قوم کو الّو بنانے والے 

398

zc_MFالّو مغرب میں علم و دانش کی علامت سمجھا جاتا ہے جبکہ مشرق میں یہ بیوقوفی اور حماقت کی نشانی ہے۔ الّو بیچارا ایک پرندہ ہے جس کا عقل و دانش یا حماقت سے کیا تعلق؟ لیکن جو فکری بعد مشرق و مغرب کے درمیان موجود ہے اس کا اظہار الّو کے حوالے سے بھی کیاگیا ہے۔ ہم اہل مشرق الّو کا تمسخر اڑاتے اور انسانوں میں بھی الّو کی صفات تلاش کرکے ان کی تحقیر کرتے ہیں مثلاً اگر کوئی شخص اپنی بیوقوفی میں مشہور ہو اور سیدھے کام کو بھی الٹے طریقے سے کرتا ہو تو ہم اسے الّو کا پٹھا کہنے سے بھی دریغ نہیں کرتے۔ بہت سے لوگ اپنے مخالفین کے لیے بھی یہ الفاظ بڑی بے تکلفی سے استعمال کرتے ہیں۔ ’’الّو کی دم‘‘ کا محاورہ بھی ان ہی معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔ البتہ ’’الّو بنانا‘‘ ایک ایسا محاورہ ہے جو ان لوگوں کے لیے بولا جاتا ہے جو خود کو عقلمند اور دوسروں کو بیوقوف سمجھتے ہیں اور اپنی شاطرانہ چالوں سے انہیں احمق بناتے ہیں اسی لیے ان کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ لوگوں کو الّو بناتے ہیں۔ یہ بھی مشہور ہے کہ بعض لوگ ہوتے تو چالاک ہیں لیکن اپنے حریف کو چکرانے کے لیے جان بوجھ کر الّو بن جاتے ہیں۔ ہمارے دوست کہتے ہیں کہ الّو بنانے اور الّو بننے میں صرف ایک الف کی دیوار حائل ہے۔ یہ دیوار ہٹ جائے تو دونوں ایک ہی کیٹیگری میں کھڑے نظر آتے ہیں۔



الّو بننے یا الّو بنانے کی بحث ہم نے اس لیے چھیڑی ہے کہ پچھلے دنوں ایک دانا سیاستدان جناب آصف زرداری کا یہ بیان منظر عام پر آیا ہے کہ میاں نواز شریف ہمیں الّو بناتے ہیں لیکن اب ہم ان کے جھانسے میں نہیں آئیں گے۔ انہوں نے یہ بیان اس پس منظر میں دیا ہے کہ میاں نواز شریف اس مشکل وقت میں ایک بار پھر پیپلزپارٹی سے رسم و راہ بڑھانے کی کوشش کررہے ہیں ایک خبر کے مطابق انہوں نے مولانا فضل الرحمن سے درخواست کی تھی کہ زرداری سے ان کی صلح کرادی جائے۔ مولانا یوں تو ہر فن مولا ہیں صلح کرانے اور صلح کرنے میں بھی کمال رکھتے ہیں لیکن باخبر ذرائع کا کہنا ہے کہ وہ اپنی تمام تر کوشش کے باوجود زرداری کو شیشے میں اتار نہیں پائے اور زرداری نے صلح کرنے سے صاف انکار کردیا۔ بنیادی وجہ اس کی یہ ہے کہ زرداری کو میاں نواز شریف کے اقتدار سے بیدخل ہونے کے بعد ایوان اقتدار نظر آرہا ہے احتساب عدالت نے ان کے خلاف کرپشن کے کیس کو داخل دفترکرکے انہیں ’’صادق و امین‘‘ بنا دیا ہے۔ آئین کے تحت یہ ایوان اقتدار میں داخل ہونے کی بنیادی شرط ہے جو زرداری نے پوری کردی ہے۔ اب ایک رکاوٹ باقی رہ گئی ہے وہ کپتان کی ہے اگر عدالت عظمیٰ یا الیکشن کمیشن نے اسے نا اہل قرار دیدیا تو لیجیے یہ رکاوٹ بھی دور ہوگئی۔ پھر تو زرداری ’’مرزا یار‘‘ کی طرح اقتدار کی ویران گلی میں اکیلے اینڈتے نظر آئیں گے۔ ایسے میں وہ میاں نواز شریف کے ساتھ صلح کرکے الّو کیوں بنیں یہ تو سرا سر گھاٹے کا سودا ہے اور زرداری کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ وہ ذات شریف ہے جس نے کبھی گھاٹے کا سودا نہیں کیا۔ ویسے سیاست میں الّو بنانا یا بننا کوئی اچنبھے کی بات نہیں ہے۔



