھایا گیا ہے۔



مودی کے ہندوتوا کے اس دور کی دھند میں لوگ بھول جاتے ہیں کہ نہرو کے سیکولر دور میں بھی مسلمان ترقی اور خوش حالی کی اس منزل سے ہم کنار نہیں ہوئے تھے جس کی آزاد ہندوستان میں توقع تھی۔ نہرو کے دور میں چنیدہ مسلمانوں کو علامتی طور پر اہم عہدے دیے گئے لیکن ووٹوں کے حصول کے لیے مسلمانوں کی خوشنودی کا اظہار کیا گیا لیکن ان کے مسائل کے حل اور ان کے حقوق کے تحفظ کے لیے ٹھوس اقدامات نہیں کیے گئے، بلکہ اس دور میں ہندو قوم پرست جن سنگھی منظم طور پر مسلمانوں کی اقتصادی قوت کو تباہ کرنے پر تلے ہوئے تھے۔ اُن شہروں میں جہاں مسلمانوں کی صنعتیں تھیں، مسلمانوں کے خلاف فسادات کی آگ بھڑکائی گئی۔ علی گڑھ میں تالے کی صنعت تباہ کرنے کے لیے خونریز فسادات ہوئے جن کی ٓآگ نے مسلم یونیورسٹی کو بھی اپنی لپیٹ میں لے لیا اور یونیورسٹی کا اقلیتی کردارختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ فیروز آباد میں فسادات نے چوڑیوں کی صنعت کو کرچی کرچی کر دیا۔ میرٹھ میں قینچیوں اور چھریوں کی صنعت کو تباہ کرنے کے لیے فسادات برپا کیے گئے اور مراد آباد میں برتنوں کی صنعت مسلم کُش فسادات کی بھینٹ چڑھ گئی۔
بہرحال اس وقت نریندر مودی کے دور میں مسلمانوں اور دوسرے اقلیتوں میں جو خوف اور اپنے تحفظ کے بارے میں جو تشویش ہے اس کا کھلم کھلا اظہار ہندوستان کے سابق نائب صدر حامد انصاری نے اپنے عہدے سے سبک دوش ہونے سے پہلے ایک تقریب سے خطاب میں کیا۔ انہوں نے اس پر سخت افسوس کا اظہار کیا کہ آج کل ہندوستانی اقدارنا پید ہوتی جارہی ہیں او ر بہت سے شہریوں سے ان کی ہندوستانیت کا سوال کیا جارہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سیکولرازم کی تجدید اس وقت سب سے بڑا چیلنج ہے اور یہ بات باعث تشویش ہے کہ مسلمان ا پنے آپ کو غیر محفوظ محسوس کرتے ہیں اور ان میں خوف و ہراس بڑھ رہا ہے۔ حامد انصاری اکیلے نہیں ہیں جنہوں نے مسلمانوں میں بے چینی اور خوف ہراس کے احساس کی بات کہی ہے۔ کانگریس کی صدر سونیا گاندھی سمیت کئی ممتاز سیاست دانوں نے مسلمانوں اور عیسائیوں میں بڑھتے ہوئے خوف کے رجحان کے بارے میں خبردار کیا ہے۔
اس وقت ہندوستان میں مسلمانوں کی تعداد 18 کروڑ ہے، یہ کوئی چھوٹی اقلیت نہیں ہے۔ اتنی بڑی تعداد اگر خوف و ہراس میں گھری رہے تو یہ بات یقیناًباعث تشویش ہے۔
سوال یہ ہے کہ اس صورت حال کا ذمے دار کون ہے؟ بلاشبہ ہندوستان کی حکومت پر اولین ذمے داری ہے کہ وہ محض ’’سب کا ساتھ سب کا وکاس( ترقی) کا نعرہ لگا کر مسلمانو ن کو دھوکا نہیں دے سکتے۔ یہ مودی حکومت کا بنیادی فرض ہے کہ وہ ہندوستان کے سارے عوام، مسلم،ہندو، سکھ،عیسائی، بودھوں اور جینوں کے حقوق کا یکساں تحفظ کرے۔



پاکستان کے سیاست دانوں اور عوام پر بھی یہ لازم ہے کہ وہ اپنے دل کو ٹٹولیں کہ انہوں نے اپنا الگ ملک تو حاصل کر لیا۔ کیا ان کا فرض نہیں کہ وہ ہندوستانی مسلمانوں کے بارے میں بھی سوچیں ۔ کیا وہ ہندوستان کے آزار میں گرفتار مسلمانوں کو آسانی سے فراموش کر سکتے ہیں جنہیں وہ ہندوستان میں چھوڑ آئے؟ کیا وہ کسی صورت بھی ان کے مونس و غم خوار نہیں بن سکتے اور کیا ہندکے مسلمانوں کے آزار کا ان کے پاس کوئی مرہم نہیں ہے ؟۔ نعمتِ زیست کا یہ قرض چکے کا کیسے ؟
اور احتساب بھی ہوگا، لوٹی ہوئی قومی دولت واپس پاکستان بھی لائی جائے گی۔ اس سلسلے میں ہر سطح پر عوام کا تعاون درکار ہوگا اس لیے ضروری ہے کہ اب شخصیت پرستی اور خاندانی اجارہ داریوں کے چنگل سے چھٹکارا حاصل کیا جائے، مملکت پاکستان نہ تو ’’ہاؤس آف شریف‘‘ اور نہ ہی ’’ہاؤس آف زرداری‘‘ کی جاگیر ہے، یہ سرزمین 20 کروڑ عوام کی ہے، پاکستان اندرونی اور بیرونی خطرات سے دوچار ہے، خطے کے بدلتے ہوئے حالات پاکستان کو خارجہ محاذ پر بے پناہ مسائل سے دوچار کرسکتے ہیں، اس سلسلے میں ’’Global Trends 2025‘‘ کے عنوان سے امریکی سی آئی اے کی رپورٹ کا صفحہ نمبر 81 اور 82 پڑھا جاسکتا ہے جس میں یہ کہا گیا ہے کہ ’’آنے والے دنوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان سرحدی جھڑپیں اس حد تک بڑھ جائیں گی کہ اس خطے میں سنگین جنگ جیسے حالات پیدا ہوجائیں گے اور پھر اچانک افغانستان اور پاکستان کے مغربی حصے کی طرف سے افغانستان اور خیبرپختونخوا کے پشتونوں پر مشتمل ایک نئے ملک کی بنیاد رکھنے کی تحریک سر اٹھائے گی‘‘ ان حالات میں بلوچستان کی صورت حال بھی ہمارے سامنے ہے۔ سی پیک کا منصوبہ اور گوادر پورٹ کی اہمیت بھی عالمی قوتوں کو کھٹک رہی ہے، ان تمام حالات میں قومی تقاضا ہے کہ پاکستان میں مضبوط اور مستحکم عوامی حکومت ہو جو داخلی اور خارجی دونوں محاذوں پر اپنا بھرپور کردار ادا کرسکے۔ اب اس کے لیے ضروری ہوگیا ہے کہ ہمارے سیاستدانوں میں بھی ہیرے تلاش کرکے لائے جائیں جو اپنا قومی فریضہ ادا کرسکیں جس میں موروثیت کا کوئی عمل دخل نہ ہو۔ ذرا سوچیے کہ ہمارے ہی ووٹوں سے منتخب ہونے والے عوامی نمائندے ہمارے اوپر اپنی خاندانی اجارہ داری مسلط کرکے اپنی بادشاہت قائم کرلیتے ہیں آخر کیوں؟