زبان وبیان اور متفرقات

672

zcl_muftiMuneebرَدّ و استرداد:یہ دونوں عربی الفاظ ہیں، ہمارے ہاں اردو میں ہم معنیٰ استعمال ہوتے ہیں، اِسترداد بابِ استفعال ہے، اس میں طلب اور وجدان کے معنی پائے جاتے ہیں، پس استرداد کے معنی ہیں: کسی چیز کو واپس لینا اور مُسترَد کے معنی ہیں: واپس لی ہوئی یا واپس کی ہوئی چیز۔ ہمارے ہاں رد کے معنی میں مُسترَدکا لفظ استعمال ہوتا ہے۔ ایک بار میں نے کالم میں ’’رَد‘‘ کا لفظ استعمال کیا، تو ہمارے ادارتی ماہرین نے اُسے بدل کر ’’مُسترَد‘‘ لکھ دیا، کیونکہ ہمارے ہاں یہی لفظ رائج ہے۔ رَد کے معنی ہیں: قبول نہ کرنا یا قبول نہ ہونا یعنی Rejection، شاعر نے کہا ہے:
ہو رد کوئی دعا تو خسارا نہ جانیے!
ہوتا ہے سب ہمارے بھلے ہی کے واسطے
اس کے دوسرے معنی ہیں: پھیر دینا (Diversion) یا واپس پلٹا دینا، حدیثِ پاک میں ہے: ’’سیدہ اسماء بنت عمیس سے دو طریقوں سے روایت ہے: نبی ؐ پر وحی نازل ہورہی تھی اور آپ کا سرِ مبارک سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی گود میں تھا، (اس بنا پر) وہ عصر کی نماز نہ پڑھ سکے، یہاں تک کہ سورج غروب ہوگیا۔ آپ ؐ نے پوچھا: علی! تم نے نماز پڑھی ہے؟، انہوں نے عرض کی: نہیں، آپ ؐ نے دعا فرمائی: اے اللہ! اگر یہ تیری اور تیرے رسول کی اطاعت میں تھے (جس کی بنا پر عصر کی نماز نہ پڑھ سکے)، تو ان کے لیے سورج کو واپس لوٹا دے (یا پھیر دے)، سیدہ اسماء بیان کرتی ہیں: میں نے سورج کو غروب ہونے کے بعد واپس پلٹتے ہوئے دیکھا اور خیبر میں صہبا کے مقام پر وہ پہاڑ اور زمین پر رکا رہا، یہ دونوں روایتیں ثابت ہیں اور اس کے راوی ثقہ ہیں، (اَلشِّفَا بِتَعْرِیْفِ حُقُوْقِ الْمُصْطَفیٰ، ص: 284)‘‘۔ اس حدیث میں سورج کے واپس پلٹنے کے لیے ’’رَدُّالشَّمْس‘‘ کے کلمات استعمال ہوئے ہیں، شاعر نے کہا ہے:



