حکومت نے مہنگائی کی چکی میں پسے ہوئے عوام کی کمر پر ایک اور بھاری چٹا
علاوہ ازیں بجلی ہو یا توانائی کے دیگر ذرائع، ان کی قیمت بڑھنے سے ضروریات زندگی کی ہر چیز مہنگی ہوجاتی ہے۔ حکومت نے یہ جو بجلی کا جھٹکا دیا ہے اس سے ہر شخص پریشان ہے۔ اوسط آمدنی والے پہلے ہی بمشکل بل ادا کرتے تھے اور اب وہ پریشان ہیں کہ بچوں کی فیسیں دیں، مکان کا کرایہ دیں، دو وقت کے کھانے کا بندوبست کریں یا بجلی کا بل ادا کریں۔ ایسے میں اگر بیماری آگئی تو بھیک مانگنے تک کی نوبت آسکتی ہے۔ نیشنل الیکٹرک پاور ریگولیٹری اتھارٹی (نیپرا) نے اپنی نا اہلی کے باعث ہونے والا سارا خسارہ صارفین پر ڈال دیا۔ اگر لائن لاسسز ہورہے ہیں تو اس کے ذمے دار صارفین نہیں بلکہ نیپرا خود ہے۔ اس پر مستزاد بجلی کے استعمال سے قطع نظر بل بھیجنا۔ چھوٹے چھوٹے گھروں میں لاکھوں کے بل بھیج دیے جاتے ہیں اور اگر احتجاج کرو تو کہا جاتا ہے کہ پہلے بل جمع کراؤ پھر دیکھیں گے۔ ایک اندھیر مچا ہوا ہے۔ بجلی کے ساتھ گیس کی قیمت بھی بڑھا دی گئی ہے اطلاعات کے مطابق ناقص نظام سے ہونے والا 196 ارب روپے کا نقصان صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ نیپرا نے ڈسٹری بیوشن کمپنیوں (ڈسکور) کو 186 ارب روپے صارفین کے کھاتے ہیں ڈالنے کی اجازت بخوشی دیدی ہے۔ گیس 60 روپے فی ایم ایم بی ٹی یو مہنگی کردی گئی ہے۔ یو ایف جی کا 10 ارب روپے کا خسارہ بھی صارفین سے وصول کیا جائے گا۔ اندھیر نگری چوپٹ راجا کی مثال صادق آرہی ہے اور راجا کہتا ہے کہ بجلی بہت ہے۔