پاکستان کے خلاف ’’گریٹ گیم‘‘ 

422

zc_ArifBeharبرطانیہ کے اخبار فنانشل ٹائمز نے پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں در آنے والی کشیدگی کو اس کے مستقبل پر اثرات کے حوالے سے ایک چونکا دینے والی رپورٹ شائع کی ہے۔ مضمون نگار نے یہ رپورٹ واشنگٹن سے بھیجی ہے اور اس کی تیاری میں امریکا کے سرکاری اداروں کے مائنڈ سیٹ کو با آسانی پڑھا اور محسوس کیا جا سکتا ہے۔ رپورٹ میں پاک امریکا تعلقات کے بگاڑ کی کہانی کو تفصیل سے بیان کیا گیا ہے اور کہا گیا کہ ٹرمپ کی تقریر کے بعد امریکا پاکستان کے خلاف کئی سخت اقدامات اُٹھا سکتا ہے۔ جن میں سب سے اہم بات یہ کہ امریکا پاکستان کا اتحادی اور نان ناٹو اتحادی کا اسٹیٹس ختم کر سکتا ہے۔ فوجی امداد کی مکمل بندش، سویلین امداد میں مزید کمی، یک طرفہ ڈرون حملے، پاکستان کو دہشت گردی کی پشت پناہی کرنے والا ملک قرار دینا اور عالمی مالیاتی اداروں تک رسائی محدود کرنے جیسے اقدامات اُٹھائے جا سکتے ہیں۔ جواباً پاکستان نے بھی کچھ سخت اقدامات اُٹھانے کا فیصلہ کر رکھا ہے۔ جن میں پروٹول ضوابط کو تبدیل کرنا بھی شامل ہے۔ سینٹ کام کے جنرل کی طرف سے وزیر دفاع سے ملاقات کی بار بار درخواستوں کو پزیرائی نہ ملنا انہی اقدامات کا حصہ ہے۔
فنانشل ٹائمز کی رپورٹ پاکستان اور امریکا کے درمیان پالیسی اور سوچ کے تضادات کے باقاعدہ اختلافات میں ڈھلنے کا پتا دے رہے ہیں۔



اگر آنے والے حالات کی یہ حقیقی تصویر ہے تو پھر دونوں ملکوں کا تعلق باقاعدہ دشمنی میں ڈھلتا ہوا نظر آتا ہے۔ پھر حقانی نیٹ ورک، جیش محمد اور لشکر طیبہ محض بہانہ اور کہوٹا اصل نشانہ ہے۔ یہ مطالبات کی پہلی پرت ہے۔ جس کے بعد یہ سفر رکنا نہیں بلکہ بتدریج آگے بڑھنا ہے۔ اس تصور کو فلسفہ سازش اور سازشی تھیوری کہنے والوں کی کمی نہیں مگر عراق، لیبیا کی پریشاں حالی ایک اور ہی کہانی سنارہی ہے۔ دونوں ملک اسرائیل کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں تھے اور ماضی میں اسرائیل کو چیلنج کرتے بھی رہے۔ عراق کا ایٹمی پروگرام شروع ہوتے ہی تباہی کا شکار ہوا۔ اسرائیلی جنگی جہاز آناً فاناً فضا میں نمودار ہوئے اور عراق کی ایٹمی تنصیبات کو ملبے کا ڈھیر بنا گئے۔ کوئی ایف آئی درج ہوئی نہ کئی عالمی سطح پر کوئی موثر صدائے احتجاج بلند ہوئی۔ عراق کی سالمیت اور خود مختاری کا ماتم گسار بھی کوئی نہیں تھا۔ عقوبت اور عتاب کا یہ سلسلہ آنے والے ماہ وسال میں بھی ختم نہ ہو سکا۔ ایٹمی پروگرام پر خود سپردگی کے باجود لیبیا اور قذافی کا جو انجام ہوا عبرت کی داستان ہے۔ امریکا افغانستان میں اپنی ناکامیوں کے لیے جس قربانی کے بکرے کی تلاش میں تھا یوں لگتا ہے کہ پاکستان کی صورت میں وہ آسان ہدف اسے میسر آگیا ہے اور اس ’’سینڈ بیگ‘‘ سے مکے بازی کے کئی مظاہرے بیک وقت جاری ہیں۔ انہی میں ایک مظاہرہ اس وقت ہو ا جب پاکستان نے سویزر لینڈ کے دارالحکومت جنیوا میں بلوچ علیحدگی پسند تنظیم بلوچ لبریشن آرمی کے کی تشہیری مہم پر احتجاج کیا۔ پہلے جنیوا میں پاکستان کے مندوب نے سوئس حکومت کو خط لکھ کر اس تشہیری مہم میں مدد دینے پر سخت احتجاج کیا اور اب اسلام آباد میں سوئس سفیر تھامس کولی کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے اپنے جذبات سے آگاہ کیا گیا۔ سوئس سفیر کو بتایا کہ پاکستان کے خلاف سوئزر لینڈ کی سرزمین کا استعمال بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے۔ سویزر لینڈ اپنی سرزمین کو کسی خود مختار ملک کے خلاف استعمال نہ ہونے دے۔