حکم سے جس کے رَدِّ شمس ہوا
اُس اشارے سیتی ہے شقِ قمر
یعنی جن کے حکم سے سورج واپس پلٹا، انہی کے اشارے سے چاند شق (دو ٹکڑے) ہوا، یہاں ’’رد الشمس‘‘ میں رد کے معنی ہیں: واپس پلٹ آنا، جناب شکیل عادل زادہ نے بتایا: سیتی کے معنی ہیں: ’’سے یا کے ساتھ ‘‘۔ ذیل میں ہم مستند لغات سے دونوں کلمات کا معنی درج کر رہے ہیں:
ردّ: واپس کرنا، ناپسندکرنا، یعنی قبول نہ کرنا، (المنجد:238)، Rejection، (المنجد انگلش ٹو عربک، ص: 723)
استرداد: (اِسْتِرْدَاد): واپس لینا، واپسی چاہنا، (فرہنگ عامرہ از محمد عبداللہ خاں خویشگی، ص:50)، (کسی شے کی واپسی، بازیابی، واپس کیا جانا) (اردو لغت، اردو لغت بورڈ، ج:1، ص:447)، (کسی شے کی واپسی کا سوال کرنا، مطالبہ کرنا)۔
مسترد: (مُسْتَرَدْ): لوٹایا ہوا، واپس کیا ہوا، (فرہنگ عامرہ)، (رد کیا ہوا، واپس شدہ، لوٹایا ہوا، واپس کیا)، (اردو لغت، اردو لغت بورڈ)۔ مثلاًہمارے ہاں لکھا اور بولا جاتا ہے: قومی اسمبلی یا سینیٹ نے آئینی یا قانونی ترمیم یا قرارداد ’’مسترد‘‘ کردی، اس کے بجائے ’’رد کردی‘‘ بولنا اور لکھنا چاہیے یاہم امریکا کے الزامات اور موقف کو ’’مسترد‘‘ کرتے ہیں، اس کے بجائے کہنا چاہیے: ’’ہم ان کے الزامات یا ان کے موقف کو رد کرتے ہیں‘‘۔
الزام علیہان: جنابِ ظفر اقبال پاکستان کے ممتاز شاعر ہیں، اردو زبان وبیان پر اُن کومکمل عبور ہے اور وہ اس پر اتھارٹی ہیں۔ انہوں نے روزنامہ دنیا میں اپنے ایک کالم میں پاناما کیس کے حوالے سے سابق وزیرِ اعظم نواز شریف اور اُن کے بچوں کو ’’الزام علیہان‘‘ لکھا ہے۔ اردو ترکیب کی طرز پر ’’الزام علیہ‘‘ کی جمع ’’الزام علیہان‘‘ کردی گئی ہے۔ ظاہر ہے اس سے ان کی مراد ہے: جن پر الزام لگایا گیا ہے، جیسے ہمارے ہاں اردو میں ’’مُدّعا علیہان‘‘ استعمال ہوتا ہے۔

مفتی منیب الرحمن

فرہنگ عامرہ (از محمد عبداللہ خاں خویشگی)، ص:470 میں لکھا ہے: ’’مُلْزَم‘‘، ’’جس پر الزام لگایا گیا ہو‘‘، ظاہر ہے کہ اس کی جمع ’’مُلزَمِین‘‘ ہے اور ’’مُلْزِم‘‘ کے معنی ہیں: ’’الزام لگانے والا‘‘ اور اس کی جمع ’’مُلزِمین‘‘ ہے لیکن یہ ہمارے ہاں مستعمل نہیں ہے۔ ’’اِلزام علیہ‘‘ عربی میں بھی مستعمل نہیں ہے، البتہ جس کے خلاف عدالت میں دعویٰ دائر ہوا ہے، اُسے ’’مُدَّعیٰ عَلَیہ‘‘ کہتے ہیں اور اس کی جمع ’’مُدَّعیٰ عَلَیہَان‘‘ نہیں ہے، بلکہ ’’مُدَّعیٰ عَلَیْھِم‘‘ ہے۔ اگر کوئی ہم جیسا کم علم کسی بڑے صاحب علم کی فروگزاشت پر متوجہ کرے، تو اسے عربی میں ’’تَطَفُّلْ‘‘ یعنی ’’چھوٹا منہ بڑی بات‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں۔
اکاما: ایک چینل پر ٹِکر چل رہا تھا اور اس میں ’’اقامہ‘‘ کو ’’اکاما‘‘ لکھا ہوا تھا، یہ ایسا ہی ہے، جیسے ایک بیٹے نے اپنے باپ کو لکھا: ’’ابا جان! اب میں ’’کابل ‘‘ ہوتا جارہا ہوں، باپ نے جواب میں لکھا: ’’بیٹا! تمہاری قابلیت ’’کابل‘‘ (قابل) کے کاف سے ظاہر ہے‘‘۔
مُبِینہ طور پر: ایک چینل پر مُبَیَّنہ طور پر (Allegedly) کو نیوز ریڈر ’’مُبِیْنہ طور پر‘‘ پڑھ رہی تھیں، شاید کسی نے بعد میں تصحیح کرادی ہو۔
کالعدم: ہمارے انگلش میڈیم خبر خواں (News Reader) کا، کے الف کو تلفظ کا حصہ بناکر ’’کال عدم‘‘ پڑھتے ہیں، جو غلط ہے۔ یہ عربی ترکیب ہے، اس کے تلفظ میں ’’الف‘‘ ساقط ہوجاتا ہے، جیسے ’’بالکل‘‘ کے تلفظ میں الف ساقط وساکت ہوتا ہے، اسے آج کل ٹِکرز میں اکثر ’’بلکل‘‘ لکھا جاتا ہے۔ کالعدم کے لفظی معنی ہیں: ’’نہ ہونے کی مانند‘‘، جیسے کہا جاتا ہے: ’’ہرچند کہیں کہ ہے، نہیں ہے‘‘، یعنی اس کا ہونا نہ ہونا برابر ہے۔ ہمارے ہاں ممنوع تنظیموں کو ’’کالعدم تنظیمیں‘‘ کہا جاتا ہے، ہمارے نزدیک یہ اصطلاح درست نہیں ہے۔ انگریزی لفظ Ban ہے، اس کے معنی ہیں: ’’ممانعت یا پابندی‘‘، پس جو جماعت ممنوع قرار دی جائے، اسے انگریزی میں Banned کہتے ہیں، اس کا صحیح ترجمہ ’’کالعدم‘‘ کے بجائے ’’ممنوعہ‘‘ ہونا چاہیے۔ ہمارے نزدیک کالعدم کا انگریزی متبادل Defunct ہے، انگلش ڈکشنری میں اس کے معنی ہیں: ’’It no longer exists or has stopped functioning or operating‘‘ یعنی جو جماعت یا تنظیم عملاً موجود نہیں ہے یا جس نے کام کرنا چھوڑ دیا ہے۔ سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ہاں الیکشن کمیشن میں سیکڑوں جماعتیں رجسٹرڈ ہیں، لیکن الیکشن میں حصہ لینے والی سیاسی جماعتوں کی تعداد بہت کم ہے۔ مناسب ہوگا کہ ہمارے نشریاتی ادارے اپنے ہاں کام کرنے والے نوجوانوں کے لیے اردو زبان میں تربیت کا انتظام کریں اور ان کے لیے اردو زبان میں کم از کم علمی معیار مقرر کریں، ہماری مراد ڈگری ہولڈرز نہیں ہیں، بلکہ حقیقی اہلِ علم مراد ہیں۔ بدقسمتی سے آج کل ڈگری اور علم ہم معنی نہیں رہے، بلکہ ڈگری روزگار حاصل کرنے کے لیے مطلوبہ دستاویز بن کر رہ گئی ہے۔



