حُرمتِ عدالت 

340

zcl_muftiMuneebآج کل وطنِ عزیز میں صبح وشام معزول وزیرِ اعظم نواز شریف کے حوالے سے توہینِ عدالت کی دُہائی دی جارہی ہے، ان میں پیپلز پارٹی بھی شامل ہے، جو آج تک ذوالفقار علی بھٹو کی سزائے موت کو ’’عدالتی قتل‘‘ قرار دے رہی ہے، اس کے الزامی معنی ہیں: اعلیٰ عدلیہ کے ججوں نے ظالمانہ فیصلہ کرکے قتل کردیا، ورنہ وہ باعزت رہائی کے حقدار تھے۔ اس سے قطع نظر کہ عدالتی فیصلہ صحیح تھا یا غلط، یہ ریمارکس کس زُمرے میں آئیں گے۔ نیب عدالت نے جناب زرداری کو باعزت بری کیا تو زندہ باد، ہائی کورٹ میں اپیل کردی تو مردہ باد۔ اسی طرح جنابِ عمران خان نیب میں شریف فیملی کے پیش نہ ہونے کو توہینِ عدالت قرار دے رہے ہیں، لیکن وہ خود جس عدالت کو مطلوب ہیں، وہاں پیش نہیں ہو رہے، الیکشن کمیشن کے لتّے لے رہے ہیں۔ لاہور کے انتخابی جلسے میں جناب خان نے کہا: آپ لوگ عدلت عظمیٰ کے ساتھ کھڑے ہوں اور پی ٹی آئی کو ووٹ دیں، اس کے معنی یہ ہوئے کہ عدلت عظمیٰ کا بھی کوئی پولیٹیکل ایجنڈا ہے، یہ انداز درست نہیں ہے۔ الغرض ایک ہی فعل ایک کے لیے عیب اور دوسرے کے لیے افتخار ہے، شاعر نے کہا ہے:
تمہاری زلف میں پہنچی تو حُسن کہلائی
وہ تیرگی جو مرے نامۂ سیاہ میں تھی
سیاست دانوں کے ان رویوں سے قطع نظر ہم اس مسئلے کا شرعی پہلو سے جائزہ لے رہے ہیں، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ’’(اے نبی کریم!) تمہارے ربّ کی قسم !وہ مومن نہیں ہوسکتے تاوقتیکہ آپ کو باہمی تنازعات میں حاکم نہ مان لیں، پھر آپ کے فیصلے پر اپنے دل میں کوئی تنگی محسوس نہ کریں اور (اُسے) خوش دلی سے تسلیم کرلیں، (النساء: 65)‘‘۔ رسول اللہ ؐ کی یہ خصوصیت ہے کہ آپ کے فیصلوں کو صرف قانوناً ماننا ہی کافی نہیں، بلکہ انہیں خوش دلی سے قبول کرنا ایمان کے لیے شرطِ لازم ہے، امام رازی اس آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں: ’’کیوں کہ رسول اللہ ؐ کے ہر فیصلے کو دل وجان سے تسلیم کرنا ہر مسلمان پر لازم ہے‘