آزاد بلوچستان کے اشتہار جنیوا میں الیکٹرونک اشتہاری بورڈز اور بسوں پر لگائے گئے اور سوئس اشتہاری ایجنسی اے جی بی ایس اے ان اشتہاروں کی نمائش میں ملوث بتائی جاتی ہے۔ اس دوران انڈین ایکسپریس نے بہت اہتمام سے یہ خبر شائع کی ہے کہ واشنگٹن میں ورلڈ مہاجر کانگریس نے وہائٹ ہاؤس کے سامنے امریکی ڈونلڈ ٹرمپ کی جنوبی ایشیا سے متعلق پالیسی کی حمایت میں مظاہرہ کیا اور ان مظاہرین نے مطالبہ کیا کہ پاکستان کو دہشت گردوں کا سرپرست ملک قرار دیا جائے۔ اس مظاہرے میں بلوچ، مہاجر، افغانی اور بھارتی باشندوں نے شرکت کی۔ سویزر لینڈ اور واشنگٹن میں ہونے والی ان سرگرمیوں میں گہری مماثلت ہے۔ ان سرگرمیوں کا ریموٹ کسی ایک ہاتھ میں دکھائی دے رہا ہے۔ ظاہر ہے وہ ہاتھ بھارت کے سوا اور کس کا ہو سکتا ہے۔ بھارت اور پاکستان اس وقت مخاصمت اور مخالفت کی کیفیت ہیں مگر حیرت ان مغربی ملکوں پر ہورہی جو دہشت گردی کے نام پر حد درجہ حساسیت کا شکار ہیں۔ انہیں کسی فرد اور ملک پر تشدد میں ملوث ہونے کا شائبہ ہو تو اسے اپنے قریب پھٹکنے نہیں دیتے۔ اپنے ملکوں سے ایسے عناصر کو ڈی پورٹ کرنے میں لمحوں کی تاخیر نہیں کرتے اگر کوئی اس ریکارڈ کے ساتھ ان ملکوں میں داخل ہونے کی کوشش کرے تو یہ اسے مار بھگاتے ہیں۔ پاکستان کے معاملے میں مغربی ممالک دوہری پالیسی اپنائے ہوئے ہیں۔ الطاف حسین کراچی اور حیدرآباد میں بدترین تشدد میں ملوث رہے ہیں۔ کئی عشروں سے اس ایک شخص کے حکم پر زندگی اور موت کے فیصلے ہوتے رہے۔ اس تشدد میں ہزاروں بے گناہ ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، وکیل، سیاسی کارکن جان سے گزر گئے مگر الطاف حسین برطانیہ کے مہمان خصوصی کی حیثیت سے مدت سے وہاں موجود ہیں۔ کچھ یہی حال بلوچ شدت پسندوں براہمداغ بگٹی، حیربیار مری اور میر داؤد سلیمان کا ہے جن کی مسلح تنظیمیں بلوچستان بدترین قتل عام اور حکومتی تنصیبات پر حملوں میں ملوث ہیں مگر بھارت کے یہ ’’اچھے طالبان‘‘ دہشت گردی کے خلاف سراپا جنگ اور انسانی حقوق کے عظیم علم بردار یورپ اور امریکا کے پنگھوڑوں میں جھول رہے ہیں۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان اس وقت گریٹ گیم کے گھن چکر میں پھنس گیا ہے اور پاکستان کو اندر سے کمزور کرنے کی کوششیں زوروں پر ہیں۔ پاکستان پر اچھے اور بُرے طالبان کی تفریق کا الزام لگانے والے اپنے پروں کے نیچے الطاف حسین سے براہمداغ بگٹی تک ’’اچھے طالبان‘‘ کی ایک پوری فوج کو چھپائے ہی نہیں بلکہ سجائے ہوئے ہیں۔ اس دوہرے میعار کو کیا نام دیا جا سکتا ہے؟۔ یہ آپشن انہی پر چھوڑ دینا چاہیے۔