عوام کے لیے یہ خبر کسی آتش فشاں سے کم نہیں ہے کہ ’’پی آئی اے کا طیارہ ہی غائب کردیا گیا ہے‘‘۔ قومی ائرلائن کی نج کاری کی بازگشت میں طیارے کا غائب ہونا معنی خیز ہے۔ پی آئی اے کی ائر بس اے 310 کے لاپتا ہونے کا انکشاف،گمشدگی یا ملک سے جانے کی خبر جسارت نے نومبر 16 میں شائع کردی تھی لیکن سینیٹ کے رواں ماہ ہونے والے ایک اجلاس میں متحدہ قومی موومنٹ پاکستان کے سینیٹر ظاہر حسین مشہدی نے اس کی نشاندہی کی۔ اس انکشاف کے بعد وفاقی وزیر برائے پارلیمانی امور شیخ آفتاب احمد نے سینیٹ نے اس خبر کی تصدیق کرتے ہوئے انتہائی ڈھٹائی سے بتایا کہ ’’اس معاملے پر قومی ائر لائنز کے سابق قائم مقام چیف ایگزیکٹیو آفیسر جو جرمن شہری تھے اپنی برطرفی کے بعد پاکستان چھوڑتے وقت جہاز بھی اپنے ساتھ لے گئے‘‘۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’اس معاملے پر تحقیقات کے لیے کمیٹی قائم کردی گئی ہے‘‘۔
ملک میں اس طرح کے سنگین نوعیت کے واقعات کے بارے میں قائم کی جانے والی کمیٹیوں کی تحقیقات کے کیا نتائج نکلتے ہیں سب ہی کو پتا ہے۔ طیارہ غائب ہونے پر پی آئی اے کے ترجمان کی وضاحت کا بھی جواب نہیں تھا۔ جن کا کہنا تھا کہ ’’یہ بوئنگ طیارہ نہیں تھا بلکہ یہ ائربس 310 تھی‘‘۔ ترجمان نے اپنی وضاحت سے شاید یہ تاثر دینے کی کوشش کی ہے کہ ’’یہ بڑا اور اہم طیارہ نہیں تھا بلکہ دراصل یہ ایک ائر بس تھی‘‘ جناب مشہود کی بات سے ایسا لگ رہا تھا کہ وہ کسی طیارے کی نہیں بلکہ سڑک پر چلنے والی 1960کی کسی بس کا ذکر کررہے ہیں۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے یہ بتایا کہ ’’اس طیارے نے اپنی پروازیں مکمل کرلی طیارے کو برطانوی کمپنی نے فلم بنانے کی غرض سے چارٹرڈ کیا تھا، یہ 30سال پرانا طیارہ تھا جسے گراؤنڈ بھی کیا جاچکا تھا‘‘۔ ترجمان نے لگے ہاتھوں یہ بھی بتادیا کہ فیڈرل انویسٹی گیشن ایجنسی (ایف آئی اے) بھی طیارے کے حوالے سے تحقیقات کررہی ہے۔
قومی ائر لائن کے ترجمان کی وضاحتیں بھی اس بات کی دلیل لگ رہی ہے کہ ’’دال میں کچھ کالا ہے‘‘۔ میں یہ بات اس لیے کہنے پر مجبور ہوں کہ بقول ترجمان طیارے کو گراؤنڈ یعنی ناقابل استعمال کیا جاچکا تھا تو اسے جرمنی کس طرح لے جایا گیا؟ کیا فضاء میں بھی ’’ٹو‘‘ کرنے کا نظام رائج ہے؟ تشویش کی بات یہ ہے کہ طیارہ پاکستان کی حدود عبور کرکے خلاف قانون دوسرے ملک چلا جاتا ہے مگر کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوتی۔ یہ بات بھی خاصی دلچسپ ہے کہ ایف آئی اے اس بارے میں تحقیقات کررہی ہے، اگر یہ بات درست ہے تو اب تک ملکی قوانین کے تحت اس ضمن میں باقاعدہ مقدمہ درج کیوں نہیں کیا گیا؟ اور بغیر مقدمے کے کسی قسم کی تحقیقات کی جارہی ہے یہ ایک علیحدہ سوال ہے۔
قومی ائرلائن کی تاریخ پر نظر ڈالی جائے تو معلوم ہوتا ہے کہ قیام پاکستان سے قبل برٹش راج میں وطن عزیز کی فضائی حدود میں اڑنے والی اورینٹ ائرویز اگرچہ یہ انگریز کے دور میں مسلمانوں کی واحد ائر لائن تھی جو قیام پاکستان کے بعد بھی 1947سے 1955تک مسلمانوں کو سفر کی سہولت فراہم کرتی رہی لیکن بعد میں یعنی 11مارچ 1955کو قومی فضائی کمپنی میں ضم کردی گئی اور اسے پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن کاپوریشن کا نام دیا گیا۔ پاکستان کے نام سے منسلک ہونے کے بعد پی آئی اے نے ایک سال کی مختصر مدت میں بین الاقوامی پرواز شروع کی اور پہلا انٹرنیشنل روٹ کراچی، لندن، ہیتھرو براستہ قاہرہ، روم کا افتتاح کیا گیا۔ اس مقصد کے لیے چار امریکن جہاز بیڑے میں شامل کیے گئے۔ اپنی پیدائش کے ایک سال بعد ائر لائن نے جس تیزی سے سفر کرتے ہوئے بین الاقوامی روٹ شروع کیے جس کے نتیجے میں یہ دنیا کی بہترین ائر لائنز میں شمار کی جانے لگی تھی۔ لیکن نااہل اور اپنے مفادات کے لیے قومی اداروں کو تباہی کی بھینٹ چڑھانے والے حکمران اسے ’’ناکارہ اور کباڑ‘‘ قرار دیکر نجی شعبے کے حوالے کرنے کے لیے جنگی بنیادوں پر عمل کرنے لگے تو پورا ادارہ چلا اٹھا۔ پی آئی اے سے وابستہ 19ہزار ملازمین احتجاج کرنے لگے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں پی آئی اے کی برسوں خدمت کرنے والے انجینئر سلیم اکبر، عنایت رضا گولیوں کا نشانہ بن کر جاں بحق ہوئے ادارے کے تحفظ کے لیے قربانی دے گئے۔ اس احتجاج کے نتیجے میں پی آئی اے کی نج کاری کا عمل تو رک گیا تاہم اس سے قبل ہی 6دسمبر کو پاکستان انٹرنیشنل ائرلائن کمپنی لمیٹڈ میں تبدیل کی جاچکی ہے۔ اس کی نج کاری سے قبل اس کے اسٹیٹس میں تبدیلی کا اعلان ادارے کے سابق چیئرمین نصیر جعفر چھ دسمبر 2015کو کرچکے تھے۔
لیکن قومی ائر لائن کے ایک طیارے کی پرسرار گمشدگی اس بات کا ثبوت ہے کہ ملک کے اندر بلکہ ملکی نظام سے جڑی قوتیں اس اہم قومی ادارے کو ٹھکانے لگانے کے لیے مصروف عمل ہیں۔ امید ہے کہ عدالت عظمیٰ ازخود نوٹس کے تحت قومی ائر لائن کے طیارے کو غیر قانونی طریقے سے بیرون ملک لے جانے کا بھی نوٹس لے گی اور اب تک کی جانے والی تحقیقات کے حوالے سے رپورٹ طلب کرے گی۔