ارباب سیاست و اقتدار ابتداء ہی سے اس شغل میں مصروف نظر آتے ہیں۔ قائد اعظمؒ کی آنکھ بند ہوتے ہی وطن عزیز میں یہ کھیل شروع ہوگیا تھا جو بدستور جاری ہے۔ اس کھیل میں پوری قوم الّو بنی رہی اور سیاستدان اسے بناتے رہے۔ درمیان میں جرنیل بھی اس کھیل میں شامل ہوگئے اور انہوں نے بھی قوم کو الّو بنانے میں کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔ جنرل ایوب خان ہوں، جنرل یحییٰ خان ہوں، جنرل ضیاء الحق ہوں یا جنرل پرویز مشرف ان سب نے قوم کو خوب الّو بنایا لیکن خود غیر ملکی طاقتوں کے ہاتھوں الّو بنتے رہے۔ جنرل ایوب ستمبر 1965ء کی جیتی ہوئی جنگ تاشقند کی میز پر ہار آئے۔ جنرل یحییٰ کو امریکا نے چھٹے بحری بیڑے کا لارا لگائے رکھا اور انہوں نے مشرقی پاکستان ہاتھوں سے کھو دیا۔ جنرل ضیاء الحق نے قوم کو اسلامی نظام کا فریب دیا اور خود امریکا کے جال میں پھنس کر مارے گئے، جنرل پرویز مشرف نے اپنا اقتدار بچانے کے لیے پورا ملک امریکا کے حوالے کردیا جس کا خوفناک نتیجہ پاکستان ابھی تک بھگت رہا ہے اور وہ خود رسوائی کا عذاب جھیل رہے ہیں۔
سیاستدانوں میں ذوالفقار علی بھٹو وہ سیاستدان ہیں جنہوں نے ’’روٹی، کپڑا اور مکان‘‘ کا نعرہ دے کر قوم کو خوب الّو بنایا لیکن جب برسر اقتدار آئے تو آٹے کی راشن بندی کرکے قوم سے منہ کا نوالہ بھی چھین لیا۔ ان کا انجام بھی اچھا نہ ہوا اور ایک کمزور مقدمے میں پھانسی پرلٹکادیے گئے۔



ان کے بعد شریف فیملی کو عروج حاصل ہوا۔ میاں نواز شریف صوبائی وزیر خزانہ کے منصب سے ترقی کرکے وزیراعظم بن گئے لیکن اپنی خاندانی دولت میں اضافے کے سوا قوم کی توقعات پر پورا نہ اتر سکے اور قوم کو میگا پروجیکٹس کے نام پر الّو بناتے رہے آخر پاناما لیکس سامنے آگئیں اور قدرت نے انہیں اس کے جال میں پھنسا دیا وہ نا اہل ہوگئے، اقتدار ان کے ہاتھ سے جاتا رہا لیکن ابھی ان کی سزا مکمل نہیں ہوئی وہ احتساب کے شکنجے میں ہیں، احتساب عدالت میں ان کے خلاف ریفرنس دائر ہوچکا ہے۔ بے شک وہ لندن میں جاکر بیٹھ جائیں لیکن احتساب کا شکنجا انہیں دھر کھینچے گا، ادھر کپتان بھی قوم کو ’’نیا پاکستان‘‘ کا نعرہ دے کر الّو بنائے ہوئے ہے اس کے لیے پاکستان کی جھلک خود اس کے ارد گرد دیکھی جاسکتی ہے جہاں سب پٹے ہوئے چہرے موجود ہیں اور خیبر پختونخوا میں بیڈ گورننس کا نیا ریکارڈ قائم ہوگیا ہے لیکن ایسا معلوم ہوتا ہے کہ قدرت اسے ’’نیا پاکستان‘‘ بنانے کا موقع دینے کے موڈ میں نہیں ہے اور نا اہلی کی تلوار اس کے سر پہ بھی لٹک رہی ہے، رہے زرداری تو وہ زیادہ خوش نہ ہوں وہ قوم کو بہت الّو بناچکے اب ان کی باری بھی آنے والی ہے۔
ہاتف غیب صدا لگارہا ہے
چراغ سب کے بجھیں گے ہوا کسی کی نہیں
پاکستان کو اقوام عالم میں باوقار انداز سے زندہ رہنا ہے تو یہ کچرا صاف ہوکر رہے گا۔ وگرنہ ہماری داستان تک نہ ہوگی داستانوں میں