آئی جی سندھ کے قابل تحسین اقدامات

515

ملک الطاف حسین
سندھ ہائی کورٹ نے اپنے ایک فیصلے میں آئی جی سندھ اے ڈی خواجہ کو نہ صرف عہدے پر برقرار رکھنے کا حکم جاری کیا بلکہ 7 جولائی 2017ء کے بعد پولیس افسران کے تبادلے اور تقرر کے حکومتی اقدامات کو بھی کالعدم قرار دے دیا۔ قانون کی بالادستی کے لیے بااختیار انتظامیہ ضروری ہے جب کہ اچھی حکمرانی کے لیے دیانت دار بیورو کریسی سمیت آئین و قانون کا احترام کرنے والی سولِ حکومت لازمی ہے تاہم بدقسمتی سے پاکستان کا حالیہ منظرنامہ مذکورہ تقاضوں سے ہم آہنگ نظر نہیں آتا۔ ہوس زر اور خواہش نفس نے حکمرانوں اور ان کے اتحادیوں کو اس قدر بدمست اور گمراہ کردیا ہے کہ وہ ہر اُس ادارے کا دروازہ بند کرنا چاہتے ہیں کہ جس سے کسی احتساب کا کوئی خطرہ ہو یا یہ کہ ہر اس افسر کو بے اختیار کردینا چاہتے ہیں کہ جو قانون کی زبان میں بات کرتا ہو، یہی وجہ ہے کہ سیاسی حکمران اور وزرا عدالت عالیہ و عظمیٰ کے اُن فیصلوں کو دِل سے ماننے کے لیے تیار نہیں کہ جن میں آئین کی حفاظت، قانون کی بالادستی اور اچھی حکمرانی کی بات کی گئی ہو، لہٰذا جب بھی کسی عدالت سے قانون کی بالادستی اور کرپشن کے خلاف فیصلہ ہوا تو سب سے پہلے منتخب حکمران ہی اُٹھ کھڑے ہوئے۔
پاناما کیس میں وزیراعظم نواز شریف کا عدالت عظمیٰ کے فیصلے کے ذریعے ’’نااہل‘‘ ہونے اور سندھ پولیس کے آئی جی اے ڈی خواجہ کا سندھ ہائی کورٹ کے ذریعے اپنے عہدے پر اختیارات کے ساتھ برقرار رہنے کے فیصلوں کے بعد یوں محسوس ہونے لگا ہے کہ جیسے پاکستان میں موجود برسوں سے کرپشن کا نظام اور اس کا محافظ مافیا لڑکھڑانے لگا ہے گو کہ اس کو زمین بوس کرنے کے لیے ابھی کافی وقت اور مزید سخت فیصلے چاہئیں تاہم اعلیٰ عدلیہ کے مذکورہ فیصلوں کو دیکھتے ہوئے یہ اُمید ضرور ہوچلی ہے کہ آنے والے دنوں میں قانون کا احترام اور قومی خزانے کو امانت سمجھنے کا رواج عام ہوچلے گا۔ ان شاء اللہ۔