پیپلز پارٹی کی بوالعجبی: محترمہ بے نظیر بھٹو شہید کا پوسٹ مارٹم نہ کیا جانا، اسی طرح فارنزک شہادت کو ضائع کرنا ہے، جیسے قتل گاہ کے منظر کو دھو کر سارے آثار کو مٹادینا۔ لیکن پوسٹ مارٹم نہ کرا کے جو کام خود کیا، اُس کا ذکر نہیں کیا جاتا اور جو قانون سے انحراف دوسروں نے کیا، اس کا ذکر اب شدّومد کے ساتھ ہورہا ہے۔ اسی طرح پیپلز پارٹی نے پارٹی کے طور پر اپنی قائد اور جنابِ آصف علی زرداری نے اپنی اہلیہ کے مقدمے کی کارروائی سے اپنے آپ کو الگ تھلگ رکھا، حالانکہ پانچ سال تک وہ حکومت میں تھے۔ اب اچانک وہ متحرک ہوگئے ہیں اور مقدمے کے فیصلے پر شدید ناپسندیدگی کا اظہار کر رہے ہیں۔ اگر وہ شروع سے مقدمے کی کارروائی کا حصہ بنتے اور اعلیٰ فوجداری وکیل مقرر کیے ہوتے، مقدمے کی تحقیق وتفتیش کے دوران اپنے حکومتی اثر ورسوخ کو استعمال کیا ہوتا تو شاید مقدمے کا فیصلہ ان کے لیے کسی درجے میں قابلِ قبول ہوتا۔
اسی طرح انہوں نے اپنے پورے دور میں سابق صدر جنرل پرویز مشرف کو ہدف نہیں بنایا، اب اچانک اس سلسلے میں متحرک ہوگئے ہیں، آگے آگے دیکھیے ہوتا ہے کیا؟۔ ہمارے خطے کی روایت ہے کہ کوئی بھی اپنے مقتول کے مقدمے سے لا تعلق نہیں رہتا اور اپنی بساط کے مطابق کوشش کرتا ہے، پس محترمہ بے نظیر بھٹو کے ورثا کی مقدمے کی کارروائی سے لاتعلقی سب کے لیے تعجب کا باعث بنی رہی۔ انگریزی لفظ Forensics ہے، ہمارے میڈیا والے اسے فرانزک لکھتے ہیں، ہماری رائے میں فارنزک لکھنا چاہیے، اس کے معنی ہیں: ’’وقوعے کے آثار وشواہد‘‘۔
2017ء کی مردم شماری:
پاکستان میں بدقسمتی سے ہر حکومت وقت پر، سیاسی جماعتوں کی ایک دوسرے پر اورسب کی نظام پر بے اعتمادی ایک قومی وسماجی بیماری کی شکل اختیار کرچکی ہے، آج کل اسے اعتماد کے خسارے سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اس کے مِنْجُمْلہ اسباب میں سیاسی رہنماؤں کی عوامی داد وتحسین کے لیے بیان بازی ہے۔ دوسرا سبب یہ کہ ہمارے ہاں ریاست اور حکومت کے درمیان فرق کو ملحوظ رکھنے کی نہ روایت قائم ہوئی اور نہ ہی اس بارے میں عوام کی ذہن سازی ہوئی۔ تیسرا سبب انتظامی مشینری کا سیاست زدہ ہونا ہے، متمدن ممالک میں قانون ساز ادارے کا کام پالیسی بنانا، نظریاتی سَمت کا تعین اور قانون سازی ہوتا ہے، جمہوری حکومت کا کام نگرانی اور انتظامی مشینری کا کام اس پر عمل درآمد کرنا ہوتا ہے۔



