ڈاکٹر عافیہ، 86سالہ قید کے 7سال !

360

zr_M-Anwerاگرچہ ڈاکٹر عافیہ کے بارے میں چند روز قبل ہی میں نے ان ہی صفحات پر اپنے جذبات کا اظہار کیا تھا لیکن پاکستان کی یہ بیٹی گزشتہ سات سال سے امریکی جیل میں ناکردہ جرم کی پاداش میں 86 سال کی سزا کاٹ رہی ہے۔ اتنی طویل سزا کے بارے میں سن کر ہی رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے امریکا کی یونیورسٹی Brandeis سے پی ایچ ڈی (Ph.D) کی ڈگری حاصل کی۔ ان کے مقالے کا موضوع تھا ’’ابتدائی عمر میں بچوں کی ذہنی نشوونما‘‘۔ گو کہ بچوں کی ذہنی نشو نما کے لیے پی ایچ ڈی کرنے والی ڈاکٹر کو قید کرکے اس عظیم کام ہی سے روک دیا گیا۔ امریکا کی جانب سے اڑائی گئی باتیں اور الزامات تو بہت ہیں لیکن سچ صرف یہ ہے کہ امریکی حکام یا اسٹیبلشمنٹ نے ڈاکٹر عافیہ کو صرف اس بات کی سزا دی ہے کہ وہ مستقبل کے معماروں کی بہترین تربیت کا ارادہ رکھتی تھیں۔
ڈاکٹر عافیہ کی ایک بدقسمتی یہ بھی رہی کہ وہ ایک ایسے ملک کی بنیادی اور مستقل شہری تھیں جہاں کے حکمران اپنے مفادات کے لیے امریکا کی گود میں بیٹھ کر اس کے قیام کے مقاصد کو ہی زائل کرنے کی کوشش میں رہتے ہیں۔ اگر عافیہ قیام پاکستان کے ابتدائی دنوں میں ہوتیں تو آج وہ قائد اعظم محمد علی جناح کے نظریات کے مطابق ان کے شانہ بشانہ کام کرنے والی بھی کہلاتیں۔لیکن وقت کے ساتھ سب کچھ بدل گیا۔ حکمران اور اقتدار کے لالچی سیاست دان نظریہ پاکستان کا گلا گھونٹنے کی کوشش میں مصروف ہوگئے اور جن ملکوں کے سربراہ پاکستان کے حکمرانوں کی غیر معمولی عزت و احترام کیا کرتے تھے ان ہی کے ہاتھوں اس کا سودا کرنے میں لگ گئے۔



ڈاکٹر عافیہ کا قصور یہ ہے کہ وہ ایسے ملک کی شہری ہیں جہاں کے حکمران امریکا کے اشارے پر وہ سب کچھ کرسکتے ہیں جو امریکی حکام چاہتے ہیں اسی لیے عافیہ امریکیوں کے حوالے کی گئیں۔ آج تک یہ بھی نہیں معلوم کیا گیا کہ کراچی سے عافیہ کو کس طرح افغانستان میں موجود امریکی فوج کے پاس پہنچایا گیا تھا۔ 2 سال سے زائد کا عرصہ گزر گیا ہم نہیں جانتے وہ امریکی جیل میں کس حال میں ہے؟ تشویش کی بات تو یہ بھی ہے کہ گزشتہ 2 سال سے اہل خانہ کا عافیہ سے ٹیلی فون پر رابطہ بھی نہیں کرایا جارہا ہے۔ اس رویے پر ہمارے حکمرانوں کی خاموشی افسوس ناک ہے۔
عافیہ کو 2010 ء میں مقدمہ کی کاروائی کے دوران زخمی حالت میں امریکی عدالت میں پیش کیا جاتا رہا تھا۔ انہوں نے بھری عدالت میں جج کو مخاطب کرکے کہا تھا کہ ’’میں پاگل نہیں ہوں میں ایک مسلمان عورت ہوں مجھے مرد فوجی زبردستی برہنہ کرکے تشدد کا نشانہ بناتے ہیں اور میرے قدموں میں قرآن ڈالا جاتا ہے۔ میڈیا اس بات کا گواہ ہے کہ امریکی جیلوں میں خواتین قیدیوں کے ساتھ انسانیت سوز سلوک ہوتا ہے۔ Strip Searching کے نام پر خواتین کی تذلیل اور تشدد عام سی بات ہے۔ ٹیکساس کی جس جیل میں ڈاکٹر عافیہ کو رکھا گیا ہے اس کو House of Horror کہا جاتا ہے۔ مارچ، 2017 ء کے اوائل میں ہیوسٹن، ٹیکساس میں پاکستانی قونصلیٹ کی خاتون قونصلر عائشہ فاروقی کی امریکی جیل میں ڈاکٹر عافیہ کی حالت زار دیکھ کر آنکھ بھرآئی جس کی تفصیلات پاکستانی ذرائع ابلاغ میں آچکی ہیں۔
بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ مشرف دور کے وزیر خارجہ خورشید محمود قصوری نے 23جنوری 2012 کو ان الفاظ میں عافیہ کی معصومیت اور اپنی غلطی کا اعتراف کرچکے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ’’یہ میری غلطی تھی کہ میں نے معصوم ڈاکٹر عافیہ کو امریکا کے حوالے کیا تھا جس کے لیے میں معذرت خواہ ہوں‘‘۔ ان کے اس اعترافی بیان کو ٹویٹر پر ملاحظہ کیا جاسکتا ہے۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی جیسی خواتین آج ہمارے معاشرے میں بہت کم ہیں۔ جو بیک وقت اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہو اور دینی علوم پر بھی دسترس رکھتی ہوں اور ساتھ ہی ساتھ بہترین تقریری اور تحریری صلاحیتوں کی حامل ہوں۔ کراچی کے گلستان شاہ لطیف اسکول سے لیکر ایم آئی ٹی اوراسکول کے دور ہی سے انہوں نے کراچی کی سطح کے بے شمار فی البدیہہ تحریری اور تقریری مقابلوں میں کامیابی حاصل کی لیکن سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ قرآن مجید سے بے حد شغف رکھتی ہیں۔ گھر میں بھی سب کو دین کا علم حاصل کرنے کی تلقین کرتی تھیں۔



