پاک بھارت تعلقات کا انجماد

469

zc_ArifBeharبھارت کے وزیر داخلہ راج ناتھ سنگھ جو بلحاظ عہدہ کشمیر میں سرگرم بھارتی فورسز کے سربراہ بھی ہیں نے مقبوضہ جموں وکشمیر کا چار روزہ دورہ کیا۔ وہ پیلٹ گنوں اور گولیوں کا شکار کشمیر یوں کے لیے اب ’’شاخِ زیتون‘‘ لیے پھر تے رہے۔ کشمیریوں کے زخموں کو مندمل کی بات کرتے رہے ان کے ساتھ مذاکرات کرنے کی خواہش کا اظہا رکر تے رہے۔ انہوں نے کشمیر کی خصوصی شناخت کی حامل بھارتی آئین کی شقوں کے معاملے میں کشمیریوں کی سوچ کے احترام کے اعلانات کیے اور کشمیریوں کو سیاحت اور ترقی کے نئے سراب اور خواب دکھا کر واپس چل دیے۔ راج ناتھ سنگھ نے کشمیر کے حوالے سے پانچ نکات کا اعلان کیا جن میں مسائل کا حل ہمدردی روابط، بقائے باہمی، اعتماد سازی اور مستقل مزاجی شامل ہیں۔ راج ناتھ سنگھ نے حریت کانفرنس کو مذاکرات کی باضابطہ دعوت دینے کے امکان کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہم ان سب کا خیر مقدم کریں گے جو ہم سے ملنا چاہتے ہیں۔ راج ناتھ سنگھ جب لفاظی کے ذریعے کشمیریوں کو شاخ زیتون پیش کر رہے تھے عین اس وقت بھی کشمیر کی اعلیٰ ترین قیادت نظر بندی کا سامنا کر رہی تھی۔ کشمیر کی سڑکیں سنسان اور ویران تھیں اور اس کے کئی علاقوں میں نوجوانوں کے لاشے گر رہے تھے اور گھروں میں ماتمی بین ہو رہے تھے۔ کشمیر کے ایک سابق وزیر اعلیٰ غلام نبی آزاد کہہ رہے تھے کہ کشمیر میں حالات نوے کی دہائی سے زیادہ خراب ہیں۔ ایک اور سابق وزیر اعلیٰ فاروق عبداللہ نے راج ناتھ سنگھ کے دورے سے پہلے ہی کہہ دیا تھا کہ دورے سے کچھ برآمد نہیں ہوگا۔ تاہم بھارت کشمیر میں جس قدر بدنام ہو چکا ہے اس کا نتیجہ ہے کہ وہ دنیا کی خاطر ہی سہی کشمیریوں کے لیے نرمی دکھانا چاہتا ہے مگر یہ نرمی نمائشی ہے۔



راج ناتھ سنگھ کی اسی مہم کے دوران بھارتی آرمی چیف جنرل بپن راوت نے کہا کہ مستقل میں کنٹرول لائن پر سرجیکل اسٹرائیکس کا امکان بہت کم ہے۔ مقبوضہ کشمیر کے آئی جی پولیس منیر احمد خان نے مسلح حریت پسندوں سے کہا ہے کہ جو بھی تشدد کا راستہ ترک کرے گا اس کے لیے عزت اور وقار کی زندگی کو یقینی بنایا جائے گا۔ بھارت کے رویے میں تبدیلی کے آثار ہویدا ہیں۔ اس کی کئی وجوہ ہو سکتی ہیں۔ اس کی پہلی وجہ تو یہی ہے کہ کشمیری نوجوان بھارت کی کسی بھی تدبیر کے آگے جھکنے سے انکاری ہیں۔ بھارت کا ظلم ان کے جذبات کو بھڑکاتا اور کشمیر کے حالات کے لیے آگ پر پٹرول کا کام دیتا ہے۔ طاقت اور جبر کی بھارتی پالیسی کشمیر میں بری طرح ناکام ہو چکی ہے۔ اس کی دوسری وجہ کشمیر کی صورت حال کے باعث بھارت کی عالمی سطح پر بدنامی ہے۔ کشمیر پر ہونے والے مظالم نے بھارت کی امن پسندی اور سیکولر روایات کا کھوکھلا پن زمانے پر عیاں کر دیا ہے۔ اس کی تیسری وجہ چین کا غیر معمولی دباؤ ہوسکتا ہے۔ چین نے برکس اعلامیے میں بھارتی پسند کے چند الفاظ شامل کرنے اسے بے سبب ’’فیس سیونگ‘‘ نہیں دی ہوگی بلکہ گمان غالب ہے کہ اس کے بدلے پاکستان کے ساتھ جامع مفاہمت اور کشمیر میں ظلم کی پالیسی نرم کرنے کی ضمانت بھی حاصل کی ہوگی۔ چین جہاں امریکا کو نظر انداز کرتے ہوئے افغان مسئلے کو اپنے انداز سے حل کرنے کی راہ پرچل نکلا ہے وہیں کشمیر اور پاک بھارت معاملات کو بھی اب امریکا کے حوالے کیے رکھنے کے بجائے اس معاملے کو اپنے انداز سے حل کرنے کی راہ اختیار کر تا نظر آرہا ہے۔ اگر یہ بات درست ہے تو پھر بھارت کے اخلاص کے مراحل اور امتحانات ابھی باقی ہیں۔ بھارت کا ماضی بتا رہا ہے کہ وہ کشمیر پر ہٹ دھرمی کے سوا کسی آپشن پر یقین نہیں رکھتا۔ بھارت کی اسی منجمد اور ہٹ دھرمی پر مبنی سوچ کی صلیب پر کشمیر ستر برس سے جھولتا چلا جا رہا ہے۔
وزیر اعظم پاکستان شاہد خاقان عباسی نے غیر ملکی میڈیا سے وابستہ صحافیوں کے ایک گروپ کے ساتھ بات چیت کرتے ہوئے پاکستان اور بھارت کے تعلقات کی موجودہ کیفیت کو منجمد قرار دیا ہے۔ گویا دونوں ملکوں کے تعلقات جہاں تھے جیسے تھے کہ بنیاد پر فریز ہو کر رہ گئے ہیں ان میں مزید ابتری یا بہتری کی فی الحال کوئی صورت نہیں۔ شاید یہی وجہ ہے کہ اس وقت ٹریک ٹو ڈپلومیسی والوں کا کاروبار پوری طرح مندی کا شکار ہے۔ بین الاقوامی پروجیکٹس کے طور پر پاک بھارت امن کے نام پر کام کرنے والی این جی اوز غیر فعال ہو کر رہ گئی ہیں۔ دبئی، نیپال، لندن، بنکاگ، بلجیم اور واشنگٹن میں پیپل ٹو پیپل رابطوں کے نام پر پُرتعیش محفلوں کا دھندہ تھم سا گیا ہے۔ فی زمانہ جنگ ہی کاروبار نہیں بلکہ امن بھی ایک صنعت بن گیا ہے۔ دلچسپ بات یہ جنگوں کے لیے اسلحہ بیچنے والے اور طبل جنگ بجانے والے بھی وہی ہیں اور پھر امن کے نام پر محفلیں سجانے اور امن کا راگ الاپنے والے بھی وہی ہیں۔ اس تضاد کو کیا نام یا جائے؟۔



