زبان خلق کو نقارۂ خدا سمجھو

365

حبیب الرحمن
بہت سارے معاملات میں یوں محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار کسی بھی طرح سنجیدگی اختیار کرتے نہیں دکھائی دے رہے۔ کچھ باتین تو ایسی ہوتی ہیں جن کے متعلق کہا جاسکتا ہے یہ معمولی ہیں لیکن بلوچستان کے متعلق جو باتیں مسلسل سامنے آرہی ہیں ان کے متعلق یہ خیال کرنا کہ یہ بہت اہم نہیں، شاید ایک بڑی بھول ہے اور ڈر اس بات کا ہے کہ کہیں یہ بھول آنے والے دنوں میں کسی بڑی تباہی کا سبب نہ بن جائے۔
کچھ معاملات بہت سطحی اور عوامی سے ہوتے ہیں۔ کسی حد تک میں براہمداخ بگٹی کی ہرزہ سرائی سے بھی چشم پوشی کر سکتا ہوں لیکن اگر بلوچستان سے یا پختون رہنماؤں سے تعلق رکھنے والے بلند پایا افراد کی زبان سے بھی ایک تسلسل کے ساتھ ایسی باتیں سامنے آئیں جن میں بلوچستان سے متعلق تشویش پائی جاتی ہو تو پھر معاملہ کسی بھی طرح معمولی یا سطحی نوعیت کا نہیں رہتا اور اس کو مسلسل نظرانداز کیا جانا یا آسان لینا کسی بھی لحاظ سے اچھا شگوں نہیں۔
کیا پاکستان کے سابق وزیر اعظم ظفر اللہ جمالی کوئی ہلکی شخصیات میں شمار ہوتے ہیں جو وزارت عظمیٰ پر متمکن ہوتے ہوئے بلوچستان کے متعلق اپنی تشویش کا اظہار کرتے رہے؟ کیا محمود خان اچکزئی کو معمولی شخصیت قرار دیا جا سکتا ہے جن کے متعلق میں کالم تحریر کر چکا ہوں یا سابق وزیر اعلیٰ بلوچستان اختر مینگل کو ہلکا پھلکا لیڈر تصور کیا جا سکتا ہے جو بر سر عام اپنے خد شات کا اظہار کرتے رہے ہیں اور مسلسل کر رہے ہیں۔



یہی نہیں، اسی طرح کم و بیش بلوچستان اور صوبہ پختون خوا کے کئی ذمے دار اور بڑی بڑی وزارتوں پر متمکن افراد، رہبران اور سیاسی پارٹیوں سے تعلق رکھنے والے دیگر عہدیداران اپنی اپنی تقاریر اور پریس کانفرنسوں میں بلا جھجک بہت کچھ لاوا اگلتے رہے ہیں لیکن ’’سب ٹھیک ہے‘‘ کہہ کر ہر ہر فرد اور رہنما کی آواز کو محض ’’آوازے‘‘ سمجھ کر اس طرح رد کر دیا جاتا ہے جیسے وہ سارے بے حیثیت یا معمولی درجے کے افراد ہوں۔
دوسرے بلوچی رہنما کیا کیا کچھ کہتے رہے ہیں ان کی نشان دہی تو میں کرتا آیا ہوں، اب ذرا یہ بھی دیکھیں کہ عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب کیا کہہ رہے ہیں اور وہ بھی پاکستان کے قیام کے 70 برس مکمل ہونے کی مناسبت سے بی بی سی اردو کی خصوصی انٹرویو سیریز وژن پاکستان میں گفتگو کرتے ہوئے فرما رہے ہیں۔ ان کی اور اب تک بلوچستان سے تعلق رکھنے والے دیگر افراد کی باتوں میں کوئی خاص فرق نہیں لیکن اس کے باوجود محسوس یہی ہوتا ہے کہ پاکستان کے ارباب اختیار و اقتدار بلوچستان کے مسئلے کو اور پاکستان میں سر ابھارنے والی شرپسندی کے متعلق غور کرنے کے لیے ذرہ برابر بھی تیار نہیں۔
عوامی نیشنل پارٹی کے مرکزی رہنما اور سابق سینیٹر افراسیاب خٹک کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ریاست اب تک انتہا پسندی کے کارخانے چلا رہی ہے اور جب تک یہ جاری رہیں گے معاشرے سے انتہا پسندی ختم نہیں ہو سکتی۔ وہ فرماتے ہیں ملک میں شدت پسندی بڑھنے کی وجہ جنرل ضیاالحق کے مارشل لا کے دوران جہاد کی پالیسی تھی اور کہا کہ یہاں ریاست انتہا پسند ہوگئی تھی اور اس نے معاشرے کو انتہا پسندی کا شکار کیا۔ معاشرہ کیسے امن کا گہوارہ بن سکتا ہے اگر ریاست انتہا پسندی کے کارخانے چلاتی رہے؟‘ انہوں نے مزید کہا کہ ’’ڈکٹیٹروں نے ملک ٹھیک کیا، سویلینز نے بیڑہ غرق کر دیا‘‘۔ حافظ سعید کے متعلق انہوں نے اظہار خیال کرتے ہوئے کہا کہ ’’وہ معاشرے کے لیے خطرہ بن سکتے ہیں‘‘۔



جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا ثبوت ہے ان کے پاس کہ ریاست یہ کام کر رہی ہے تو عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما کا کہنا تھا ’’جیسے طالبان یہاں بیٹھے ہیں، کالعدم تنظیمیں ہیں جو جلسے جلوس کرتی ہیں، ان کے خلاف کارروائی نہیں ہورہی۔ تو ظاہر ہے کوئی نہ کوئی تو ان کا سرپرست ہے‘‘ یہ سب باتیں ثبوت نہیں تو اور کیا ہیں؟ انہوں نے کہا کہ ان تنظیموں کے خلاف جان بوجھ کر کارروائی نہیں ہورہی اور کارروائی نہ ہونے کا سبب سیاسی ارادے کی کمی ہے۔ خصوصاً پنجاب میں کارروائی نہیں ہوئی جہاں جہادی اور شدت پسندی کے نظریہ دان بیٹھے ہوئے ہیں۔ گفتگو کے سلسلے کو جاری رہتے وہ مزید فرماتے ہیں ان عناصر کے خلاف کارروائی نہ ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ’’اگر آپ پرانی افغان پالیسی چلائیں گے تو اس کے لیے آپ کو نان اسٹیٹ ایکٹرز کی ضرورت پڑے گی۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ پنجاب میں سیاسی مصلحت اور کچھ ووٹ پاکٹ برقرار رکھنے کے لیے بھی ان کے خلاف کارروائی سے گریز کیا جارہا ہے، اس طرح سیاسی مقاصد کے لیے ملکی مفادات کو داؤ پر لگا یا جا رہا ہے‘‘۔ انہوں نے الزام لگانے سے گریز کرتے ہوئے یہ بھی کہا کہ سرتاج عزیز نے گزشتہ برس آن ریکارڈ کہا کہ طالبان لیڈر شپ پاکستان میں بیٹھی ہوئی ہے۔ انہوں نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ الزام نہیں یہ ایک ذمے دار شخص کی ایک ایسی بات ہے جو ریکارڈ پر ہے۔ جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا اب بھی طالبان قیادت پاکستان میں موجود ہے، تو انہوں نے کہا کہ ’’ظاہر ہے اب تک کسی نے اس کی تردید تو نہیں کی‘‘۔
بی بی سی کے پوچھے گئے ایک سوال کے جوان میں افراسیاب خٹک نے کہا کہ ملک کی خرابی میں سویلینز نے بھی کردار ادا کیا ہے لیکن فوجی حکمرانوں نے سب سے زیادہ قانون توڑا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ’’سویلینز نے جو خرابی کی ہے اس کے ٹھیک کرنے کا طریقہ بھی موجود ہے۔ لیکن مارشل لا لگانا سب سے بڑی خرابی ہے، سویلین تو مارشل لا نہیں لگا سکتے۔ لیکن اگر ریاست کے بنیادی قانون کی خلاف ورزی کی جائے تو اس سے لاقانونیت جنم لیتی ہے اور کرپشن بھی ملک میں مارشل لا کی وجہ سے پھیلی ہے‘‘۔ اس سوال کے جواب میں کہ فوجی حکمران کہتے ہیں کہ ملک نے ڈکٹیٹر شپ میں ترقی کی اور جب بھی سویلینز آتے ہیں وہ صرف لوٹ اور کھسوٹ کرتے ہیں، عوامی نیشنل پارٹی کے رہنما نے کہا کہ وہ یہ بات ٹھیک نہیں کہتے۔ ’’وہ جو نام نہاد ترقی ہے اور وہ جو نام نہاد استحکام ہے اس کے نتائج پر نظر ڈال لیجیے۔ ایوب خان کے مارشل لا کے دس سال بعد پاکستان ٹوٹ گیا۔ ابھی تک حمودالرحمٰن کمیشن کی رپورٹ نہیں چھپی، کارگل کے واقعے کی تحقیقات نہیں ہوئیں۔ ایبٹ آباد کمیشن کی رپورٹ سامنے نہیں آئی۔ اگر یہ رپورٹیں سامنے آتیں تو جنرل مشرف جیسے لوگوں کو یہ بات کہنے کا موقع نہیں ملتا‘‘۔



