فیصلے پر فیصلہ

641

baba-alifجیسے جیسے نوازشریف وزارت عظمیٰ کے پانچویں سال کی جانب بڑھ رہے تھے، ہماری تشویش میں اضافہ ہوتا جارہاتھا۔ ایک روایت ٹوٹتی نظر آرہی تھی کہ بروقت عدلیہ بروئے کار آگئی۔ ایک اور وزیر اعظم پانچ سال پورے نہ کرسکا۔ نواز شریف کی مدت وزارت نہ بچ سکی روایت بچ گئی۔ عدلیہ بھی کیا کرتی جس حساب سے نواز شریف دولت بنارہے تھے یہ اقتدار میں آنے کی بہترین حکمت عملی تھی لیکن کبھی معاملہ الٹ بھی جاتا ہے اور یہ کرپشن اقتدار سے باہر جانے کی حکمت عملی ثابت ہوئی۔ لاہور حلقہ120میں ایک اعصاب شکن ضمنی الیکشن میں بیگم کلثوم نواز کی کامیابی کی صورت میں نواز شریف پھر ایوان وزیر اعظم میں در آئیں گے۔ خاقان عباسی کی صورت میں بھی وزیراعظم نواز شریف ہی ہیں لیکن مسئلہ یہ ہے کہ ان کے نام کے ساتھ نواز نہیں آتا۔ کسی اعلیٰ عہدے سے جڑا اپنا نام دیکھنے اور عہدے سے وابستہ تام جھام کا لطف ہے ورنہ ایک سویلین کے وزیراعظم ہونے میں کیا مزا۔ محترمہ بے نظیر بھٹو جب پہلی مرتبہ وزیر اعظم بنیں تو ٹائم میگزین کے سرورق پر ان کی جو تصویر شائع ہوئی تھی اس میں انہیں زنجیروں میں جکڑی ہوئی دکھایا گیا تھا۔ زنجیروں میں جکڑی بے بس وزیر اعظم۔ نواز شریف آج بھی زنجیریں توڑنے کی کوشش میں ’’مجھے کیوں نکالا‘‘ لطیفہ بن کر رہ گئے ہیں۔ جب محترمہ بے نظیر کے بچے چھوٹے تھے تو انہوں نے محترمہ سے شکایت کی کہ اسکول میں بچے ہمارا مذاق اڑاتے ہیں۔



بے نظیر نے بچوں سے کہا آپ انہیں کہا کریں ’’میری والدہ وزیراعظم رہ چکی ہیں تمہاری فیملی میں کبھی کوئی وزیراعظم بنا؟‘‘ بیگم کلثوم کے وزیراعظم بننے کی صورت میں پاکستان میں یہ اعزازان کے بچوں کو حاصل ہوگا کہ ان کی والدہ والد دونوں وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ کہتے ہیں اقتدار انسان کو بہت کچھ بدل دیتا ہے۔ بیگم کلثوم کی صورت میں اس کے امکان کم بہت ہی کم ہیں کہ نواز شریف کو ان سے یہ شکایت پیدا ہو
مجھ سے ڈرنے کی جگہ مجھ کو ڈراتی کیوں ہو
اوئے کہہ کر مجھے دن رات بلاتی کیوں ہو
ایوان وزیراعظم میں داخل ہوتے وقت ہمارے وزرائے اعظم کو پیاز کی گٹھی جیب میں رکھ لینی چاہیے۔ نہ جانے کس وقت نکلنا اور رونا پڑ جائے۔ وزیر اعظم کے عہدے تک پہنچتے پہنچتے ہر کوئی اتنا صاحب دل تو نہیں رہتا کہ ہر غم پر آنسو نکل آئیں۔ درد دل کی اور بات ہے۔ وزیراعظم ہوتے ہوئے درد دل میں مبتلا ہونے اور اس کے علاج پر اتنا بھی ذاتی خرچہ نہیں آتا جتنا پیاز کی گٹھی خریدنے پر۔ سنا ہے بلاول کی پیدائش پر ڈلیوری کے اخراجات بھی سرکاری خزانے سے ہی اداکیے گئے تھے۔ بیگم کلثوم کو وزیراعظم بنانے کی اگر نواز شریف نے ٹھان ہی لی تو ایک بات طے ہے کہ ان کی کابینہ میں صادق یا امین نام کے لوگوں کے شامل ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ پہلے نواز شریف صادق اور امین ہونے کی صفات سے دامن بچاتے تھے، اب ایسے لوگوں سے بھی چڑتے ہوں گے جن کا نام صادق یا امین ہوں۔ جو لوگ خاقان عباسی کے وزیر اعظم بننے پر خیر کا یہ پہلو تراشتے ہیں کہ چلیے نواز شریف نہ سہی ان کی پارٹی تو پانچ سال کی مدت پوری کررہی ہے انہیں اس مائنڈ سیٹ کی خبر ہی نہیں۔۔۔ مرگیا میں تو پھر زندہ رہے کوئی کیوں
ہمیں حیرت اس بات پر ہے کہ این اے120 کے دنگل میں اتنے لوگ کھیل رہے تھے۔ 43۔ پچھلے دنوں اخبار میں پاکستان میں گدھوں کی بڑھتی ہوئی تعداد کی خبر چھپی تھی ہمیں تب بھی اتنی حیرت نہیں ہوئی تھی۔ ویسے اصل مقابلہ مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کے درمیان ہی تھا۔