‘۔ رسول اللہ ؐ کا فیصلہ وحیِ ربانی کے تابع ہے اور درحقیقت یہی اللہ کا فیصلہ ہے، اس آیت کے شانِ نزول کی متعدد روایات میں سے ایک یہ ہے:
’’ایک منافق اور یہودی کا جھگڑا ہوگیا، یہودی نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان ابوالقاسم ؐ فیصلہ کریں گے اور منافق نے کہا: میرے اور تمہارے درمیان کعب بن اشرف فیصلہ کریں گے، کیوں کہ کعب بن اشرف رشوت خور تھا۔ اس مقدمہ میں یہودی حق پر اور منافق باطل پر تھا۔ چوں کہ میثاقِ مدینہ میں رسول اللہ ؐ کو حاکمِ مدینہ تسلیم کیا جاچکا تھا، اس لیے یہودی یہ مقدمہ آپ کی عدالت میں لے جانا چاہتا تھا۔ اس کے اصرار کے سبب وہ دونوں رسول اللہ ؐ کے پاس گئے، رسول اللہ ؐ نے (شواہد کو دیکھ کر) یہودی کے حق میں فیصلہ کردیا۔ بظاہر کلمہ گو، لیکن درحقیقت منافق اس فیصلہ سے راضی نہ ہوا اور کہا: میرے اور تمہارے درمیان عمر فیصلہ کریں گے، دونوں سیدنا عمرؓ کے پاس گئے، یہودی نے بتایا: محمد ؐ میرے حق میں اور اس کے خلاف فیصلہ دے چکے ہیں، لیکن یہ نہیں مانتا۔ سیدنا عمرؓ نے منافق سے پوچھا: کیا ایسا ہی ہے، اس نے کہا: ہاں! آپ نے فرمایا: ذرا رکو! میں ابھی آتا ہوں، وہ گھر سے تلوار لے کر آئے اور اُس منافق کا سر قلم کردیا۔ پھر اس کے گھر والوں نے نبی ؐ سے سیدنا عمرؓ کی شکایت کی، رسول اللہ ؐ نے سیدنا عمر سے صورت حال معلوم کی۔ سیدنا عمرؓ نے کہا: یارسول اللہ! اس نے آپ کے فیصلہ کو رد کردیا تھا۔ اسی وقت جبرئیلِ امین نازل ہوئے اور کہا: عمر فاروق ہیں، انہوں نے حق اور باطل کے درمیان فرق کردیا، نبی ؐ نے فرمایا: عمر! تم فاروق ہو، اس قول کی بناء پر طاغوت سے مراد کعب بن اشرف ہے، (روح المعانی، النساء: 65)‘‘۔ سیدنا عمر فاروقؓ نے رسول اللہ ؐ کا حق پر مبنی فیصلہ رد کرنے پر اس منافق کو مرتد قرار دیا اور اس کا سر قلم کردیا اور رسول اللہ ؐ نے اُن کے اس فیصلے کو برقرار رکھا اور کوئی مواخذہ نہیں فرمایا۔
رسول اللہ ؐ پر تو اللہ تعالیٰ وحی کے ذریعے حقائق کو آشکار فرما دیتا تھا، لیکن قاضی کو شواہد کی بنیاد پر فیصلے کرنے ہوتے ہیں، ان سے دانستہ اور نا دانستہ خطا کے امکان کو رد نہیں کیا جاسکتا، اس لیے آپ ؐ نے تعلیمِ امت کے لیے فرمایا: ’’تم میرے پاس اپنے مقدمات لے کر آتے ہو، ہوسکتا ہے تم میں سے کوئی فریق اپنا موقف پیش کرنے میں زیادہ حجت باز ہو اور میں (دلائل سن کر) اُس کے بھائی کے حق میں سے کوئی چیز اُسے دے دوں، تو (وہ یہ جان لے کہ) میں اُسے آگ کا ٹکڑا کاٹ کر دے رہا ہوں، پس وہ اسے (ہرگز) نہ لے، (بخاری)‘‘۔ پس اگر کوئی شخص کسی چیز کا حق دار نہیں ہے، تو قاضی کا فیصلہ حق میں آنے کے باوجود وہ اس چیز کو نہ لے، وہ اس کے لیے آخرت میں آگ کا ٹکڑا ثابت ہوگی۔



