عافیہ کسے وکیل کرے۔۔۔کس سے منصفی چاہے

239

Edarti LOH

آج جب کہ پاکستانی قوم پاناما، نیب اور عدالتی فیصلوں کے حوالے سے خبروں میں الجھی ہوئی ہے اسے یہ یاد بھی نہیں ہوگا کہ 23 ستمبر کو اس قوم کی ایک بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو جدید دنیا کی عظیم نا انصافی پر مبنی 86 برس کی سزا اس کے ناکردہ گناہ پر دے دی گئی تھی اس سزا کو بھی سات برس پورے ہوگئے۔ جیل کی زندگی کے اعتبار سے سات برس کا مطلب 14 برس ہوتا ہے جب کہ عافیہ کو اپنے اہلخانہ سے بچھڑے 14 برس ہوچکے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے سیاہ کارناموں میں سے ایک یہ بھی ہے کہ اس نے اپنی ہی قوم کی بیٹی کو امریکا کے حوالے کردیا تھا۔ ان کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے اس کا اعتراف بھی کیا اور اسے اپنی سب سے بڑی غلطی بھی قرار دیا تھا۔ ایک طرف امریکی بے حسی اور ظالمانہ رویہ ہے تو دوسری طرف پاکستانی حکمرانوں کی غیرت سے عاری روش ہے۔ ان 14 برسوں میں نواز شریف، عمران خان، الطاف حسین، یوسف رضا گیلانی، چودھری شجاعت سمیت درجنوں وزرا، گورنروں اور وزرائے اعلیٰ نے عافیہ کو اپنی بیٹی قرار دیا اور اس کی رہائی کو اپنا اولین مشن کہا لیکن صدر مملکت ممنون حسین سے لے کر عام رکن قومی اسمبلی تک سب صرف باتیں بناتے اور تقریریں کرتے یا تصویر بنوانے کے لیے عایہ کی والدہ کے پاس آتے رہے۔ ان میں سے کسی نے سنجیدہ کوشش نہیں کی۔



پیپلزپارٹی کے دور میں عافیہ کا بیٹا احمد اور بیٹی پاکستان آئے تو پی پی والے اس کا سہرا اپنے سر باندھتے ہیں۔ اسے مان بھی لیا جائے تو پھر عافیہ کو کیوں نہیں لاسکے۔ در حقیقت بچوں کو بھی عوامی دباؤ کے نتیجے میں لانا ممکن ہوا۔ لیکن عافیہ کو لانے میں عوامی دباؤ سے بڑا کوئی دباؤ ہے جو اس راہ میں رکاوٹ ہے۔ پاکستانی حکومت کو ریمنڈ ڈیوس کی گرفتاری کے وقت نادر موقع ملا تھا لیکن حواس باختہ حکمرانوں نے اسے ضائع کیا اب شکیل آفریدی قبضے میں ہے اس کو ایسے ہی نہ چھوڑ دیا جائے اس کے بدلے عافیہ کو لایا جاسکتا ہے۔ میاں نواز شریف تو اب خود پاکستان نہیں آسکتے ان سے عافیہ کو لانے کی بات کیا کی جائے۔ جنرل پرویز بھی پاکستان نہیں آسکتے ان سے عافیہ کو فروخت کرنے کا سوال کون کرے۔ عدالتیں وزیراعظم کو معزول کررہی ہیں، وزیروں کو طلب اور برطرف کررہی ہیں لیکن ایک بیٹی کو لانے کے بارے میں حکمرانوں سے باز پرس نہیں کرسکتیں۔ ان حالات میں عافیہ کی والدہ، بہن اور بچے یہی کہہ سکتے ہیں کہ :کسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں۔