سنا ہے ایک امیدوار کو تین ووٹ ملے۔ ان کا گھر میدان جنگ بنا ہوا ہے۔ بیگم پوچھ رہی ہے ’’ایک ووٹ تمہارا ہوگیا ایک ووٹ میں نے دیا تھا مجھے بتاؤ یہ تیسری کون ہے‘‘۔ اگر اس حقیقت کو سامنے رکھا جائے کہ پاکستان میں کوئی ضمنی الیکشن حکومت وقت نہیں ہارتی تو مسلم لیگ ن کا مقابلہ کسی سے بھی نہیں تھا۔ لیکن کیا مسلم لیگ ن حکومت وقت ہے؟ اگر حکومت وقت ہے تو پھر اس نے اپنے ہی بندے کیوں اٹھائے؟۔ ایک بات طے ہے کہ الیکشن میں نواز شریف ہی مرکز نظر تھے۔ نہ کلثوم نواز کے محاسن زیر بحث تھے اور نہ یاسمین راشد ہی کسی شمار میں تھیں۔ مسلم لیگ کے جلسوں میں نواز شریف کی نااہلی کے فیصلے کو ٹارگٹ کیا گیا تو تحریک انصاف، پیپلزپارٹی، جماعت اسلامی اور دیگر جماعتوں کے جلسوں میں نااہلی کو بنیاد بناکر عوام سے مسلم لیگ کو ووٹ نہ دینے کا مطالبہ کیا جارہا تھا۔ ایک طرف مریم صفدر بار بار اپیلیں کررہی تھیں کہ میرے لاہور کے لو گو اٹھو، 17ستمبر کو شیر پر مہریں لگا کر ثابت کردو کہ جن ججوں نے نواز شریف کو آپ کے محبوب قائد کو نااہل قرار دیا ہے وہ خود نا اہل ہیں۔ آپ انہیں بتائیں کہ صادق اور امین آپ نہیں۔ ہمارا قائد اوپر سے نیچے تک صادق اور امین ہے۔ دوسری طرف عمران خان ان ججوں کو خراج تحسین پیش کررہے تھے جنہوں نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی مرتبہ کسی بڑے چور پر ہاتھ ڈالا ہے۔ مسلم لیگ کا بیانیہ یہ تھا کہ اگر مسلم لیگ ن جیت گئی تو یہ فیصلے پر فیصلہ ہوگا۔ ثابت ہوجائے گا کہ عدلیہ کا فیصلہ بدنیتی پر مبنی تھا۔ عوام نے عدلیہ کے فیصلے کو ٹھکرا دیا ہے۔ عمران کا بیانیہ یہ تھا کہ عوام اپنا ووٹ اس عدلیہ کے حق میں دیں جس نے ایک کرپٹ اور بددیا نت حکمران کو ہٹا کر نئی تاریخ رقم کی ہے۔ ضمنی الیکشن میں کامیابی سے مسلم لیگ ن کو عوام کا سامنا کرنے اور عدلیہ پر کھل کر تنقید کرنے کا مزید حوصلہ ملے گا۔ دوسری طرف عمران خان نے ثابت کردیا کہ وہ ابھی الیکشن جیتنے کی تیکنیک سمجھنے اور بنانے میں ن لیگ سے کوسوں دور ہیں۔



نظر ثانی کی اپیلیں اگرچہ ننانوے فی صد ناکام ہوتی ہیں لیکن نہ جانے کیوں مسلم لیگ پرامید تھی۔ اس لڑکی کی طرح جو رنگ گورا کرنے کی ایک ایسی کریم استعمال کررہی تھی جس کے بنانے والوں کا دعویٰ تھا کہ چالیس دن میں یقینی رنگ گورا۔ انتالیس دن گزر گئے تھے رنگ ویسا ہی کالا۔ لڑکی کا کہنا تھا کل چالیسواں دن ہے کل شاید رنگ گورا ہوجائے۔ ہمیں سمجھ میں نہیں آرہا نظر ثانی کی اپیل میں آخر کون سی دلیل تھی جس کی بنیاد پر عدالت عظمیٰ اپنا فیصلہ تبدیل کرلیتی۔ بہر حال نیب کے ریفرنسز اب شریف فیملی کے لیے اصل مسئلہ ہوں گے۔ یہ ریفر نسز بھی لمبے عرصے تصور جاناں کیے بیٹھے رہتے لیکن یہاں بھی عدالت عظمیٰ نے کھنڈت ڈال دی ہے کہ فیصلے کی آخری حد مقرر کردی ہے۔ چھ مہینے۔ حد مقرر ہی اگر کرنی تھی تو نوے دن کی کی ہوتی یہ اعداد نواز فیملی کو بہت راس آتے ہیں۔ آسمان سے فرشتے قطار اندر قطار اتریں نہ اتریں کوئی ضیا الحق مدد کو آہی جاتا ہے۔
حلقہ 120کے ضمنی الیکشن کی شورا شوری میں اس اہم خبر کی طرف کسی کی توجہ نہیں گئی کہ نواز شریف نے وزیراعظم خاقان عباسی کو لندن طلب کیا ہے۔ وزیر خارجہ اور کئی سینئر رہنما بھی وہاں موجود ہیں۔ اس میٹنگ میں کیا فیصلے کیے گئے یہ بہت اہم بات ہوگی۔ اس سے بھی اہم خبر سابق صدر آصف علی زرداری کا یہ بیان ہے کہ نواز شریف کو ابھی تک حکومت کرنی نہیں آئی نہ آئے گی۔ سابق صدر کے اس بیان میں پاکستان کے مستقبل کے حوالے سے امید کے سمندر موجزن ہیں۔ نواز شریف اور وزارت عظمیٰ کے دیگر طلب گاروں کو چاہیے کہ وہ آصف علی زرداری کے سامنے التحیات والے انداز نشست میں بیٹھ جائیں اور حکومت کرنے کے جو گر زرداری بتائیں اس کے خلاف عمل کریں کامیاب ہوجائیں گے۔