نوے کی دہائی سے شروع ہونے والا پاک بھارت امن عمل دھوم دھڑے سے دو دہائیوں تک جا ری رہا۔ مقصد یہ بتایا گیا کہ دونوں ملکوں کی حکومتیں حالات کی قید میں اور مصلحت کی زنجیروں میں جکڑی ہوئی ہیں۔ عوام اور فوجی اداروں کا دباؤ انہیں بڑے فیصلوں سے روک رہا ہے۔ خارجہ وزارتوں کے روایتی انداز اور بوسیدہ فائلیں تاریخ کا بوجھ بن کر دونوں کو نئے راستوں کی تلاش سے روکتی ہیں۔ اس لیے سفارتی کاری کے غیر روایتی اور جدید طریقوں کو آزماتے ہوئے مسائل کو حل کرنا چاہیے۔ پہلے عوام کو قریب لانا چاہیے جب امن عوام کی ضرورت بنے گا تو وہ خود اپنی حکومتوں پر مفاہمت اور مصالحت کے لیے دباؤ ڈالنا شروع کریں گے۔ اس عوامی دباؤ کا مقابلہ افواج اور خارجہ امور سے متعلق روایتی چینلوں کے بس میں نہیں ہو گا اور اس طرح خطے میں امن آئے گا۔ برصغیر کی حد تک یہ فلاسفی قطعی ناکام ٹھیری۔ دو عشروں تک عوامی رابطوں اور میلے ٹھیلوں نے امن کے نام پر کاروبار کرنے والے ایک مراعات یافتہ کلاس پیدا کی۔ کچھ لوگوں کو سیرو تفریح کا موقع بھی ملا اور کچھ کو معاشی فوائد بھی ملے مگر پاک بھارت تعلقات کا پرنالہ وہیں رہا۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی پاک بھارت تعلقات کشیدہ ہوئے تو امن کا کاروبار کرنے والے غائب ہو جاتے رہے کیونکہ یہ اچھے موسموں میں اُڑانیں بھرنے اور چہچہانے کے عادی پرندے ہوتے ہیں اب صورت حال کی عکاسی ایک جملے میں وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی نے یہ کہتے ہوئے کی کہ بھارت کے ساتھ تعلقات فی الحال منجمد ہیں۔ دنیا اگر تعلقات کی اس برف کو پگھلانے میں دلچسپی رکھتی ہے تو پھر پاک بھارت امن عمل کو این جی اوز کو ٹھیکے پر دینے کے بجائے اقوام متحدہ کی سطح پر کام کیا جانا چاہیے۔ پاک بھارت تعلقات حد درجہ اُلجھے ہوئے ہیں اور کشمیر ان تعلقات کا نیوکلیس ہے۔ اس اُلجھے ہوئے معاملے کو سلجھانا کسی پروجیکٹ ڈائر یکٹر یا کورآرڈینیٹر اور غیر سرکاری تنظیم کے بس کا روگ نہیں اس کے لیے اقوام متحدہ کو بطور ادارہ یا سلامتی کونسل کے مستقل ارکان کو آگے آنا ہوگا۔