سانحہ ماڈل ٹاؤن رپورٹ کب تک چُھپے گی ؟

299

Edarti LOH



ماڈل ٹاؤن لاہور میں پاکستان عوامی تحریک کے کارکنوں پر پولیس کی وحشیانہ فائرنگ اور 14انسانوں کے صریحاً قتل کو 3سال گزر گئے لیکن اب تک عوام کو یہ نہیں بتایا گیا کہ قتل کس کے حکم پر ہوا اور قاتلوں کو کیا سزا ملی۔ ایسا معاشرہ ہرگز بھی مہذب قرار نہیں دیاجاسکتا جہاں قاتلوں کو کھلی چھوٹ ہو اور قاتل بھی وہ جو قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کے باوردی ملازم ہوں۔ اس کی بنیادی و جہ یہ ہے کہ نہتے لوگوں کے قتل عام کی ذمے داری برسر اقتدار حکمرانوں پر عاید کی جارہی ہے جو کبھی نہیں چاہیں گے کہ قاتلوں کا نام سامنے آئے۔ وزیر اعلیٰ پنجاب رانا ثنا اللہ صاف جھوٹ بولتے ہیں کہ یہ دو طرفہ مقابلہ تھا۔ جب کہ دوسری طرف سے ایک گولی بھی نہیں چلی ورنہ حملہ آور پولیس میں سے کوئی تو زخمی ہوتا۔ وزیر اعلیٰ پنجاب شہباز شریف کو ادارہ منہاج القرآن پر حملے کی اطلاع صبح 9بجے ہی مل گئی تھی لیکن انہوں نے کچھ نہیں کیا اس لیے وہ بھی اس واقعہ کے ذمے دار ہیں ، جس میں پولیس نے تاک تاک کر گولیاں چلائیں اور ایک خاتون کو بھی شہید کیا۔ ان باوردی حملہ آوروں کی وڈیوز گزشتہ 3سال سے ٹی وی چینلز پر دکھائی جارہی ہیں جن میں ان سفاک اہلکاروں کے چہرے صاف پہچانے جارہے ہیں۔ 16جون 2014ء کو پیش آنے والے ریاستی قتل عام کی تحقیقات کے لیے جسٹس باقر نجفی کی قیادت میں عدالتی کمیشن قائم کیا گیا تھا لیکن اس کی رپورٹ کو بھی حکمرانوں نے سامنے نہیں آنے دیا۔ اس سے صاف ظاہر ہے کہ رپورٹ میں ان حکمرانوں کے نام ہیں۔



تاہم گزشتہ جمعرات کو عدالت عالیہ لاہور نے حکم دیا ہے کہ سانحہ ماڈل ٹاؤن کی رپورٹ عام کی جائے۔ جسٹس مظاہر علی نقوی نے اپنے حکم میں کہا ہے کہ اصل ذمے داروں کا علم ہونا متاثرین کا حق ہے، یہ ایک اہم اور عوامی مفاد کا معاملہ ہے ، عوام کو بروقت انصاف نہ فراہم کرنے سے عدلیہ کی ساکھ متاثر ہوتی ہے، عدالتیں عوام کے بنیادی حقوق کے تحفظ کی ضامن ہیں۔ معزز جج نے بہت صحیح کہا ہے لیکن مذکورہ واقعے میں تو انصاف اب تک نہیں ملا اور اگر حکمرانوں نے عدالت عالیہ لاہور کے مذکورہ حکم پر سانحہ کی رپورٹ عام نہ ہونے دی تو کیا عدلیہ کی ساکھ مزید متاثر نہیں ہوگی ؟ دیکھنا ہے کہ عدالت اپنی ساکھ بچانے کے لیے کہاں تک جاتی ہے کیوں کہ پنجاب حکومت نے تو اپنا ارادہ ظاہر کردیا ہے کہ اس فیصلے کو چیلنج کیا جائے گا اور رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دی جائے گی۔ یعنی یہ رپورٹ پنجاب حکومت اور حکمرانوں کے خلاف ہے اس لیے پوری کوشش کی جائے گی کہ مجرموں کا نام سامنے نہ آنے پائے۔ پنجاب کے وزیر قانون رانا ثناء اللہ نے نیا شوشا چھوڑا ہے کہ اس سے فرقہ واریت کا خدشہ ہے۔ عدالت کے فیصلے سے ن لیگ میں کھلبلی مچ گئی ہے اور وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے رپورٹ منظر عام پر نہ لانے کی ہدایت کردی ہے۔ ممکن ہے انہیں اپنی سلامتی بھی خطرے میں پڑتی ہوئی نظر آرہی ہو۔ ماہرین قانون سے صلاح، مشورے شروع ہوگئے ہیں اور شہباز شریف خود بھی لندن جارہے ہیں۔

پنجاب حکومت نے طے کرلیا ہے کہ عدالت عالیہ کے فیصلے پر انٹرا کورٹ اپیل دائر کریں گے۔ جواز یہ ہے کہ یہ سنگل بینچ کا فیصلہ ہے جسے فل بینچ کے سامنے پیش کیا جائے گا۔ لیکن قاتل اور ان کے سرپرست کب تک اپنی خیر مناتے رہیں گے۔ آخر ایک دن تو یہ رپورٹ سامنے آئے گی۔ جو پولیس افسران حملے میں پیش پیش تھے ان میں سے دو چار سے روایتی طریقے سے تفتیش کی جائے تو طوطے کی طرح بولنے لگیں گے۔ پنجاب حکومت کو شرم آنی چاہیے کہ ادارہ منہاج القرآن پر حملے میں پولیس نے قتل عام کے ساتھ ضعیف کارکنوں کو بھی بڑی بے دردی سے گھسیٹا اور زدوکوب کیا۔ رانا ثناء اللہ کہتا ہے کہ ادارے کے اندر سے بھی فائرنگ کی گئی۔ ثناء اللہ اپنے نام ہی کی لاج رکھ لیں، اقتدار کی ثنا کب تک کریں گے۔