عام منصفین کا فیصلہ قانوناً تو نافذ ہوجاتا ہے، لیکن متاثرہ فریق کا اُسے دل وجان سے تسلیم کرنا لازم نہیں ہے۔ اگر ہر حاکم کا فیصلہ خطا سے مُبَرّا ہوتا، تو ہمارے نظامِ عدل میں عدالتی مدارج ایک سے زیادہ نہ ہوتے۔ اس کی حکمت یہی ہے کہ اگر ماتحت عدالت کے کسی جج سے فیصلہ کرنے میں بشری کمزوری کے سبب خطا ہوجائے تو عدالتِ عالیہ یا عدالتِ عُظمیٰ اس کی غلطی کا ازالہ کرے تاکہ حق دار کو حق مل جائے۔ البتہ جو قاضی جان بوجھ کر غلط فیصلہ کرے، اس کے بارے میں حدیثِ پاک میں شدید وعید ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’قاضیوں کی تین قسمیں ہیں، ایک جنت میں اور دو دوزخ میں ہوں گے، جو حق کو سمجھتا ہے اور حق کے مطابق فیصلہ کرتا ہے، وہ جنتی ہے۔ جوحق کو سمجھتا ہے، لیکن ظلم پر مبنی فیصلہ کرتا ہے، وہ جہنمی ہے اور جو (حق کو جانے بغیر) جہل پر مبنی فیصلہ کرتا ہے، وہ بھی جہنمی ہے، (سنن ابوداؤد)‘‘۔ الغرض منصبِ عدل پر فائز ہونا پل صراط پر چلنے کے مترادف ہے، استقامت کے ساتھ صحیح سمت میں چلا تو سامنے جنت ہے اور پائے ثبات میں ذرا بھر لغزش آئی تو اس کا ٹھکانا جہنم ہے، آپ ؐ نے فرمایا: ’’جس کو لوگوں کے درمیان قاضی بنایا گیا، گویا اُسے چھری کے بغیر ذبح کردیا گیا، (سنن ترمذی)‘‘۔
مؤدّبانہ گزارش ہے کہ ہماری اعلیٰ عدالتوں کے معزز جج صاحبان کے رویّوں میں تضادات ہیں، جب بھی کوئی ہائی پروفائل کیس عدالتوں میں زیر سماعت ہوتا ہے، تو عدالت عظمیٰ کے باہر اور ٹیلی ویژن اسٹوڈیوز میں متوازی عدالتیں چل رہی ہوتی ہیں۔ فاضل جج صاحبان نہ ان پر کوئی گرفت فرماتے ہیں، نہ کوئی روک ٹوک عائد کرتے ہیں، اس کے لیے کوئی ضابطہ مقرر ہونا چاہیے۔ بجائے اس کے کہ ہر کوئی جج صاحبان کے ریمارکس اور عدالتی کارروائی کی من پسند تشریح کرے،



عدالت کی جانب سے میڈیا کے لیے آئی ایس پی آر کی طرز پر ایک پریس اسٹیٹمنٹ جاری ہونا چاہیے۔ عدالتی ریمارکس یا فیصلوں پر ردِّعمل دینے والے بعض افراد کی سرزنش کرنا اور بعض کو کھلا چھوڑ دینا، شفاف عدل کے منافی ہے۔ رسول اللہ ؐ کی ذاتِ اقدس تو خطا سے معصوم تھی، لیکن ہر قاضی خطا سے مبرّا نہیں ہوتا۔
جدید فلسفۂ قانون بھی یہی ہے کہ عدالت جب ایک مرتبہ فیصلہ صادر کردے، تو وہ پبلک پراپرٹی ہوتا ہے، اس پر تبصرہ ہوسکتا ہے، اُسے آئینی وقانونی معیارات پر پرکھا جاتا ہے، پس عدالتی فیصلوں کے سُقُم کو بیان کرنا توہینِ عدالت نہیں ہے۔ لازم ہے کہ عدالت ایک باقاعدہ تنبیہ جاری کرے کہ جو لوگ ازخود عدالت کی ناموس کے محافظ اور ترجمان بن جاتے ہیں، وہ اپنے لیے کوئی اور مصروفیت تلاش کریں، آئین وقانون میں عدالت کی حرمت کی ضمانت دی گئی ہے اور اس پر اِقدام کرنا خود عدالت کا دائرۂ اختیار ہے۔ ماہرینِ آئین وقانون اصولوں کی بنیاد پر عدالتی فیصلوں پر تبصرے کرتے ہیں، یہ نہ سمجھا جائے کہ ہر صورت میں یہ اشخاص کسی فریق کے حامی ہیں، ہر ذی شعور شہری کا اس بارے میں فکر مند ہونا قابلِ فہم ہے کہ آیا ہمارا عدالتی نظام مسلّمہ معیارات پر پورا اترتا ہے؟۔