ڈاکٹر عافیہ آخرت اور اللہ کے نظام پر ایمان رکھتی ہیں وہ اکثر والدہ کو کہا کرتی تھیں کہ ’’امی جان! اس دنیا کے لیے اتنی محنت کریں جتنا یہاں رہنا ہے کیوں کہ آخرت کی زندگی ہی اصل زندگی ہے‘‘۔ قرآن مجید سے ان کے شغف کا یہ عالم ہے کہ جیل میں بھی وہ ہر وقت تلاوت کرتی رہتی ہیں ۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس لحاظ سے بھی منفر خاتوں ہیں کہ اعلیٰ دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دین کا علم حاصل کرنے کی سعی و جدوجہد جاری رکھی اور امریکا میں دوران تعلیم فقہ کا مطالعہ کیا۔ اس شوق میں وہ اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر پاکستان آئیں اور مختلف مذاہب کے تقابلی جائز ے پر اپنی تحقیق کے سلسلے میں مختلف شخصیات سے رجوع کیا۔ انہوں نے اسلام، عیسائیت اور یہودیت کے موضوع پر ریسرچ کی اور جب وہ اس موضوع پر خطاب کرتیں تو بڑے بڑے اسکالر ان کا جواب دینے سے قاصر ہوتے۔ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے in Pakistan & its effect on women Islamization کے موضوع پر تحقیق کی اور CARROL WILSON AWARD حاصل کیا۔ ان کے استاد پروفیسر نوم چومسکی نے کہا تھا کہ ’’عافیہ جس جگہ جائے گی وہاں سسٹم کو تبدیل کررکھ دے گی‘‘۔ شاید اسی خوف سے دنیا پر راج کرنے کا خواب دیکھنے والے اسلام دشمن عناصر نے ایک منصوبے کے تحت عافیہ کو لمبی قید میں ڈالا ہوا ہے۔



ڈاکٹر عافیہ کو دنیا بھر میں مسلمانوں پر ہونے والے مظالم پر بے حد دکھ اور افسوس رہا کرتا تھا۔ وہ سمجھتی ہیں کہ اس کے ذمے دار امت مسلمہ کے مسلمان حکمران ہیں۔ جب بوسنیا میں مسلمان عورتوں اور بچوں پر بھیانک مظالم ڈھائے گئے تو ہر دردمند مسلمان کی طرح ان کا دل خون کے آنسو روتا تھا۔ ڈاکٹر عافیہ نے بوسنیا کی مظلوم عورتوں اور بچوں کے لیے تن تنہا ہزاروں ڈالر جمع کیے جو شاید کسی طالبہ کی جانب سے فنڈ جمع کرنے کا عالمی ریکارڈ تھا۔ انہوں نے کشمیر کے مسلمانوں کے لیے بھی لاکھوں روپے جمع کیے۔ ان کی شائستگی اور اخلاق کی وجہ سے تمام اساتذہ اور طلبہ ان کے گرویدہ تھے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت پر اعتبار کرتے ہوئے ہر شخص اپنی استطاعت بھر مسلمانوں کی مدد کے لیے تعاون کرتا تھا۔ وہ اپنے وطن پاکستان سے بے حد محبت کرتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ امریکی حکومت کی جانب سے متعدد بار شہریت دیے جانے کی پیشکش کے باوجود انہوں نے اپنے پاکستانی مسلمان ہونے پر فخر کیا اور امریکی شہریت قبول نہیں کی شاید یہی وجہ ہے کہ ان کی شخصیت ایف بی آئی کوکھٹکنے لگی۔ جس کے نتیجے میں انہوں نے قید کرکے رکھ دیا۔
23ستمبر، 2010 ء امریکی تاریخ کا وہ بھیانک دن ہے جب انصاف کے تمام تقاضوں کو نظر انداز کرتے ہوئے متعصب جج رچرڈ برمن نے حکومت پاکستان کے مقرر کر دہ وکلا کی سازش کے تحت ڈاکٹر عافیہ صدیقی کو 86برس کی سزا سنائی۔ جج نے اپنے فیصلے میں تسلیم کیا کہ ڈاکٹر عافیہ جو پاکستانی شہری ہے، اس کا کسی تنظیم سے کوئی تعلق نہیں ہے اور عافیہ کو صرف اس جرم کی سزا دی جارہی ہے کہ اس پر یہ الزام ہے کہ اس نے 6امریکی فوجیوں کو قتل کرنے کا ارادہ کیا اور بندوق اٹھائی، ان پر گولیاں چلائیں لیکن کسی امریکی فوجی کو نقصان نہیں پہنچا جب کہ ڈاکٹر عافیہ فوجیوں کی جوابی فائرنگ سے زخمی ہو گئیں۔ جج نے اپنے فیصلے میں یہ بات لکھی کہ باوجود اس کے کہ عافیہ کے خلاف کسی قسم کے ثبوت موجود نہیں ہیں لیکن پاکستانی وکلا نے جو دلائل دیے ہیں اس کی روشنی میں عافیہ کو 86برس کی سزا دی جا رہی ہے۔ سزا کے بعد عافیہ نے عدالت میں کہا کہ میں نے اپنا فیصلہ اللہ کی عدالت پر چھوڑ دیا ہے اب میں سب کو معاف کرتی ہوں۔