بلوچستان کے مسئلے پر بات کرتے ہوئے افراسیاب خٹک نے کہا کہ ان کی پارٹی پرتشدد تحریک اور علیحدگی کے حق میں نہیں لیکن بلوچستان میں مظالم بھی ہورہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ یہ جو لاپتا افراد کا معاملہ ہے، جو لاشیں ملنے کا سلسلہ ہے، حکومتی ادارے اس الزام سے خود کو نہیں بچا سکتے کہ وہ بلوچستان میں ہلاکتوں میں ملوث ہیں۔ ’’ایسے کئی شواہد موجود ہیں کہ وہ ملوث رہے ہیں‘‘۔
جب کوئی ایک بات تسلسل سے کہی جا رہی ہو اور کہنے والے بھی اس ملک کے عام افراد نہیں ہوں تو ارباب اختیار و ارباب حکومت کا فرض بنتا ہے کہ وہ ایسی باتوں کو بہت سنجیدگی کے ساتھ لیں اور اس کو محض تعصب پسندی کا سبب یا محدود سوچ کا شاخسانہ نہ سمجھیں۔ بلوچستان کے حالات ہوں یا فاٹا اور شمالی علاقاجات کے عوام کے، اگر ہم ان کو دل سوزی کے ساتھ نہیں سنیں گے اور اس بات پر بضد رہیں گے کہ حالات کو ہم اپنی سوچ کے مطابق ہی درست کر لیں گے تو شاید یہ بات کسی حد تک بگاڑ کا سبب بن سکتی ہے۔
یہ آج کی سوچ نہیں ہے، گزشتہ کئی دہائیوں سے باقی ماندہ پاکستان کے تین صوبوں میں اسی قسم کی سوچ سر اٹھا رہی ہے کہ پاکستان میں اصل حکمرانی صرف صوبہ پنجاب کی ہے۔ کسی حدتک یہ بات اس لیے بھی قرین قیاس ہے کہ پنجاب اتنا بڑا صوبہ ہے کہ کسی بھی سیاسی پارٹی کا صرف اس صوبے میں اکثریت حاصل کرلینے کے بعد حکومت میں آجانا ممکن ہو جاتا ہے۔ پاکستان کی افواج کا بھی قریب قریب سارا تعلق پنجاب سے ہی ہے اور یہی دونوں قوتیں ہمیشہ اقتدار میں رہی ہیں خواہ ان کا رہنما یا لیڈر آف دی ہاؤس کوئی بھی رہا ہو۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ آئین میں دی ہوئی صوبائی خود مختاری صوبوں کے حوالے نہیں کرنے کا کا بھی یہی مطلب نکالا جاتا ہے کیونکہ صوبائی خود مختاری سے بھی بہت حد تک پنجاب کی مونوپلی ختم ہو جانے کا خدشہ ہے۔ پھر تین صوبوں میں فوج کی مسلسل موجودگی بھی کئی سوالات کے اٹھنے کا سبب بن جاتی ہے اس لیے پاکستان کے باقی صوبوں میں اس قسم کے سولات کا اٹھائے جانا اور وہ بھی اہم عوامی نمائندوں کا، کوئی غیر معمولی بات نہیں۔ اس لیے ہر صاحب عقل و سمجھ اور ارباب اختیار سے یہی کہا جاسکتا ہے کہ اٹھنے والی آوازوں پر توجہ دیں تاکہ پاکستان کے باقی تین صوبوں میں پھیلی ان سوچوں اور بے چینیوں کا حل نکال کر پاکستان کو آگے کی جانب لے جایا جاسکے۔