اعلیٰ عدالتوں کا کام شفاف طریقے سے آئین وقانون کی تطبیق وتشریح اور انتظامیہ کے مختلف اداروں کے درمیان توازن کا قیام ہے۔ ہمارے ہاں عدلیہ فعال ہوتی ہے تو ادارے کمزور ہوجاتے ہیں، ہر بات پر حکمِ امتناع انتظامیہ اور اداروں کو بے توقیر کردیتا ہے۔ لاہور کی اورنج ٹرین اس کی نمایاں مثال ہے، اس پر قوم کا زرِ کثیر خرچ ہوچکا ہے، اعلیٰ عدلیہ نے حکم امتناع تو جاری کردیا، لیکن مسئلے کا حل نہیں نکالا، یہ قومی نقصان ہے اور المیہ بھی۔ مشکل یہ ہے کہ عدلیہ سب سے جواب طلب کرسکتی ہے، لیکن وہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں ہے۔ یہ کہنا کہ ہم اپنے ضمیر اور اللہ کے سامنے جوابدہ ہیں، بجا اور درست ہے، لیکن اس کے لیے آخرت کا انتظار کرنا ہوگا۔ عدالتوں کے اختیارات بے کراں ہیں، لیکن منصبی اختیار اور قوت کو حکمت ودانش کے ساتھ استعمال ہونا چاہیے، مگر ہمارے ہاں یہ نعمتِ گراں مایہ مفقود ہے۔
مردم شماری: ہر دس سال کے بعد قومی مردم شماری ایک مسلّمہ روایت ہے تاکہ حال اورمستقبل کی بہتر منصوبہ بندی کی جاسکے۔ پاکستان میں 1981ء کے بعد1998ء اور پھر 2017ء میں سترہ اور انّیس سال بعد نواز شریف دور میں مردم شماری ہوئی۔ جنرل پرویز مشرف اور پیپلز پارٹی اپنے ادوار میں یہ کام نہ کراسکے، اب اسے بھی متنازع قرار دیا جارہا ہے، جب کہ اس کی نگرانی فوج کر رہی تھی۔ اس مسئلے کا حل کیا ہے؟، مسائل پیدا کرنے میں تو ہم ماہر ہیں، کاش سب کے لیے کوئی قابلِ قبول حل بھی پیش کرسکیں۔