بہرحال آئی جی اے ڈی خواجہ نے سندھ پولیس کے اندر اصلاحات اور شفافیت کے لیے جو تازہ اقدامات اُٹھائے ہیں ہم نہ صرف اُن سے اتفاق کرتے ہیں بلکہ سندھ کے عوام بجا طور پر یہ اُمید رکھتے ہیں کہ آئی جی صاحب کے حالیہ اقدامات سے سندھ پولیس عوام کی حقیقی خادم اور محافظ بن کر سامنے آئے گی۔ سندھ ہائی کورٹ کے مذکورہ فیصلے کے بعد آئی جی صاحب کافی متحرک نظر آنے لگے ہیں تاہم ان کے تازہ اقدامات میں یہ فیصلہ بہت اہم ہے کہ جس میں کہا گیا ہے کہ گزشتہ ایک سال میں جن وی آئی پیز، اہم شخصیات، وڈیروں اور سرکاری عہدیداروں کو پولیس اسکواڈ فراہم کیے گئے ہیں ان کی فہرست آئی جی آفس کو فراہم کی جائے۔ علاوہ ازیں تھانوں اور اہم عہدوں پر ایک سال سے تعینات ایس ایچ اوز، ڈی ایس پیز اور دیگر عہدیداروں کے نام بھی منگوالیے گئے ہیں۔ ہم سمجھتے ہیں کہ انسپکٹر جنرل پولیس کا مذکورہ فیصلہ بہت اہم ہے کیوں کہ سفارشی آفیسرز کی تعیناتی ہی مجرموں کو تحفظ دینے اور متاثرین کو نظر انداز کرنے کا پہلا سبب ہے جب کہ وڈیرہ اور بااثر شخص ان سفارشی آفیسرز ہی کے ذریعے قانون کو توڑتا اور من مانی کرتا ہے۔ علاوہ ازیں رشوت کا جو بازار گرم ہے اور جس میں عزت و آبرو سے لے کر بے گناہ کا خون تک بیچا اور خریدا جاتا ہے، جہاں تھانے بکتے ہوں اور پولیس مین ’’ویزے‘‘ پر گھر جاتا ہو، جہاں سرکاری ڈیوٹی دینے کے بجائے پولیس سے پرائیویٹ لوگوں کی خدمت کا کام لیا جاتا ہو، جہاں قانون کے مطابق پولیس گارڈ رکھنے کا استحقاق رکھنے والوں سے کہیں زیادہ پولیس گارڈ ایسے لوگوں کو مہیا کیے جاتے ہوں کہ جنہیں خود پولیس کی حراست میں ہونا چاہیے، جہاں گارڈ رکھنے والا شخص اپنے محافظ کی آدھی تنخواہ بھتے کے طور پر وصول کرتا ہو، مذہبی و سیاسی رہنماؤں سے لے کر صحافیوں اور وڈیروں تک کے لوگ پولیس گارڈ رکھنے کے منافع بخش کاروبار میں ملوث ہیں۔ جیکب آباد میں خاص طور پر پولیس گارڈ زیادہ تر ایسے لوگوں نے حاصل کر رکھے ہیں کہ جن کا سرکاری یا سماجی اسٹیٹس ایسا نہیں کہ ان کی خدمت اور حفاظت کے لیے پولیس گارڈ فراہم کیے جائیں۔



عوام چاہتے ہیں کہ وی آئی پیز سمیت جن جن لوگوں کو پولیس اسکواڈ یا گارڈ فراہم کیے گئے ہیں اُن میں سے ہر ایک کا فرداً فرداً جائزہ لے کر قانون کے مطابق ازسرنو فیصلے کیے جائیں جب کہ اس کے ساتھ ہی سندھ پولیس کے تمام ایس پی صاحبان کو پابند کیا جائے کہ وہ پریس کانفرنس کے ذریعے اپنے اپنے ضلع میں پولیس کی کل تعداد، تھانوں اور چوکیوں پر ان کی تعیناتی سمیت جن جن پرائیویٹ یا سرکاری افسران کو پولیس گارڈ فراہم کیے گئے ہیں ان کی مکمل تفصیلات بیان کریں تا کہ عوام اور دیگر ادارے بھی یہ دیکھ سکیں کہ پولیس کل کتنی تعداد میں ہے اور کہاں کہاں خدمات انجام دے رہی ہے۔ جرم کو روکنے اور مجرم کو گرفت میں لانے کے لیے ضروری ہے کہ پولیس کی نفری پولیس ہیڈ کوارٹرز اور تھانوں میں ضرورت کے مطابق موجود ہو، مزید برآں اس بات کو بھی یقینی بنایا جانا چاہیے کہ پولیس اہلکاروں کو ڈیوٹی کے دوران قانون کے مطابق جو سہولتیں ملنی چاہئیں اُن میں کسی بھی طرح کی کوئی خیانت یا کمی واقع نہ ہو، پولیس اہلکاروں کا ڈیوٹی کے دوران زخمی یا شہید ہوجانے پر ان کے لواحقین کو قانون کے مطابق جو مراعات اور اعزازات ملنے چاہئیں ان کی ادائیگی اور فراہمی کو بھی مختصر وقت میں مکمل ہونا چاہیے، پولیس کے مورال کو بلند کرنے کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ پولیس کے اندر وڈیرہ شاہی اور سیاسی اشرافیہ کی مداخلت کو ہر صورت روکا جائے جب کہ پولیس کی بھرتی مکمل میرٹ پر ہونی چاہیے۔